برِصغیرپاک وہند میں برطانوی راج کی ظالمانہ پالیسیوں نے ہندوستان کے مختلف طبقوں کوایک دوسرے سے قریب کردیاتھا۔ ان سب کا مقصد ہندوستان کوغیرملکی تسلط سے آزاد کراناتھا۔برطانوی سامراج سے آزادی کے لیے یہ ضروری تھا کہ مقامی لوگ اپنی ثقافت، زبان اور نظامِ تعلیم کابہتر ادراک کرسکیں۔ اس سارے تناظر میں ایسی تعلیمی تحریک کی ضرورت محسوس کی گئی جوکہ ہندوستان کی سماجی، سیاسی اورثقافتی جڑوں کے ساتھ مضبوطی سے پیوستہ ہو۔ اس کے لیے یہ بھی ضروری تھا کہ تعلیمی ادارے مالی معاملات چلانے کے لیے برطانوی حکومت کے فنڈز پر انحصار نہ کریں۔ اس طرح کاتجربہ پہلے ہی1866ء میں کیاجاچکاتھا جب دارالعلوم دیوبند کاقیام عمل میں لایاگیا اوراس بات کا اعادہ کیاگیا کہ حکومتِ برطانیہ سے کوئی مالی اعانت طلب نہیں کی جائے گی۔
1875ء میں سرسید نے ایک سکول قائم کرکے علی گڑھ کی تعلیمی تحریک کی بنیاد رکھ دی تھی اور یہ سکول جلد محمڈن اینگلواورئینٹل کالج بن گیا۔ سرسید کایہ اقدام دارالعلوم سے اس لحاظ سے مختلف تھا کہ اس ادارے کامقصد مسلمانوںکو سائنس اورٹیکنالوجی کی جدیدتعلیم سے بہرہ ورکرناتھا تاکہ وہ حالات کابھرپورمقابلہ کرسکیں۔علی گڑھ کے بہت سے اساتذہ بشمول پرنسپل برطانوی تھے اوراسے برطانوی حکومت سے مالی معاونت بھی ملتی تھی۔ علی گڑھ کا برطانیہ کے متعلق نقطۂ نظربہت نپاتلا اور محتاط تھا اوراس کاواحد مقصد مسلمانوں کوتواناوطاقتور بناناتھا۔علی گڑھ کے فارغ التحصیل طلباء نے آگے چل کرتحریکِ پاکستان میں نمایاں کردارادا کیا۔1920 میں دواہم تحریکوں، تحریکِ خلافت اور تحریکِ عدمِ تعاون کاآغاز ہوا ۔اسی دوران قومی افق پر قومی تعلیم (National Education) کے نظریے نے زورپکڑا۔ تحریک خلافت کاآغاز مسلمانوں نے کیاتھا تاکہ سلطنت عثمانیہ کی علامتی شناخت کاتحفظ وتشخص برقرار رکھاجائے۔ مولانا محمدعلی جوہر، شوکت علی ، حکیم اجمل خان اورمختار انصاری اس تحریک کے روح رواں تھے۔ دوسری اہم تحریک عدم تعاون تھی جس کی رہنمائی گاندھی کے ہاتھ میں تھی اوراس کامقصد برطانیہ سے عدم تعاون تھا۔ مسلمانوں اور ہندوئوں نے باہمی تعاون کافیصلہ کیاتاکہ دونوں تحریکیں بھرپور انداز میں کام کرسکیں۔ گاندھی نے تحریک خلافت کی حمایت کے لیے اپنے عزم کااظہار کیااور تحریک خلافت کے رہنماتحریک عدم تعاون کے حامی بن گئے۔ تحریکِ عدم تعاون میںہندوستانیوں سے کہاگیا کہ وہ حکومتی نوکریاں، ادارے اورعہدے چھوڑدیں اوربدیسی مصنوعات کابائیکاٹ کریں۔ تعلیمی حوالے سے اس اپیل کامطلب یہ تھاکہ ایسے تعلیمی ادارے قائم کئے جائیں جو ''قومی تعلیم‘‘ کوفروغ دیں ۔ اس اپیل کے نتیجے میں قوم پرست یکجاہوگئے ان کی ساری توجہ تعلیمی ادارے قائم کرنے پرمرکوز ہوگئی۔ ان اداروں کانمایاں وصف یہ تھا کہ حکومت سے کسی بھی قسم کی امدادنہیں لیںگے۔
تحریک عدم تعاون کے اعلان کے بعد علی گڑھ کالج کیمپس میں ایک طرح کی بے چینی پائی جاتی تھی جہاں انقلابی قوم پرست طلبہ کاایک گروہ جس کی قیادت محمدعلی جوہرکررہے تھے چاہتاتھا کہ علی گڑھ بھی انقلابی اورنوآبادیاتی نظام کے خلاف اپنا کردارادا کرے۔ انہوں نے علی گڑھ کے(Trustees)سے مطالبہ کیا کہ وہ برطانوی حکومت سے فنڈز لینا بندکردیں۔ اس تجویز کوعلی گڑھ انتظامیہ کی اکثریت نے رد کردیاکیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ حکومتی امداد ادارے کوچلانے کے لیے نہایت اہم تھی۔ اس کانتیجہ یہ نکلا قوم پرست طلبا اپنی مادرعلمی سے الگ ہوگئے اور 29اکتوبر1920کومسلم نیشنل یونیورسٹی(جامعہ ملیہ اسلامیہ) کے قیام کااعلان کیا۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ کے سرخیلوں میں محمد علی جوہر، حکیم اجمل خان، ڈاکٹر مختار انصاری اورعبدالمجید خواجہ تھے۔ یہ بات بھی دلچسپی سے خالی نہیں کہ ان حالات میں مختلف عقائد کے گروہ قوم پرستی کے جھنڈے تلے اکٹھے ہوگئے تھے۔ شیخ الہند مولانا محمود الحسن جوکہ دیوبند کے ایک جید عالم تھے نے تحریک عدم تعاون کی حمایت میں ایک فتویٰ دیا۔ اگرچہ ان کی مالٹاکی جیل سے ابھی ا بھی رہائی ہوئی تھی اوروہ علیل تھے لیکن پھربھی وہ29اکتوبر1920کواس تقریب میںشامل تھے جس میں جامعہ کی بنیادرکھی گئی۔ان کی روبہ زوال صحت کے باعث ان کی تقریرمولانا شبیراحمدعثمانی نے پڑھی۔ گاندھی نے بھی جامعہ کی اعانت کی اوراس کے قیام کے لیے فنڈزبھی فراہم کئے۔ مذہبی عقائد اورقومی وابستگیوں کوبالائے طاق رکھتے ہوئے یہ ادارہ ہندوستان کے باسیوں کے لیے ان کے خوابوں کی تعبیر کی حیثیت اختیار کرنے لگا۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ کاپہلا کیمپس دو درجن خیموں میں قائم کیاگیاتھا جوکہ علی گڑھ کالج سے زیادہ دورنہیںتھا۔ پانچ سال بعداس ادارے کودہلی منتقل کردیاگیا۔ اجمل خان اس کے پہلے چانسلر اورمحمدعلی جوہر اس کے بانی وائس چانسلرتھے۔
جامعہ میں پڑھایاجانے والا نصاب حقیقی زندگی کی مہارتوں سے مربوط تھا۔ جدیدعلوم سے بہرہ ورہونے کے ساتھ ساتھ طلبہ مذہبی افکارسے بھی آگاہی حاصل کرتے تھے اس ادارے میں تعلیم کاایک اہم جزو پیشہ وارانہ تربیت اورمختلف پیشوںکی عملی تدریس تھا۔ جامعہ میں تدریس کے علاوہ مخصوص سیمینار اورخطبوں کابھی اہتمام کیاجاتاتھا تاکہ زیرتعلیم طلبہ مختلف عنوانات کے بارے میں جان کر اپنے ذہنی افق کووسیع کرسکیں۔ اس مقصد کے لیے قومی اور بین الاقوامی مفکرین کوتقریر کے لیے مدعوکیاجاتاتھاتاکہ جامعہ کے طلبہ ان سے علمی وفکری مباحث پرگفت وشنید کرسکیں۔
لیکچرسیریز میںقومی رہنمائوں کومدعوکیاجاتا تھا تاکہ وہ مختلف تقاریر ومباحث کی صدارت کریں۔ جامعہ کی فضافطرتاً انقلابی ،متحرک اور فعال تھی۔ انقلابی رہنما عبیداللہ سندھی کئی سال اس ادارے میں طلبہ سے خطاب کرتے رہے۔ ان سب باتوں کا نتیجہ یہ نکلا کہ برطانوی راج کے خلاف مزاحمت کے لیے قوم پرست قوتیںاس کے جھنڈے کے نیچے جمع ہوگئیں خواہ ان کاتعلق مذہبی طبقے سے تھا یاسیکولر گروہ سے، اس بات کاادراک بھی بہت ضروری ہے کہ جامعہ کاسفرہموارنہیںتھا۔ اس ادارے کوسب بڑاجھٹکا اس وقت لگاجب گاندھی نے1922ء میںتحریک عدم تعاون کے خاتمے کااعلان کر دیا۔چونکہ اس ادارے کی بنیاد عدم تعاون کے جذبے پرہی رکھی گئی تھی لہٰذاطلبہ اوراساتذہ میں اضطراب اور بے یقینی کی کیفیت فطری تھی جن میںسے کچھ جامعہ سے الگ ہوکرواپس علی گڑھ چلے گئے ۔ اس ادارے کودرپیش دوسرا سب سے اہم مسئلہ مالی وسائل کی کمی تھی کیونکہ اس نے حکومتی تعاون سے یکسرانکار کررکھاتھا۔ اگرچہ مخیرحضرات انفرادی طورپر توفنڈز دے رہے تھے لیکن یہ فنڈز یونیورسٹی کوچلانے کے لیے کافی نہیںتھے۔
ان نامساعدحالات میںذاکرحسین ، عابد حسین اورمحمدمجیب جنہوں نے غیرملکی جامعات سے پی ایچ ڈی کی تھی یونیورسٹی میںنئی روح پھونکنے کے لیے اس کے ہم سفر ہوگئے۔انہوں نے ایک معاہدہ کیاکہ وہ اس ادارے کوبیس سال تک نہیں چھوڑیںگے اورماہانہ150روپے سے زائد تنخواہ کاتقاضابھی نہیںکریںگے۔ یہ ذاکر حسین اوران کے ساتھیوں کی شبانہ روزمحنت اورلگن کانتیجہ تھا کہ یونیورسٹی دوبارہ ترقی کے راستے پر رواں دواں ہوگئی۔برطانوی راج کے خلاف مزاحمتی تحریک میں یونیورسٹی کاکردار سنہری حروف میں لکھاجائے گا۔ یہ وہ جگہ تھی جس نے بدیسی حکمرانوں کوچیلنج کیا۔ یہ وہ ادارہ تھا جس نے مسلمانوں اورہندوئوں کواکٹھا کردیاتھا خواہ وہ دیہی یا شہری علاقوں سے تھے، امیر یاغریب تھے، سیکولر یا بنیادپرست تھے۔ جامعہ ہی وہ ادارہ تھا جس نے سب کومتحدکردیااورانہوںنے اپنی گمشدہ آزادی کے حصول کے لیے تعلیمی مزاحمت کابھرپور استعمال کیا۔