اپریل 2016 سے پانامہ سیزن مسلسل زوروں پر ہے۔ اگلے روز شیخ پور گائوں میں ایک ہمدرد دوست چوہدری مالک داد کی وفات پر فاتحہ خوانی کے لیے گیا۔ کافی تعداد میں لوگ پُرسہ دینے بیٹھے تھے۔ مشکل سے دو منٹ مرحوم کے لیے دعا ئے مغفرت مکمل کرنے کے لیے ملے۔ مناجات کے فوراََ بعد پھر وہی سوال اُٹھا، پانامہ فیصلہ لیٹ کیوں ہوا۔ کیا بڑے چور پکڑے جائیں گے؟ فیصلہ آیا تو عوام تسلیم نہیں کریں گے۔ یہ مسلسل وزارتی دھمکی کسے مل رہی ہے۔ وہ کون سے عوام ہیں جو نہیں چاہتے کہ ان کے ملک میں قانون کی حکمرانی ہو اور پانامہ جیسے میگا کرپشن کیس کا پھندہ ڈھیلا کر دیا جائے۔ اربوں، کھربوں کے ٹھیکے ہوں۔ جن میں کُھلا ڈُھلا کِک بیک چلے۔ قومی خزانہ برسرِ اقتدار اشرافیہ کے ذاتی مفادات کے لیے فٹ بال بن جائے۔ عوام ڈِسپرین کی گولی، ٹماٹر کی چٹنی اور پانی کی بوند بوند کو ترسیں۔ ہر روز 12 سے 16 گھنٹے قاتل لوڈشیڈنگ بے رحمی سے غریبوں کا گلہ دباتی رہے۔ لیکن کسی کا احتساب نہ ہو کیونکہ عوام نہیں مانیں گے۔ اس سے بڑا لطیفہ مگر انتہائی پُھس پُھسا اور کیا ہو سکتا ہے۔ پانامہ کا فیصلہ آ رہا ہے، بلکہ ضرور آئے گا۔ جو غرض کے بندے یہ سمجھتے ہیں پانامہ کیس اصغر خان کیس ثابت ہو گا۔ مایوسی اُن کا مقدر ہے۔ آزاد عدلیہ پانامہ کیس کو ساتواں بحری بیڑا نہیں بننے دے گی۔ جو متاثرین کے ریسکیو کے لیے کبھی نہ پہنچنے کے لیے مشہور ہوا ۔
اگلے روز میری اور عمران خان کی ملاقات کی تفصیل اخبارات میں چھپی ۔ جواباََ ایوانِ اقتدار سے مِڈنائٹ جیکالز والی چیخ برآمد ہوئی۔شہرِ اقتدار کے کان بھی ہیں اور زبانیں بھی۔ اس شہر میں بظاہر سب کچھ محفوظ نظر آتا ہے۔ لیکن محفوظ کچھ بھی نہیںہوتا۔ یہ راز بھی محفوظ نہیں کہ ''سوری سر...اس معاملے میں ہم آپ کی کوئی مدد نہیں کر سکتے۔ نہ ہی ہم اس میں مداخلت کریں گے‘‘۔
جس بڑے گھر میں ملک کے سب سے بڑے اداروں کے بڑے بڑے سربراہوں کی میٹنگ محفوظ نہ رہ سکی ۔اس گھر کا تازہ راز بھی کُھل گیا ہے۔ گھر کے بڑے صاحب نے اپنے سب سے پسندیدہ درباری کو بلایا۔ اسے شدید ڈانٹ پلائی اور کہا تمہیں کل بھوشن کے معاملے میں اس طرح بولنے کی اجازت کس نے دی۔ میری پہلے دن سے یہی پالیسی رہی کہ ہم کل بھو شن یادیو کے معاملے کو ((low profile یعنی دھیمے انداز میں ہینڈل کریں ۔ میں نے کبھی کل بھوشن کا نام نہیں لیا۔ آپ کس کی اجازت سے تقریریں کرتے پھر رہے ہیں۔ ہم بھارت سے ہر قیمت پر دوستی برقرار رکھیں گے۔گزشتہ روز آصف زرداری نے ڈنر پر بلایا جہاں وَن آن وَن ملاقات میں کہنے لگے کل بھوشن پر آپ نے میرا بیان پڑھا ؟''میں نے کہا ہے کہ پاکستان کے قانون اور سالمیت کو مدِنظر رکھ کر سزائے موت کا فیصلہ بالکل درست ہے‘‘ پھر کچھ اور انکشاف بھی کیے جن پر گفتگو آج کے موضوع سے متعلقہ نہیں،اس پر پھر بات ہو گی۔ نواز شریف کے حوالے سے گفتگو میں سابق صدر نے کہا میرے خیال میں کل بھوشن کا نام نہ لینے اور بھارت کے سامنے لیٹ جانے والی پالیسی اپنانے کی وجہ یہ ہے کہ وزیرِاعظم بھارت کو اپنے خاندانی کاروبار کی وُسعت کے لیے ایک بڑی مارکیٹ سمجھتے ہیں۔ میں نے ذرا سا غور کیا تو یہ بات حقیقت کے قریب لگی۔ آپ سب جانتے ہیں ۔جس دن بھارتی نیوی کے حاضر سروس کمانڈر کل بھوشن یادیو کو پاکستان آرمی ایکٹ اور آفیشل سیکریٹ ایکٹ کے تحت فیلڈ جنرل کورٹ مارشل نے موت کی سزا سنائی ‘اُسی دن 24 گھنٹے کے اندر نواز شریف ائیر فورس کیڈٹس کی پاسنگ آئوٹ پریڈ میں شریک ہو ئے۔ جہاں نہ کوئی موقع تھا نہ محل مگر وزیرِاعظم نے بھارت کو افواجِ پاکستان کے اجتماع میں سافٹ پیغام بھجوا دیا ۔ کہا ہم بھارت سے دوستی چاہتے ہیں۔ ہمارے وزیرِ اعظم کا دوست بھارتی وزیرِ اعظم اپنی سینا سے خطاب میں ہمارے لیے جوشعلے برساتا ہے۔ اُنہیں دہرانے کی ضرورت نہیںپاکستان کا بچہ بچہ جانتا ہے ، موجودہ حکمرانوں کی دوستی کے جواب میں مودی ہمیشہ ایل،او، سی، سے لاشوں کے تحفے بھجواتا ہے ۔ کچھ دوستوں نے واٹس ایپ پر مزے کی بات بتائی ۔ پاسنگ آئوٹ پریڈ کی تقریب میں وزیرِ اعظم نواز شریف کے لیے عجیب صورتِ حال پیدا ہوئی جب اُن کو پاسنگ آئوٹ پریڈ کے ہیرو کو امتیازی انعام دینے کے لیے اعلان کے ذریعے بتایا گیا۔ اطلاعات کے مطابق اعلان یوں ہوا '' امتیازی انعام کے مستحق ٹھہرے ہیں ایو ی ایشن کیڈٹ عمران خان‘‘ تقریب کے حاضرین کے مطابق پورا اجتماع قہقہوں سے گُونج اُٹھا لیکن وزیرِ اعظم کو تھوڑی دیر بعد سمجھ آئی کہ لوگ کس بات پر ہنس رہے ہیں۔
بہرحال خطرہ، خطرہ ہوتا ہے چھوٹا ہو یا بڑا ۔لیکن عوام کے ٹیکسوں پر اقتدار کے مزے لینے والے جتھے کے لیے چھوٹا خطرہ بہت بڑا ہوتا ہے جبکہ بڑا خطرہ قیامت کی نشانی۔ جس کے پاس کچھ نہیں ہوتا اُسے '' چِھن جانے ‘‘ کا خطرہ نہیں ہوتا۔ پچھلے دو ہفتوں سے مارگلہ کی پہاڑیوں کے بادل بھی ہرروز شرارت کے موڈ میں ہوتے ہیں۔ 2.5 کلومیٹر ریڈ زون پر کالی گھٹا بن کر آتے ہیں۔ زوردار بلکہ دھماکے دار بجلیاں کڑکتی ہیںاور کئی کمزور دل حضرات اپنا سازوسامان سرکاری گھروں سے نجی پناہ گاہوں میں شِفٹ کر دیتے ہیں۔ پانامہ کے فیصلے سے عوام کی توقعات نہ کم ہیں اور نہ بے جا۔ جب سے عوام کے پیسے پر پلنے والے بڑے قومی اداروں نے ملک کی سب سی بڑی عدالت میں یہ کہہ کر ہاتھ کھڑے کر دیئے ''ہم کچھ نہیں کریں گے‘‘ تب سے ساری توقعات عدل کے ایوان کے گرد محوِ طواف ہیں ۔ بلاول سمیت کچھ لوگوں کی توقع ہے۔ پھر وہی ہو گا جو ہمیشہ ہوتا آیا ہے، لاڑکانہ کے وزیرِ اعظم کا احتساب اور تختِ لاہور کے وزیرِ اعظم کے لیے نجات۔ وزیرِ اعظم کے نورتن اور بلاول کے مئوقف میں فرق نہیں ہے۔ البتہ اس تناظر میں کچھ اہم ترین سوال یہ ہیں ۔
پہلا سوال: اگر وزیرِ اعظم کے علاوہ باقی الزام علیہم کے خلاف فیصلہ آتا ہے تو بھی اُسے نواز شریف کے خلاف ہی پڑھا جائے گا کیونکہ اُن کے بچوں کی جائیداد اور مال و دولت شریف خاندان کو اقتدار ملنے سے پہلے نہیں بعد کی تاریخوں میں بنائی گئی ۔
دوسرا سوال: ملک کا اعلیٰ ترین عہدے دار عدالت کے سامنے حقائق یا اثاثے چھپائے تو اُس کے خلاف آئین کے آرٹیکل 62,63 کے تحت کیا کارروائی ہونی چاہیے؟
یہاں ایک وضاحت طلب بات یہ ہے کہ سپریم کو رٹ آف پاکستان نے درجنوں فیصلہ شدہ مقدمات میں کہہ رکھا ہے کہ چاہے آسمان گرپڑے قانون، قانون ہوتا ہے۔ آئین، آئین ہوتا ہے۔ عدالتِ عظمیٰ اس کی محافظ ہے اور اُس کا نفاذ ہر صورت میں یقینی بنایا جائے گا۔ پی پی پی کے وزیرِ اعظم کی رخصتی والے فیصلے کا بنیادی نکتہ بھی یہی تھا۔ اسی تناظر میںمحترم جسٹس آصف سعید کھوسہ صاحب نے خلیل جبران کا شاہکار قوم کو یاد دلایا جس کا آغاز یوں ہوتا ہے '' قابلِ رحم ہے وہ قوم‘‘ اس شاہکار کا باقی حصہ پانامہ فیصلہ آنے کے بعد یاد کر لینے میں کوئی حرج نہیں۔
شہرِ اقتدار کی دو پیشین گوئیاں یہ ہیں۔
پہلی، یادیو نیٹ ورک میں دو خواتین سہولت کاروں کا نام شامل ہے۔ سہولت کاروں کے ٹرائل جلد ہوں گے۔
دوسری، پنجاب کی شوگر مل میں بھارتی اور مقامی سہولت کار بھی پکڑے جائیں گے۔ یادیو کے سہولت کاروں کا یادیو کی طرح کورٹ مارشل ہو گا۔