کیا فرماتے ہیں روزانہ ''کتاب الادب‘‘ کے فتویٰ فروش مسئلہ ٹریکٹر ٹرالی کے بارے میں۔۔۔۔؟
جو سیاست میں اوئے یا تم کو گناہ کبیرہ ، بلاول بھٹوکو سیاسی نابالغ اور عمران خان کو سیاست کا اناڑی قرار دیتے رہے، ان کی سرکاری رقوم سے بھری ہوئی دانش کی ہانڈی قومی اسمبلی کے چوراہے میں پھوٹ گئی۔ قوم نے دیکھا، یہ آداب کی بجائے غلاظت سے بھرپور تھی۔ درباری دانش کے سب سے بڑے ''راگی‘‘ نے اپنے خاندانی مرشد کا خیال بھی نہیں رکھا، جس نے آئین کے آرٹیکل 62 کے ذیلی آرٹیکل نمبر1کی شِق (F) میں راست باز نہ ہونے والے کو پارلیمنٹ کے لیے نااہل قرار دیا، پھر اسی آرٹیکل کے ذیلی شِق(E) میں اسلامی تعلیمات کا مناسب علم نہ رکھنے والے کو بھی نااہل کہہ ڈالا۔ کیا کہنے اس راست باز اور راست گو مرشد کے جس نے آئین کو چند صفحوںکی کتاب بتایا،90 دن میں الیکشن کرانے کا وعدہ کیا پھر11سال سے بھی زیادہ عرصہ وعدہ تو یاد نہ آیا فرشتۂ اجل آ گیا۔ مرشد نے اپنے راست باز اور راست گو ٹولے کی اوقات ان لفظوں میں بیان کی: ''جونہی مارشل لاء لگا یہ دُم ہلاتے ہوئے میرے پیچھے چل پڑے‘‘۔
جب ملک میں عوامی شعور نے دھرنوں کا روپ دھارا تب سے شریفانہ حکومت اعلیٰ اخلاقیات کے روزانہ لیکچر دینا شروع ہوئی۔ اسی ٹیم کے 5 ویڈیو کلپ ان کے قول و فعل کا تضاد کھولنے کے لیئے کافی ہیں۔پہلا، پنجاب کے خادمِ اعلیٰ کا۔ موصوف نے سابق صدر کو درجنوں بار اوئے زرداری کہہ کر للکارا۔ پھر ان کے دانش مند غیر سیاسی صاحبزادے کی سولو انٹرویو کا عمران خان کے بارے میںیہ فقرہ: یہ شخص پتا نہیںکہاں سے آگیا،اس کوکچھ پتا نہیں۔ تیسرے، ایک عدد ہاف وزیر نے شرم وحیا دونوں پر مہر لگائی۔ قومی اسمبلی والے الفاظ باہر بھی میڈیا میں دہرا دیے۔ چوتھا، وزیرِ سرکاری اطلاعات کی مظفر آباد والی تقریر۔ پانچواں، سب سے بڑے صوبے کے302 میں نامزد وزیر کی گل افشانیاں۔ سرکاری ٹیم کی پارلیمانی بد تمیزی انفرادی حرکت نہیں۔ اگر یہ انفرادی حرکت ہوتی تو منصب کا تقاضا نہ سہی انسانی عادت کے تحت ہی سپیکر کو ٹریکٹر ٹرالی کے لفظ پہ حیران ہونا چاہیے تھا۔ مسکراہٹ کا مطلب ہے ''ویری ویل ڈن‘‘۔ ساتھ وزیراعظم ہاؤس کی خاموشی پارلیمنٹ میں بد تمیزی پرکھلی شاباش نہیں تو اور کیاہے؟ یہ وہی پارلیمنٹ ہے جہاںحکومت اور سپیکر جونہی گرم ہوا کا جھونکا آ جائے، ایڑیاں رگڑ رگڑکر اپوزیشن کو پکارتے ہیں۔ ہاکروں کے انداز میں پوری ڈھٹائی سے صدا لگاتے ہیں خدا کے لیے پارلیمنٹ میں لوٹ آؤ اور جمہوریت کو بچاؤ!
ٹریکٹر ٹرالی کو علامتی طور پر تضحیک کے لیے کیوں منتخب کیا گیا؟ اس بے شرمانہ واردات کا یہ پہلو قابلِ غور ہے۔ ٹریکٹر ٹرالی ملک کے زرعی سماج کی سب سے بڑی علامت، جس سے زرعی مزدورکی روزی وابستہ ہے۔ لاکھوں دیہات میں شادی بیاہ، مرگ ماتم، منڈی اور بازار جانے کے لیے سب سے محفوظ سواری بھی۔ قرض،کمیشن اور میگا کرپشن کے ذریعے نودولتیے بننے والے غریب ماں باپ کے شہری بابو ٹریکٹر ٹرالی کو توہین کی علامت جانتے ہیں۔ اس علامت سے محنت کش اور کسان کو رزق ملتا ہے۔ موجودہ مک مکا والے پارلیمان میں محنت کش اور مزدورکی سِرے سے کوئی نمائندگی ہی نہیں، اس لیے سپیکر نے اسمبلی کے منہ پر مَلی گئی کالک اتارنے کے لیے ٹشو پیپر تک ضائع نہ ہونے دیا۔
کون نہیں جانتا، فرائض کی ذمہ داری نبھانے کے دوران خواتین پارلیمنٹیرینزکوکس قماش کے لوگوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ شہید محترمہ بینظیر بھٹو کے سامنے ایک سابق بیوروکریٹ سفارش کا پلندہ لایا۔ تب موصوف پی پی پی کی ہری ٹہنی پر چہچہاتے تھے۔ انہوں نے اپنے ''سفارشی کلائنٹ‘‘ کی صفات کا تھیلا کھولا۔ پانچ سات منٹ بھاشن سننے کے بعد شہید بی بی نے کہا، جو شخص شام سات بجے کے بعد ٹھیک سے ٹیلی فون نہیں سن سکتا، لنچ کے وقت ناشتہ کرتا ہے، اسے قومی ذمہ داری کیوں دوں؟ جمشید دستی نے ایسے ہی عوامی نمائندوں کے پارلیمانی لاجز سے بوتلوںکا ڈھیر دریافت کیا۔ دوسرے چھاپے سے بچنے کے لیے اب وہاںکولر اورکنٹینرجاتے ہیں۔
پچھلے ہفتے کے اخبار اٹھا کر دیکھ لیں، درجن بھر بے گناہ کنواریاں، سہاگنیں اور بچیاں قتل ہو گئیں۔ ایسے حکمران ہوں تو یہ قتل حیرت کی بات ہے نہ ہی غیر معمولی واقعہ۔ حاکم ٹوپ والا فوٹوکھینچوا کر سمجھتے ہیں مدعی کو انصاف مل گیا اور عدل کے تقاضے پورے ہوئے۔
رات اسلام آباد کلب میں افطار ڈِنر پہ مدعو تھا۔کراچی سمیت چیدہ چیدہ لوگ جمع ہوئے اور یہی سوال سامنے۔ بی بی سی اردو نے ہمارے پارلیمان کی وہ لِترول کی کہ لوگ عش عش کر اٹھے۔ اگر کوئی خطاکرے اور اس سے رجوع بھی، غلطی کرے اور غیر مشروط معافی مانگ لے تو وہ بڑا آدمی ہے۔ بڑے ظرف اور بڑے دل والا ہی غلطی کا اعتراف کرسکتا ہے۔ ضمیر گروی رکھ کر عہدے اور مراعات لینے والے غلطی کیسے کریں گے۔۔۔؟ کہاں کا اعتراف۔۔۔؟
یادش بخیر1997ء میں شہید بی بی اور آصف زرداری کے خلاف موجودہ وزیر اعظم کا سینیٹر قومی احتساب بیوروکا سربراہ تھا۔ لاہور ہائیکورٹ کے دو رکنی احتساب بنچ میں حفیظ پیرزادہ آصف زرداری کے وکیل جبکہ میں شہید بی بی کا وکیلِ صفائی۔ خاتون وزیر اعظم نے جج پر تعصب کی دعویداری کی۔ یہ ناخوشگوار فریضہ میرے ذمے تھا
کہ میں جج کو قائل کروں، تعصب انصاف کی جڑ کاٹ دیتا ہے۔ اس وقت کی پراسیکیوشن ٹیم کے دو ارکان آج کل عدالتِ عظمیٰ کے لائق ترین ججوں میں شمار ہوتے ہیں۔ بنچ نے مجھے کہا تعصب پر کوئی تازہ فیصلہ پیش کریں۔ عرض کیا یہ ہے چِلی کے آمر آگسٹو پنوشے کے مقدمے کا فیصلہ۔ جنرل آگسٹو نے برطانیہ کے لاء لارڈ پر الزام لگایا کہ اس کی بیوی ایمنسٹی انٹرنیشنل سے ہمدردی رکھتی ہے، جس نے پنوشے کے خلاف جلوس نکلوائے۔ تعصب کا الزام لگتے ہی لاء لارڈ نے صادر شدہ فیصلہ واپس لے لیا، انصاف کی کرسی سے نیچے اترا، عہدے سے استعفیٰ دیا اور تعصب کے الزام کا ثبوت مانگے بغیر کرسی چھوڑ کر گھر چلا گیا۔ یاد رکھیے گا یہی شرم ہے اور یہی حیا ہوتی ہے۔ ہمارے عادل نے ہاؤس آف لارڈز کا فیصلہ دیکھا، اسے میز پر الٹاکیا پھر پنجابی میں یہ ریمارکس دیئے: اینوں چھڈو،ایہہ ہور گل اے( اسے چھوڑیں یہ اور بات ہے۔) سپریم کورٹ نے بعد ازاں اس تعصب کی بنیاد پر فیصلہ نہ صرف کالعدم کیا بلکہ متعلقہ جج حضرات کو جبری ریٹائر کر کے گھر بھجوا دیا۔ حکمران شریفوں اور جج کی ٹیپ شدہ گفتگو اسی فیصلے کا حصہ ہے۔
ہماری ادائیں دنیا سے نرالی ہیں۔ تیسرا مہینہ آ گیا، چوروں کی بارات شریف کہلانے پر مصر ہے؛ بلکہ سینہ تان کر شریفانہ واردات کی ریکوری سے انکاری بھی۔ اگرکوئی چور نہیں تو تحقیق میں حرج کیا۔۔۔؟ کسی نے منی لانڈنگ نہیں کی تو مقدمے سے خوف کیسا۔ پیسے حلال ہیں تو ٹیکس کیوں نہیں دیا۔ پاکستان کے ہمدرد ہو تو ڈوبتی معیشت میں اپنے ڈالر ڈالنے پر اعتراض کیوں۔۔۔؟
ٹریکٹرکا شور ہو یا ٹرالی سے اٹھائی گئی دھول، منی لانڈرنگ والے چہروں پر پڑی نحوست چھپائی نہیں جا سکتی۔ حبیب جالب نے اس شعر میں پتا نہیں کِسے یہ کہہ کر داد دی ؎
خاک میں مل گئے نگینے لوگ
حکمراں ہو گئے کمینے لوگ