پاکستان کے قابلِ احترام چیف جسٹس جناب ثاقب نثار نے ملک کے مختلف علاقوں کے دوروں کے دوران وطن عزیز میں تعلیم سے متعلق اپنی جائز تشویش کا اظہار کیا۔ جناب چیف جسٹس کا یہ کہنا تھا کہ پالیسی سازی عدالت کا کام نہیں لیکن آئین پر عملداری ان کی ذمہ داری ہے۔ انہوں نے اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین کی شق 25A کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اس قانون کے تحت ''ریاست کی یہ بنیادی ذمہ داری ہے کہ وہ پانچ سے سولہ سال کی عمر تک کے بچوں کو مفید اور لازمی تعلیم ہر صورت فراہم کرے‘‘۔
آئیے دیکھتے ہیں شرحِ خواندگی میں اضافے کے لیے مختلف ادوار میں کیا کیا وعدے کیے گئے۔ تعلیمی پالیسیوں میں کیسے کیسے اہداف مقرر کیے گئے لیکن ان وعدوں کا حصول ایک خواب ہی رہا۔ ستر اکہتر برس گزرنے کے بعد بھی یہ خواب شرمندۂ تعبیر نہ ہو سکا۔ 1992ء کی تعلیمی پالیسی میں یہ وعدہ کیا گیا تھا کہ 2002ء تک ملک کی شرح خواندگی 70 فیصد تک بڑھا دی جائے گی۔ اس دعوے کے چھ سال بعد 1998ء میں یہ اعادہ کیا گیا کہ 2010ء تک ملک کی شرح خواندگی میں 70 فیصد تک اضافہ کر دیا جائے گا۔ 2009ء کی پالیسی میں ایک بار پھر یہ عزم کیا گیا کہ 2015ء تک شرح خواندگی میں 86 فیصد تک اضافہ کر دیا جائے گا۔ تعلیمی پالیسیوں میں کیے گئے وعدوں پر عمل کیا جاتا تو اب تک شرح خواندگی کو سو فیصد ہو جانا چاہیے تھا، لیکن دعوے حقیقت کا روپ نہ دھار سکے۔ گزشتہ چند سالوں میں خواندگی میں اضافے کی شرح بہت کم رہی مثلاً 2011ء میں 58 فیصد، 2014ء میں 58 فیصد، 2015ء میں 60 فیصد اور 2016ء میں 58 فیصد۔ اب ہم جائزہ لیتے ہیں کہ سال 2018ء میں خواندگی کے حوالے سے ہم کہاں کھڑے ہیں؟
حال ہی میں جاری کردہ معاشی جائزہ پاکستان (2017-2018) کے مطابق سال 2018ء کے حوالے سے شرح خواندگی کا حیران کن طور پر ذکر تک نہیں کیا گیا۔ اس کے بجائے یہ لکھ دیا گیا ہے ''سال 2017ء میں آبادی اور گھروں کی خانہ شماری کے باعث ''(PSLM) سروے کا انعقاد نہیںکیا گیا۔ اس لئے سال 2015-2016ء کے جاری کردہ اعداد و شمار کو موجودہ سال کے لیے بھی شمار کیا جائے‘‘۔ حیرت کی بات ہے‘ اگر موجودہ سال کے لیے کوئی اعداد و شمار دستیاب نہیں تھے تو اس خانے کو خالی چھوڑ دیا جاتا۔ ہم کیسے یہ فرض کر لیں جو اعداد و شمار 2015-16ء کے تھے 2017ء کے لیے بھی بغیر کسی کمی بیشی کے وہی ہوں گے۔ ہمارا مشاہدہ ہے کہ ماضی میں کچھ مخصوص سالوں کے دوران خواندگی میں اضافے کی بجائے کمی ہوئی۔ مثال کے طور پر جو شرح خواندگی سال 2015ء میں 60 فیصد تک تھی 2016ء میں کم ہو کر 58 فیصد ہو گئی۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ ہم جنوبی ایشیا کے دیگر ممالک کے مقابلے میں شرح خواندگی کی کس سطح پر کھڑے ہیں؟ جنوبی ایشیا کے ممالک کی شرح خواندگی کچھ یوں ہے: مالدیپ (99 فیصد)، سری لنکا (92 فیصد)، بنگلہ دیش (72 فیصد)، انڈیا (70 فیصد)، نیپال (63 فیصد)، بھوٹان (59 فیصد)، پاکستان (58 فیصد) اور افغانستان (38 فیصد)۔ یوں پاکستان خواندگی میں پستی کے لحاظ سے دوسرے نمبر پر ہے۔
خواندگی کی طرح، یونیورسل پرائمری ایجوکیشن کے اہداف بھی مبہم ہی رہے۔ پالیسیوں کے تسلسل کی یقین دہانی کے لیے یونیورسل پرائمری ایجوکیشن کے اہداف کی تاریخیں بھی آگے ہی آگے بڑھتی چلی گئیں۔ ٹاسک فارس برائے ایجوکیشن (2011) کی رپورٹ میں ایک انتہائی اہم سوال پوچھا گیا تھا ''ترقی کی موجودہ شرح برقرار رکھتے ہوئے آخر کب تمام صوبے بچوں کو تعلیم کا قانونی حق دے پائیں گے؟‘‘ اس رپورٹ کے تحت اہداف کے حصول کے لیے ممکنہ تاریخوں کا تذکرہ کیا گیا ہے جس کے مطابق پنجاب 2041ء میں، سندھ 2049ء میں، خیبر پختونخوا 2064ء میں اور بلوچستان 2100ء میں یہ اہداف حاصل کر سکے گا۔ یونیورسل پرائمری ایجوکیشن کا جو خواب پاکستان ایجوکیشنل کانفرنس میں دیکھا گیا تھا‘ 1967ء میں پورا ہو جانا چاہیے تھا‘ لیکن 2018ء تک اس خواب کی تعبیر ممکن نہیں ہو سکی ہے۔ آخر اس کی وجہ کیا ہے کہ اتنی زیادہ تعلیمی پالیسیوں کے باوجود بھی ہم خواندگی اور یونیورسل پرائمری ایجوکیشن کے اہداف پورے نہیں کر سکے ہیں؟ اس کا سادہ سا جواب سیاسی عزم و ارادے کی کمی ہے۔ ملک کے فیصلہ سازوں کے سامنے تعلیم کبھی ترجیح ہی نہیں رہی‘ اگر رہی تو کم تر درجہ پر۔ اس کا واضح اظہار تعلیم کے لیے مختص فنڈز کی جی ڈی پی سے شرح ہے جو کہ 2013-14ء میں 2.1 فیصد، 2014-15ء میں 2.2 فیصد اور 2015-16ء میں 2.3 فیصد رہی۔ سال 2017ء میں اضافے کی بجائے یہ شرح گر کر 2.2 فیصد ہو گئی۔ یہ بات بڑی اہم ہے کہ 2009ء کی تعلیمی پالیسی میں یہ کہا گیا تھا کہ ''حکومتیں 2015ء تک تعلیم کے لیے جی ڈی پی کا 7 فیصد تک کر دیںگی اور اس کو عملی جامہ پہنانے کے لیے تمام ممکنہ اقدامات کئے جائیں گے۔‘‘ لیکن دوسرے تمام وعدوں کی طرح یہ وعدہ بھی ایفا نہ ہو سکا۔ جنوبی ایشیا میں پاکستان وہ واحد ملک ہے جو تعلیم کے لیے جی ڈی پی کا کم ترین وقف کر رہا ہے۔ خواندگی، یونیورسٹی پرائمری ایجوکیشن اور تعلیم نسواں کے زیادہ تر منصوبے نگرانی کے مربوط نظام سے عاری رہے۔ لہٰذا یہ منصوبے یا پروجیکٹس آغاز سے اختتام تک کوئی نمایاں تبدیلی لانے کا باعث نہ بن سکے۔ نگرانی کے موثر نظام کی عدم موجودگی کے علاوہ ان سارے پراجیکٹس میں احتساب اور جانچ پڑتال کی بھی کمی رہی۔ اس طرح بہت سے اقدامات پر کثیر سرمایہ اور فنی ذرائع کا استعمال ہوا لیکن ان کے نتیجے میں کوئی نمایاں ثمرات حاصل نہیں ہو سکے اور اس پہ طرہ یہ کہ اس کے ذمہ داروں کو کوئی سزا تک نہ ملی۔ تعلیم کے موجودہ اور اہم ترین چیلنج سے نمٹنے کے لیے درج ذیل تجاویز دی جا رہی ہیں:
1۔ خواندگی کی پست ترین شرح کو بلندکرنے کے لیے اور بچوں کو 25A کے تحت تعلیم کا حق دینے کے لیے پاکستان میں تعلیمی ایمرجنسی کا نفاذ کیا جائے۔
2۔ مستقبل میں تمام تعلیمی پالیسیاں اسمبلیوں کے منتخب شدہ ممبران کے سامنے بحث کے لیے پیش کی جائیں اور اتفاق رائے سے انہیں اسمبلیوں سے پاس کرایا جائے۔ اس سے یہ ہو گا کہ یہ پالیسیاں نہ صرف مختلف طبقاتِ معاشرہ کے لئے قابل قبول ہوں گی بلکہ انہیں قانونی پشت پناہی بھی ملے گی۔
3۔ تعلیمی پالیسیوں میں دیئے گئے اہداف کے عدم حصول یا ناکامی کی ایک بڑی وجہ سیاسی عزم و ارادے کا فقدان ہے۔ اس سیاسی عزم کی کمی کے باعث تعلیم کو ترجیح بھی کم ملتی ہے۔ کسی بھی پالیسی کو کامیابی سے لاگو کرنے کے لیے ضروری ہے کہ اسے حکومت اور عوام کی پشت پناہی حاصل ہو اور یہ حمایت یا پشت پناہی پالیسی لاگو کرنے والے تمام لوگوں پر بھی نمایاں طور پر واضح ہو۔
4۔ اچھی پالیسیاں اور منصوبے اسی صورت میں بن سکتے ہیں اور کامیاب ہو سکتے ہیں جب ان سے متعلق معاشرے کے تمام طبقات کو شامل کیا جائے۔ ایسا عمل جس میں تمام متعلقین کو شامل کرکے ان سے مشاورت لی جائے اس کی کامیابی کے امکانات روشن ہو جاتے ہیں۔
5۔ نگرانی کے موثر طریقہ کار کی اشد ضرورت ہے۔ سپریم کورٹ کو چاہیے کہ وہ اس سلسلے میں ایسی کمیٹی تشکیل دے جو معروف اور غیر جانبدار ماہرین پر مشتمل ہو۔ اس کمیٹی کی صدارت کوئی ریٹائرجج کرے اور پالیسی کے نفاذ اور یقینی کامیابی کے لئے کمیٹی سال میں دوبارہ رپورٹ جاری کرے۔ یہ کمیٹی نہ صرف مسائل کی نشاندہی کرے بلکہ ان مسائل کے لیے ممکنہ اقدامات بھی کرے۔
محترم چیف جسٹس کی تعلیم کے حوالے سے جائز تشویش کو مثبت انداز میں لینا چاہیے اور اس ضمن میں فوری اقدامات کئے جانے چاہئیں تا کہ تعلیمی اہداف کے حصول کے لیے جاری کوششوں کو کامیاب کیا جا سکے۔