وہ سڑک کے عین درمیان میں لیٹا ہوا تھا۔ عید کی چھٹیوں کی وجہ سے شہرِ اقتدار کی سڑکیں ویران، حیران بلکہ پشیمان ہوتی ہیں‘ ورنہ اب تک وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے لیٹ چکا ہوتا۔
پاس جا کر پوچھا: سڑک پر کیوں لیٹے ہو؟ کہنے لگا: ٹینک کے انتظار میں۔ پوچھا: شاہراہِ دستور پر ٹینک کہاں سے آئے گا۔ جواب کی بجائے اس نے الٹا سوال کر دیا۔ کہا: چلیے آپ مفت مرنے کا کوئی طریقہ بتا دیں۔ اس کا جواب نما سوال سن کر یوں لگا جیسے میں لاجواب ہو گیا۔ ملین ڈالر کا اصلی سوال یہی ہے۔ اتنی دیر میں اس کے ارد گرد لوگوں کی کافی بھیڑ جمع ہو چکی تھی۔ وہ سڑک کے بیچوں بیچ ڈٹ کر لیٹا رہا۔ ایسے جیسے ''ون مین‘‘دھرنا دے رہا ہو۔ میں اسے مزید کچھ کہنے ہی والا تھا کہ ایک مولوی صاحب آگے بڑھے۔ ہاتھ اس کی طرف بڑھا کر کہنے لگے: اُٹھو خود کُشی مت کرو۔ اس نے مولوی صاحب کو بھی لاجواب کر دیا۔ بولا: خود کشی اور خود کش میں کیا فرق ہے؟ مولوی صاحب اس کا ہاتھ جھٹک کر پیچھے ہٹ گئے۔ کہا: لاحول ولاقوۃ، کیسا فسادی آدمی ہے۔ ایک بابو آگے آیا‘ بڑی تہذیب سے کہنے لگا: اٹھیے تشریف لائیے‘ میں آپ کے مطالبات سرکار تک پہنچائے دیتا ہوں۔ اس نے لیٹے لیٹے بے پروائی سے پوچھا: تم کون ہو؟ بابو بولا: میں ایف بی آر کا اعلیٰ افسر ہوں۔پاکستانی نے ایک اور سوال داغ دیا: منشی اسحق کو جانتے ہو؟ بابو سٹپٹا گیا‘ جواب دیا: جی نہیں۔ لیٹے ہوئے پاکستانی نے طنزیہ آواز بنا کر بابو سے پوچھا: اپنے وزیر کو نہیں جانتے؟ سرکاری بابو نے اپنی ٹائی درست کی مؤدب ہوا اور بولا: جناب اگر آپ کی مراد اسحق ڈار سے ہے تو انہیں کون نہیں جانتا۔ لیٹے ہوئے پاکستانی نے پہلے پشتو بولی، پھر پنجابی اور آخر میں ناقابلِ اشاعت انگریزی کے جملے کہے۔ اس نے لیٹے ہوئے ایک بازو بلند کرکے اعضا کی شاعری کی ساتھ منہ کھول دیا‘ جس پر ہجوم نے دھماکے دار قہقہہ لگایا۔ اس کی آواز قہقہے میں دب گئی‘ لہٰذا پتہ نہ چل سکا کہ لیٹے ہوئے پاکستانی نے کیا کہا مگر حاضرین کا جوش و خروش چغلی کھا رہا تھا کہ اس نے کوئی معرکۃلآرا ''حرکتِ شریف‘‘ کی ہے۔ چند من چلے آگے بڑھے اور اس کے بلند بازو کے ساتھ سیلفی لینے کی ناکام کوشش کی۔ لیٹے ہوئے پاکستانی نے فوراً اپنے بلند بازو کو نیچے کرکے پھر سے زمین کے ساتھ لٹا لیا۔
لیٹے ہوئے پاکستانی کو دیکھ کر ایک سوٹڈ بوٹڈ صاحب اس کے نزدیک چلے آئے۔ کہنے لگے: میں آپ کو سلامِ عقیدت پیش کرتا ہوں اور داد دینا چاہتا ہوں۔ ابھی کل ہی ترک صدر طیب اردوان نے کہا کہ ان کے خلاف پھر سازش ہو گی‘ جناب پاکستانی صاحب آپ نے بروقت احتجاج شروع کر رکھا ہے۔ لیٹے ہوئے پاکستانی نے پوچھا: آپ کیا کام کرتے ہیں؟ خوشحال شخص بولا: جمہوریت کے فروغ کے لیے این جی او چلاتا ہوں۔ پاکستانی نے لیٹے لیٹے سوال کیا: آپ کے پاس دس روپے کا نوٹ ہو گا؟ این جی او والے نے بٹوا نکالا اور کہنے لگا: جی نہیں‘ میرے پاس ڈالر ہیں یا لیرا۔ لیٹے ہوئے پاکستانی نے جواب دیا: ڈالر امریکہ کی خدمت سے ملتا ہے اور لیرا برادر ملک ترکی سے۔ آپ کو دونوں مبارک ہوں‘ مجھے تو دس روپے کا نوٹ چاہیے تھا۔ بھوک لگ رہی ہے‘ ایک روٹی منگوا نا چاہتا ہوں۔ این جی او والے نے پوچھا: ایک روٹی کتنے روپے کی ملتی ہے؟ پاکستانی بولا: آپ مڈل ایسٹ کی بادشاہتوں، ترکی کی جمہوریت اور امریکہ کی سلامتی کی فکر میں غرق ہیں۔ زیرو پوائنٹ کی کچی بستی چلے جائیں‘ ایک روٹی پر جینے والے لاوارث بچے آپ کو روٹی کا ریٹ سمجھا دیں گے۔ این جی او والے نے کہا: شٹ اپ... اور پیچھے ہٹ گیا۔
اسی اثنا میں بڑا خوفناک شور بلند ہوا۔ کوئک رسپانس فورس کے اہلکار، متعلقہ تھانہ کی نفری اور سیف سٹی کے رکھوالے زمین پر لاٹھیاں مارتے‘ فتح کے نعرے بلند کرتے پاکستانی کی جانب دوڑتے نظر آئے۔ ہجوم پہلی لاٹھی زمین پر پڑنے سے پہلے ہی بھاگ گیا۔ لیٹے ہوئے پاکستانی کو اٹھانے کے لیے فائر بریگیڈ کی گاڑی، آنسو گیس والی بکتر بند، ریزرو فورس کے ڈنڈا بردار اور ایمبولینس رواں دواں تھی۔ ایک وفاقی افسر لیٹے ہوئے پاکستانی کے پاس پہنچا‘ پھر اسے مخاطب کرکے کہا: اسلحہ پھینک دو، اپنے ہاتھ اوپر کر لو اور زمین پر لیٹ جاؤ‘ ورنہ میں تمہارے مجمعء خلافِ قانون کو منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس، لاٹھی چارج اور ربڑ کی گولیاں چلانے کا حکم دے دوں گا۔ لیٹے ہوئے پاکستانی نے کوئی جواب نہ دیا‘ جیسے یہ آرڈر سنا ہی نہیں۔ لیٹے لیٹے کہنے لگا: بسم اللہ کرو، لیکن گولی چلا کر‘ میں صبح سے مرنے کا آسان ترین طریقہ ڈھونڈ رہا ہوں۔ سرکار نے میری مدد کے لیے اتنی فورس بھیجی ہے‘ جمہوریت کا شکریہ۔
آفیسر حیران رہ گیا۔ لیٹے ہوئے پاکستانی سے پوچھنے لگا: تم آخر مرنا کیوں چاہتے ہو۔ لیٹے ہوئے پاکستانی نے جواباً کہا: تم کیوں نہیں مرنا چاہتے۔ آفیسر بولا: میں کیوں مروں؟ گریڈ 18 کی نوکری ہے‘ ٹی اے ڈی اے ملتا ہے، مفت علاج ہے‘ سرکاری بنگلہ ہے‘ گاڑی میں پٹرول ہے‘ ریٹائرمنٹ پر پنشن ملے گی‘ جاتے ہوئے گاڑی ساتھ لے جانے کی سہولت بھی ہے۔ پھر پوچھا: تم بتائو کہ مرنا کیوں چاہتے ہو؟ لیٹے ہوئے پاکستانی نے جواب دیا: میری جیب میں پھوٹی کوڑی نہیں۔ کچی آبادی میں رہتا ہوں۔ وہاں کا بجلی مافیا 4000 نقد کنڈا لگانے کا لیتا ہے۔ روزگار کوئی نہیں۔ ہسپتال کے دروازے سے کوئی اندر جانے نہیں دیتا۔ بیوی واپس اپنے گاؤں چیچوکی ملیاں چلی گئی ہے۔ بچے غربت سے بلکتے ہیں۔ ماں مری تو اس کی میت اٹھانے عبدالستارایدھی آ گئے تھے۔ اب وہ بھی نہیں رہے۔ گھر سے مردہ کون اٹھائے گا؟ کفن کا ریٹ آپ کو معلوم ہے۔ قبرستان کا پلاٹ اس سے بھی کئی گنا زیادہ مہنگا بلکہ نایاب۔ نہ کوئی مفت قُل پڑھانے آتا ہے نہ دعا کرنے۔ پھر لیٹا ہوا پاکستانی بولا: سر جی! پلیز جلدی کریں ایکشن شروع کر دیں۔ گولی ماریں گولی۔
''اباؤٹ ٹرن... فورس واپس مڑ جاؤ‘‘ بڑے زور سے آواز گونجی۔ سڑک پر لاٹھیاں برسانے والے بے دلی سے واپس مڑے۔ لیٹے ہوئے پاکستانی نے آواز دی: ارے اوئے... ایکشن کرو ناں واپس کیوں جا رہے ہو؟ آفیسر کے چہرے پر سنجیدگی آ گئی، کہنے لگا: ہمارے پاس تمہارے لیے کوئی آرڈر موجود نہیں۔ ہمیں صرف ان لوگوں کو مارنے کا حکم ہے‘ جو زندہ رہنا چاہتے ہیں۔ جو مرنا چاہتا ہے وہ اپنی مدد آپ کرے۔ اس بارے میں جمہوریت کی پالیسی خاموش ہے۔لیٹے ہوئے پاکستانی نے مکالمہ ختم کرکے گنگنانا شروع کر دیا...
بھوک ننگ سب دین انہی کی ہے لوگو
بھول کے بھی مت ان سے عرضِ حال کرو
جینے کا حق سامراج نے چھین لیا ہے
اٹھو مرنے کا حق استعمال کرو
ذلت کے جینے سے مرنا بہتر ہے
مِٹ جاؤ یا قصرِ ستم پامال کرو
نوجوانوں کی ایک ٹولی‘ جس کے ہاتھ میں پین اور ٹیپ ریکارڈر تھے۔ لیٹے ہوئے پاکستانی پر ٹوٹ پڑی۔ اسے ٹھڈیّ مارے، کھڑا کیا اور اس پر روڑے برسائے۔ اتنی دیر میں آواز آئی کٹ۔ ایک نے پیچھے مڑ کر کہا: ہو گیا کام؟ کیمرہ مین بولے: بریکنگ خبر بن گئی، اب واپس چلتے ہیں۔ بریکنگ خبر والے بھی اسے روزانہ مرنے کے لیے چھوڑ گئے۔