ہال میں تاریکی ہے لیکن دیوار پر لگی بڑی سکرین پر بیتے ہوئے دن روشن ہو گئے ہیں۔ مشاعرہ اپنے عروج پر ہے‘ منو بھائی نیلے رنگ کے کُرتے میں ملبوس مائیک کے سامنے بیٹھے اپنی مقبول پنجابی نظم ''احتساب دے چیف کمشنرصاحب بہادر!‘‘ سنارہے ہیں... منوبھائی کی شاعری کیا ہے؟ عام عوامی مسائل، سادہ الفاظ مگر جذبوں میںگندھے ہوئے۔ منحنی سے جسم کے مالک منو بھائی کی آواز میں گھن گرج ہے جو لفظوں کی تاثیر کو دوچند کر رہی ہے۔ نظم ختم ہوتی ہے تو ہال کی روشنیاں جل اٹھتی ہیں۔ یہ علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی میں منو بھائی کے لیے تعزیتی ریفرنس کی تقریب ہے۔
میں ہال پر نظر ڈالتا ہوں جو اپنے کناروں سے چھلک رہا ہے‘ بہت سے ایسے چہرے ہیں جنہیں میں پہلی بار دیکھ رہا ہوں، ان سب کو منو بھائی کی محبت کا جذبہ کھینچ لایا ہے۔ بطور میزبان میں شرکا اور مقررین کو خوش آمدید کہتا ہوں اور مختصر الفاظ میں منو بھائی کی شخصیت پر بات کرتا ہوں۔ وہ ایک ترجمہ نگار، صحافی، کالم نگار، ڈرامہ نگار، شاعر، مصور اور دلِ درد مند رکھنے والے انسان تھے۔ منو بھائی نے ساری عمر ایک چھوٹے سے گھر میںگزار دی‘ وہ معاشرے میں طبقاتی تفریق کے سب سے بڑے ناقد تھے اور ساری عمر ناانصافی کی چکی میں پسنے والے مظلوم طبقے کی آواز بنے رہے۔ انہوں نے افلاس کا ذائقہ چکھا تھا۔ اس ذائقے کی کڑواہٹ ان کی تحریروں میں جھلک اٹھتی تھی‘ کبھی کبھار احتجاج کی لَے بلند ہو جاتی لیکن منو بھائی کی شخصیت سر تا پا محبت میں شرابور تھی۔ میں نے ہال میں بیٹھے لوگوں کی بڑی تعداد پر نگاہ ڈالی جو آج کی مصروف زندگی سے وقت چُرا کر منو بھائی کی محبت میں یہاں آئے ہیں۔ مقررین جو سٹیج پر بیٹھے ہیں‘ ان میں جناب فتح محمد ملک، جناب حامد میر، جناب رئوف کلاسرا اور جناب مرتضیٰ سولنگی شامل ہیں۔ سب سے پہلے فتح محمد ملک صاحب منو بھائی کے ساتھ اپنی طویل رفاقت کے دنوں کی یادیں تازہ کرتے ہیں۔ یہ 1952ء کی بات ہے جب وہ گورنمنٹ کالج کیمبلپور میںمنیر بن عظیم (منو بھائی) سے ملے، اسی کالج میں شفقت تنویر مرزا بھی تھے۔ ملک صاحب کا کہنا تھا کہ جب وہ بطور طالب علم کالج میں داخل ہوئے تو شہر میں شفقت تنویر مرز اور منیر بن عظیم (منوبھائی) کی شاعری کی دھوم تھی منو بھائی اس وقت اردو شاعری کرتے تھے اور ان کی شاعری میں بغاوت کی جھلک نمایاں تھی۔ ہاسٹل میںفتح محمد ملک اور منو بھائی روم میٹ تھے‘ یہیں سے ایک طویل رفاقت کا آغاز ہوا۔ ملک صاحب زمانۂ طالب علمی کے دنوںکو یاد کر رہے ہیں، انہیں یاد ہے کہ وہ خود تو وقت پر کلاس میں پہنچ جاتے تھے لیکن منو بھائی کلاسوں کو زیادہ اہمیت نہیں دیتا تھا۔ وہ دیر سے بیدار ہوتا اور فیض کی دستِ صبا کی شاعری کو تصویروں میں ڈھالتا رہتا۔ کالج کا دور ختم ہوا تو وقت نے ایک بار پھر تینوں دوستوں فتح محمد ملک، منو بھائی اور شفقت تنویر مرزا کو راولپنڈی کے تعمیر اخبار میں اکٹھا کر دیا۔ ان تینوں نے راولپنڈی کے ہی ایک محلے ڈھوک کھبہ میں ایک مکان کرایے پر لے لیا جو دو کمروں پر مشتمل تھا۔ پھر تینوں ایک ایک کر کے تعمیراخبار سے علیحدہ ہو گئے۔ شفقت تنویر مرزا عسکری رسالے ہلال سے منسلک ہو گئے اور فتح محمد ملک اور منو بھائی ریڈیو کے لیے لکھنے لگے، جہاں مختار صدیقی اور باقی صدیقی پہلے سے موجود تھے۔ وہ دن بھی عجیب تھے‘ ان کے پاس باقاعدہ کھانے کے پیسے نہیں ہوتے تھے اور زیادہ تر چائے پر گزارہ ہوتا تھا۔ ملک صاحب بتاتے ہیں کہ ایک بار چیک ملنے پر ہم راولپنڈی میں سڑھیوں والے پل کی طرف پیدل جا رہے تھے کہ کیپٹل ہوٹل کے قریب سے گزرتے ہوئے تازہ روٹی کی مہک آئی‘ ہمارے قدم رکتے چلے گئے اس روز ہم مال دار تھے، ہم نے ہوٹل میں جا کر اپنی مرضی کاکھانا منگوایا اور خوب سیر ہو کر کھایا۔ ملک صاحب کے خیال میں منو بھائی صحیح معنوں میں ادبی اور تہذیبی محنت کش تھے۔ یادوںکی موجیں تھیں کہ امڈی چل آ رہی تھیں۔ یہاں ملک صاحب رُک گئے اور کہا: میں ان سب یادوں کو کتابی شکل میں تحریرکر رہا ہوں۔ فتح محمد ملک صاحب کے بعد مرتضیٰ سولنگی صاحب نے گفتگوکا آغازکیا، انہوں نے کہا کہ آج منیر قریشی(منو بھائی کا اصلی نام) کو دفنا دیا گیا ہے لیکن منو بھائی آج بھی زندہ ہیں اوریہیں کہیں ہمارے پاس موجود ہیں۔ منو بھائی ایک بڑے ڈرامہ نویس تھے۔ اسلم اظہر نے منو بھائی سے شاندارکھیل لکھوائے۔ مرتضیٰ سولنگی کی منو بھائی سے پہلی ملاقات 2008ء میں ہوئی جب وہ منو بھائی کے پاس گئے اور ان سے درخواست کی کہ وہ ریڈیو کے لیے ایک پروگرام کریں۔ منو بھائی نے کہا: سولنگی صاحب میں تو لکھنے والا آدمی ہوں، یہ بولنے والا کام آپ کہاں سے لے آئے؟ لیکن جب منو بھائی کو پروگرام کی نوعیت بتائی گئی کہ کیسے یہ پروگرام عام لوگوں کے مسائل سے جڑا ہو گا تو وہ راضی ہو گئے اور پھر پانچ سال تک یہ پروگرام کرتے رہے۔ ان کا سادہ اسلوب، فوک وزڈم سے آشنائی اورانسانیت پسندی نے اس پروگرام کو مقبول بنایا۔ مرتضیٰ سولنگی کے بعد رؤف کلاسرا مائیک پر آئے اور بتایا کہ اُن کی منو بھائی سے شناسائی تب سے ہے‘ جب وہ شہروں کی ہماہمی سے دور جنوبی پنجاب کے ایک گاؤں میں رہتے تھے جہاں اُن کی والدہ منو بھائی اور عبدالقادر حسن کے کالم بڑے شوق سے اپنی بیٹی کی زبانی سنا کرتی تھیں۔ شاید یہ دونوں کالم نگار اپنے ماضی کو نہیں بھولے تھے اور عام لوگوں کی باتوں کو اپنے کالموں میں جگہ دیتے تھے۔ رئوف کلاسرا نے بتایا کہ ایک روز منو بھائی کے کالم کے ذریعے پتا چلا کہ منو بھائی کا ٹی وی چوری ہو گیا ہے، اس پر اماں نے اپنی تشویش کا اظہار کیا اور بولیں بے چارے کے پاس نیا ٹی وی خریدنے کے پیسے نہیں ہوںگے‘ ورنہ وہ کالم میںنہ لکھتے۔ کیوں نہ ہم دوچار بکریاں بیچ کر اس کو پیسے بھجوا دیں۔ رئوف کلاسرا نے لاہور میں منو بھائی سے اپنی پہلی ملاقات کا احوال بھی سنایا جب وہ گرمیوں کی تپتی ہوئی دوپہر میں ان کے گھر‘ ان سے ملنے گئے اور یہ کہ کیسے منو بھائی نے نہ صرف انہیں ملاقات کا وقت دیا بلکہ بہت محبت سے ملے اور کسی موقع پر یہ احساس نہ ہونے دیا کہ وہ کسی بڑے کالم نگار اور ڈرامہ رائٹر سے مل رہے ہیں۔
آخر میں جناب حامد میر نے منو بھائی کے ساتھ گزرے دنوں کی کہانی سنائی۔ انہوں نے کہا کہ منو بھائی زندگی سے بھرپور شخص تھا، یقین نہیں آتا کہ وہ ہم سے جدا ہوگیا ہے۔ حامد میر نے بتایا کہ منو بھائی کی کالم نگاری کا آغاز ایک عجیب انداز میں ہوا۔ وہ تعمیر اخبار میں کام کرتے تھے، ایک دن ایک عورت روتی ہوئی دفتر پہنچی‘ اُس کا بچہ گم ہو گیا تھا۔ وہ چاہتی تھی کہ تلاش گمشدہ کا اشتہار اخبار میں چھپ جائے۔ منو بھائی اس عورت کے پاس بیٹھ گئے اور بچے کے حلیے کی تفصیل پوچھنے لگے۔ جب منو بھائی نے بچے کے لباس کے بارے میں پوچھا تو ماں نے بتایا کہ بچے نے سفید رنگ کے کپڑے پہنے ہوئے تھے، پھر وہ اچانک رُکی اور کہنے لگی لیکن اب تو دو دن گزر گئے ہیں‘ اب تو اُس کے کپڑے میلے ہو چکے ہوں گے۔ تلاش گمشدہ کا اشتہار چھپ گیا۔ اس واقعے سے منو بھائی کی کالم نگاری کا بھی آغاز ہو گیا۔ حامد میر نے بتایا کہ منو بھائی نے کالم نگاری کے حوالے سے انہیں دو مشورے دیئے کہ کالم رات 9 بجے لکھا کرو تاکہ لیڈ نیوز کے حوالے سے بات ہو اور دوسرے کالم عام آدمی کے لیے لکھا کرو۔ منو بھائی کی پنجابی شاعری کا آغاز فیض صاحب کی اس نصیحت سے ہوا کہ جس زبان میںخواب دیکھتے ہو‘ اُسی زبان میں شاعری کیا کرو۔ یوں منو بھائی کی مقبول شاعری اُن کی ماں بولی پنجابی میں لکھی گئی ہے۔
تین گھنٹوں پر محیط یہ تقریب ختم ہو ئی تو میں نے مڑ کے ہال میں بیٹھے سامعین کو دیکھا۔ اُن میں بہت سے چہروں کو میں نے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا، بہت سے ایسے چہرے جو شاید پھر کبھی نہ ملیں۔ آج یہ سب درد کے رشتے میں ایک دوسرے سے بندھے ہوئے یہاں چلے آئے تھے۔ فیضؔ نے سچ کہا تھا ؎
بڑا ہے درد کا رشتہ یہ دل غریب سہی
تمہارے نام پہ آئیں گے غم گسار چلے