نمک کے بارے میں کئی محاورے مشہور ہیں۔کانِ نمک، نمک حلالی کرنا، نمک میں وفا نہ ہونا اور آیوڈین کی کمی وغیرہ۔ پاکستان میں نمک تین طرح کے ہیں۔ ایک کھیوڑہ کا نمک، دوسراسمندری نمک اور تیسرا پڑوسی نمک۔ پڑوسی نمک کی چار قسمیں ہیں۔ افغانی نمک، ہندوستانی نمک، ایرانی نمک اور عربستانی نمک۔ چاروں قسم کے نمک حلال تب گردانے جاتے ہیں، جب وہ نمک حلالی کے لیے ان ملکوں کے سفارت حانے میں جائیں یا دورے پر۔
ہندوستانی نمک سے 2012ء کا ایک واقعہ یاد آ تا ہے۔ آل انڈیا بار ایسوسی ایشن کے سربراہ ڈاکٹر آدیش اگر والا اور پنجاب ہریانہ بار کونسل کے چیئر مین پرتاب سنگھ کی دعوت پر میں پہلی اور آخری مرتبہ ہندوستان کے دورے پر گیا۔ مہا بھارت (خورشیترہ)کے میدانِ جنگ سے شیخ چلی کے مزار تک اور پھر دہلی، آگرہ، اجمیر تا گولڈن ٹمپل اور جلیانوالہ باغ تک۔ مجھے سرہند شریف سے لے کر پانی پت تک کے درمیان مختلف بار ایسوسی ایشنز سے خطاب کرنے کا موقع ملا۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے سابق جج رمضان چوہدری میرے ہمراہی تھے۔ میرے دورے سے پہلے ایک اورگروپ دورے پر بھارت گیا، جس کی استقبالی تقریب کا حال وہاں جا کر معلوم ہوا۔ ایک شعلہ بیاں مقرر نے تب یہ کہا: ''واہگہ پر مصنوعی لکیر ہے، دونوں طرف ہم ایک ہیں۔ یہ دیوارِ برلن گِرنے کا وقت قریب ہے‘‘۔ میزبان کی عنایات کے باعث 100رکنی وفد میں سے کسی نے اس تقریر کا جواب دینے کو ضروری نہ سمجھا۔ پرائیویٹ وفد سے کیا گِلہ؟ جب پاکستان کے ''برادرانِ اقتدار‘‘ میں سے بڑے صاحب یہ فرمائیں، یہ مصنوعی لکیر ہے، ہم دونوں ایک ہی خدا کے ماننے والے ہیں، دونوں طرف کوئی فرق نہیں اور چھوٹے صاحب اسی عشق کا اظہار بھارت کی سرزمین پر جا کر یوںکریں ؎
اِک شجر ایسا محبت کا لگایا جائے
جس کا ہمسا ئے کے گھر پہ بھی سایہ جائے
پھر غیر سرکاری یا تفریحی دورے پر جانے والے وفد سے کیا توقع ہو سکتی ہے! سچ یہ ہے کہ میں نے اپنے واہگہ سے جونہی بھارت کے گاؤں اٹاری پر قدم رکھا بدن میں سنسنی پھیل گئی۔ مجھے اٹاری کے اس پار عفت مآب برہنہ مسلم خواتین کے جلوس،کٹے ہوئے اعضاء سے بھرے ہوئے بیل گاڑیوں اور ریل گاڑیوں کے قافلے، آتش زدہ گاؤں اور ستم رسیدہ بے یار و مددگار لوگ یا د آ گئے۔ فرق صرف اتنا تھا میں واہگہ سے اٹاری جا رہا تھا، وہ لوگ مسافرانِ شام کی طرح ہر نوع کے زخم کھاکر اٹاری سے واہگہ میں داخل ہونے کی کوشش کر رہے تھے۔ جب امرتسر بار ایسوسی ایشن کے اسی صدر نے پاکستان کی بین الاقوامی طور پر مسلّمہ سرحدکو دیوار ِبرلن کہہ کرگرانے کا ذکر کیا تو میں سٹیج سے اترا، نیچے جا کر سامعین وکلا میں جا بیٹھا۔ اس کا فوری نتیجہ یہ نکلا کہ صدر امرتسر بار ایسوسی ایشن بوکھلاگئے، یہ کیا ہوا! وکلا نے میرے ساتھ فوٹو لینا شروع کر دیے۔ اس طرح پاکستان کے خلاف ایک گونجتی آواز متزلزل ہوگئی۔ اس کے بعد مجھے بطور مہمانِ خصوصی تقریب سے خطاب کے لیے سٹیج پربلایا گیا، میں اوپر جانے کے لیے اٹھا تو اگلی دو لائنوں میں بیٹھے سینئیر وکلا کمال مہربانی سے نشستوں پر کھڑے ہوگئے۔ میں نے افتتاحی کلمات کے بعدکہا، میں ایک خود مختار و آزاد ملک سے ایک آزاد و خود مختار ملک میں آیا ہوں۔ میرے پاس بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ پاسپورٹ ہے اور بین الاقوامی طور پر شناخت رکھنے والے وکلا سے مخاطب ہوں۔ میں پاکستان کی بین الاقوامی سرحد سے بھارت کی بین الاقوامی سرحد میں داخل ہوا۔ یقین کریں میں نے دیدے پھاڑکر دیکھا مجھے واہگہ اٹاری، امرتسر بار ایسوسی ایشن تک مصنوعی لکیر کہیںنظرنہیں آئی نہ ہی کوئی دیوارِ برلن۔گلی محلے کے پڑوسی تو تبدیل ہوتے رہتے ہیں لیکن ملکوں کے پڑوسی ملک تبدیل نہیں ہو سکتے۔ اگر ہم دوست نہیں بن سکتے تو نہ سہی، مہذب پڑوسی کے طور پر ایک دوسرے کے ہمسائے میں مہذب طریقے سے رہ سکتے ہیں۔ ہال ہر جملے پر تالیوں سے گونجتا رہا۔ یوں لگا میں چونیاں بار ایسوسی ایشن یا تلہ گنگ بار یا کوئٹہ بار ایسوسی ایشن سے مخاطب ہوں، جہاں سب اس لمحۂ موجود میں میرے ہمنوا ہیں؛ حالانکہ میں جانتا تھا ایسا ہرگزنہیں اور میں ایک متحارب قوم کے لوگوں سے مخاطب ہوں۔ وہ زبان جسے گھٹی سے لے کر غذا تک، پیدائش سے لے کر پرورش تک، دھرتی ماں نے اپنی آغوش میں رکھا، ایسی زبان اگر دھرتی ماں کے حق میں کلمہ خیر نہیں کہہ سکتی تو ایسے منہ میں خاک بھلی۔ جن موقع پرستوں نے پڑوسی ملکوں کے گیت گائے ان کودشمن کے دستر خوان سے چند ذلت آلود ٹکڑے تو ملے، لیکن وہ ہمیشہ قوم کی نظر میں مشکوک جبکہ دنیا کی نظر میں عزت سے محروم رہے۔ اقبال نے ایسے مشتبہ کرداروں پر یوں فردِ جرم لگائی ؎
ننگِ ملت، ننگِ دیں، ننگِ وطن
جعفر از بنگال صادق از دکن
اگلے روز رؤف کلاسرا اور عامر متین صاحب نے جم کر سوالات کیے۔ میں نے پون گھنٹہ دردِ دل سے جواب دیے۔ صاحبِ طرز کالم نگار اور مقرر رؤف کلاسرا کا آخری سوال نشتر نما تھا۔ پوچھا کیا ہمارا سماج زندہ سماج کہلا سکتاہے؟ جواب عرض کیا جی ہاں، سماج زندہ ہے۔ ہماری اگلی نسل پچھلی ساری نسلوں سے بہتر علم اور ہنرکے ہتھیاروں سے لیس ہے اس لیے میں سماج سے مایوس نہیں۔ اب بے لاگ اور بے باک تجزیے ہو رہے ہیں۔ اسی نوجوان نسل نے کھوکھلے نعروں سے پیٹ پالنے والے بندگانِ شکم کو اس مہینے دو دفعہ مسترد کیا۔ پہلی مرتبہ جب افغانستان کی قیادت نے کھوکھلی جنگی زبان بولی۔ دوسری دفعہ جب پاکستان اور داویٔ خیبر کی تاریخ کے خلاف وزیراعظم کے قریبی دوست اتحادی نے ہرزہ رسائی کی۔ زبان، علاقے، قومیت اور برادری کے نام پر 70 سال میں غریب قلاش ہوگئے۔ ڈھول بجا کر ڈگڈگی سنانے والوں نے غیر ملکی طاقتوں کے پاؤں چھوئے اور انہیں ''پرنام‘‘ دے کر کے جو مال سمیٹا ان کی اگلی نسل اس پر انہیں آج شرمندہ کر رہی ہے۔ سوشل میڈیا، ٹوئٹر پر پاکستانی قوم سیسہ پلائی دیوار بنی ہے۔ پاکستان ایک طاقتور اکائی ہے، نظریاتی بھی اور جغرافیائی بھی۔ پچھلے تین سال میں مودی کے یار قوم کو مسلسل آزما رہے ہیں۔
پہلے نادرا بلوچستان نے انکشاف کیا، کس طرح افغان مہاجرین کو زبردستی شناختی کارڈ دلوائے جا رہے ہیں۔ اب اخبارات نے انکشاف کیا، جناب مولانا صاحب کی طرف سے پاکستانی''قرار‘‘ دیے گئے افغانیوںکو نادرا نے شناختی کارڈ جای کرنے سے انکارکردیا۔ افغانی نمک کی طاقت تو آپ نے دیکھ لی۔ میرے سامنے وزارتِ داخلہ کے ایک خط کی کاپی پڑی ہے، جس میں لیڈر صاحب کے لیے ایران سے آنے والے10لاکھ امریکی ڈالرکا تذکرہ ہے(کوئی دیکھنا چاہے تو بسم اللہ!)
ریاست کے ذمہ داروں کو چاہیے پاکستانی نمک میں آیوڈین کی مقدار ڈبل کر دیں۔ نمک اثر کرے نہ کرے آیوڈین رنگ ضرور دکھائے گی۔ آیوڈین کا فارمولا کیا ہے، یہ پھر کبھی سہی۔ نواز حکومت، پاکستان کے خلاف دریدہ دہنی پر خاموش تماشائی ہے۔ شاید آیوڈین کے انتظار میں۔۔۔۔!
وظیفہ خوروں سے کیا شکایت؟ ہزار دیں شاہ کو دعائیں
مدار جن کا ہے نوکری پر، وہ لوگ تو نوکری کر یں گے
لئے جو پھرتے ہیں تمغۂ فن، بنے ہیں جو ہم خیالِ رہزن
ہماری آزادیوں کے دشمن، ہماری کیا رہبری کریں گے