کبھی کبھی یوں ہوتا ہے‘ کسی جگہ کے تصورسے اس سے جڑی یادیں انگڑائی لے کے بیدار ہوجاتی ہیں۔ راولپنڈی کی لال کُرتی بھی ایک ایسی جگہ ہے‘ جس کے خیال سے بہت سی یادیں آنکھیں جھپکتی میرے ارد گرد آ بیٹھی ہیں۔ لال کُرتی کی میری اولین یاد میرا پرائمری سکول ہے‘ جو ماموں جی روڈ پرایوب ہال کے سامنے تھا۔مجھے یاد ہے ‘تیسری جماعت میںجب میں سکول میں داخل ہوا تو اور سوالوں کے علاوہ میرے ذہن میں ایک سوال یہ بھی تھاکہ لال کُرتی کانام لال کُرتی کیوں ہے؟بہت دنوں بعد ایک روز ہمارے ایک استاد نے یہ الجھن آسان کردی‘ انہوں نے بتایا کہ لال کُرتی سے پہلے اس جگہ کانام برٹش انفنٹری بازار تھا‘ یہ گوروں کی چھائونی تھی‘ رائل برٹش انڈین آرمی کے یونیفارم میں لال رنگ کی شرٹ ہوتی تھی‘ یوں اس علاقے میں ہر طرف یہی رنگ نظرآتاتھا ‘اس لیے اس کانام لال کُرتی مشہور ہو گیا۔ پاکستانی اورہندوستان کے کئی شہروں میںجہاں چھائونیاں تھیں‘ وہاں لال کُرتی کاعلاقہ بھی تھا۔ دہلی‘ انبالہ ‘ میرٹھ‘ کان پور‘ پشاور‘ لاہور وغیرہ میں ایک عدد لال کُرتی تھی۔بعد میں نہ تو وہ رائل آرمی رہی اورنہ ہی وہ لال رنگ کی کُرتی‘ جو وہ پہناکرتے تھے‘ سو لا ل کُرتی کا نام طارق آباد رکھ دیاگیا‘لیکن لال کُرتی کا رنگ اتناکچانہ تھاسوابھی تک لوگ اسے پرانے نام سے ہی جانتے ہیں۔
راولپنڈی کی لال کُرتی‘ چھائونی کے علاقے کادل تھی۔ اس کی اہمیت کااندازہ یوں لگایا جاسکتاہے کہ میری طالب علمی کے زمانے میں عسکری اورسیاسی مراکز لال کُرتی میں واقع تھے۔ میرے سکول سے کچھ فاصلے پرجی ایچ کیو تھا‘ ایک آرمی میوزیم تھا‘ سی ایس ڈی ڈیپارٹمینٹل سٹورتھا‘کمبائنڈ ملٹری ہسپتال تھا‘ سکول کے بالکل سامنے ایوب ہال کی عمارت تھی‘ جہاں قومی اسمبلی کے اجلاس ہواکرتے تھے۔ یہ ساٹھ کی دہائی کازمانہ تھا صدر ایوب خان نے کراچی سے دارالخلافہ اسلام آبادمنتقل کردیاتھا۔ قومی اسمبلی کی عمارت زیرتعمیرتھی ‘اس لیے کچھ عرصے کے لیے قومی اسمبلی کے اجلاس ایوب ہال میں ہوتے تھے‘ جہاں اس وقت قومی اسمبلی کے سپیکرمولوی تمیز الدین کی آواز گونجاکرتی تھی۔ اب ایوب ہال کے سامنے والی سڑک مولوی تمیزالدین کے نام سے موسوم ہے۔ایوب ہال اورمیرے سکول سے آگے بڑھیں‘ تو بائیں ہاتھ پر ایک سنیماہال تھا‘ جس کا نام تصویرمحل تھا‘ جہاں ہر نئی فلم کی آمدپر بڑے بڑے پوسٹر لگے ہوتے تھے ۔ مجھے یادپڑتا ہے کہ تصویر محل کے ساتھ ایک پکچر فریمنگ کی دکان تھی‘ جواپنے زمانے کی ایک معروف دکان تھی۔ تصویرمحل کے سامنے بھی کچھ دکانیں تھیں‘ گرمیوںکے موسم میں ایک ریڑھی پرشربت بکتاتھا‘ مجھے یادہے ‘ایک بارمیں نے وہاں سے چلچلاتی دھوپ میں ٹھنڈا شربت پیاتھا ۔
لال کُرتی کی ایک اہم عمارت زلفِ بنگال تھی ۔ یہ عمارت ایک باثروت ہندو تاجر ایشرداس کی ملکیت تھی۔ ایشرداس 'زلفِ بنگال ‘ کے نام سے تیل بنایا کرتاتھا‘ جومتحدہ ہندوستان کے مختلف شہروں میںمقبول تھا‘ اسی مناسبت سے اس عمارت کانام بھی زلفِ بنگال رکھاگیا۔ ذرا اورآگے بڑھیں‘ تو بائیں ہاتھ 'بگاہوٹل‘تھا‘جہاں ہروقت گاہکوں کی بھیڑ ہوتی ‘اس کے ساتھ گڈلک بیکری تھی۔اس کے بالکل سامنے عید گاہ تھی‘ جہاں عید کی نماز کے علاوہ مذہبی اور سیاسی جلسے بھی ہوتے تھے۔ گڈلک بیکری سے آگے لال کُرتی کی معروف پان شاپ تھی‘ جس کا نام دارلسرورتھا۔ یہ ایک چھوٹی سی دکان تھی‘ جس کے مالک حاجی محمد یوسف صاحب بہت نازک مزاج تھے۔ مثلاً: اگرکوئی کہے:اچھا ساپان بنادیں‘ تووہ چڑجاتے تھے اورکہتے تھے‘ یہاں سارے پان بہت اچھے ہیں‘ آپ کو کہنے کی ضرورت نہیں۔عقبی دیوار پرپانوں کے نام لکھے تھے۔ واہ واہ! حاجی صاحب کے ذہن ِ رسا نے پانوں کے کیا کیا نام تخلیق کیے تھے۔ مثلا :ً شام اودھ‘ چلتے چلتے ‘ ہم سے نہ بولو‘ مغلِ ِاعظم‘ زینتِ لب‘ ہُو ہُو ہُو‘ اکیلے نہ جانا وغیرہ۔مجھے یاد ہے ‘طارق عزیز نے اپنے مقبول ٹی وی شو 'نیلام گھر‘ میں اس پان شاپ کا خصوصی ذکر کیا تھا۔پان شاپ سے آگے باٹاچوک ہے‘ چوک کے بائیں ہاتھ جائیں‘ تو کچھ دکانیں تھیں‘ ذرا آگے بڑھیں تو بائیں ہاتھ ایک گیٹ تھا اورگیٹ کے اندمسیحی آبادی اور ایک چرچ تھا۔ پرائمری کے بعد میراہائی سکول بھی لال کُرتی ہی میںتھا‘ یوں لال کُرتی ایک طرح سے ہمارا صحن تھا‘ جہاں کے سب راستوں سے میں آشناتھا۔ مذہبی ہم آہنگی میں لال کُرتی ایک مثالی جگہ تھی‘ ایک طرف مسجدیں تھیں‘دوسری طرف دوچرچ تھے؛ سینٹ جوزف کیھتیڈرل اور کرائسٹ چرچ۔ کرائسٹ چرچ1852ء میں تعمیرہواتھا۔ کہتے ہیںہندوئوں کے بھی کئی مندر تھے‘ لیکن تقسیم کے بعد زیادہ ہندوآبادی ہندوستان چلی گئی‘ لیکن اب بھی ایک بالمیکی مندر موجود ہے‘ جہاں ہندوعبادت کے لیے جاتے ہیں۔ ہاں تومیں احاطے کاذکرکررہاتھا‘ جہاں کرسمس کے موقع پر ہم بھی کرسمس کیک کاٹنے کی تقریب میں شریک ہوتے۔ احاطے سے ذرا آگے راولپنڈی پریزنٹیشن کانونٹ کی بلڈنگ تھی‘ اسی سکول میںبے نظیر بھٹو کچھ عرصہ زیرتعلیم رہیں اور پھر مری کے کانونٹ سکول میں تعلیم حاصل کی۔ اس سکول کا تعلیم کے فروغ میں اہم کردار ہے۔
عزیزبھٹی روڈ پر آگے بڑھتے جائیں‘ تو دائیں ہاتھ ایک بڑی حویلی تھی‘ یہ حویلی اپنے زمانے کے مشہور وکیل خان بہادر قاضی نذیر احمد کی تھی۔ ان کے پوتے اور لال کرُتی کی ہردلعزیز شخصیت قاضی ندیم ہمارے دوست تھے۔ بائیں ہاتھ سکوائش کورٹس تھے‘ جہاںمیرے دوست فہیم گل کاگھرتھا‘ جس کے والدوہاں کے سکوائش کورٹ کے کوچ تھے‘ بعدمیں فہیم گل اوراس کے چھوٹے بھائی جمشیدگل نے بھی سکوائش کی دنیامیں نام کمایا۔ میرا اکثر یہاں سے گزرتاتھا ‘جس روز ہم نہ جاتے فہیم کی والدہ پوچھتیں:آج تمہارے دوست کیوںنہیں آئے؟ سکوائش کورٹس کے بالکل سامنے شالیمار ہوٹل کی تعمیر ہمارے سامنے شروع ہوئی ‘ سکوائش کورٹس کی دیوارسے جڑی ہوئی دیوار انٹرکانٹی نینٹل ہوٹل کی تھی‘ جواب پرل کانٹی نینٹل ہوٹل کہلاتاہے۔
اب ہم واپس باٹاچوک آجاتے ہیں اورلال کرتی کے تنگ بازار میں داخل ہوتے ہیں‘ جس کے آغازمیں ہی مٹھائی کی دکان تھی ‘جہاں کے متھرا کے پیڑے بہت مشہور تھے۔ ذرا آگے بائیں ہاتھ سلیم چاٹ ہائوس تھا ‘ جہاں ہم اکثرجایاکرتے‘ آگے بڑھتے جائیں ‘تو لدھیانہ ہوٹل تھا‘ جواپنی چائے کے لیے مشہورتھا۔ساتھ حاجی صاحب کاہوٹل ‘جو تڑکے والی دال کے لیے جاناجاتا تھا۔بائیں طرف والی سڑک پرلطیف کی تکہ شاپ تھی‘ اس کی خاص بات اس کامعیارتھا‘ وہ محدود مقدا ر میںتکے اورکباب بناکر فروخت کرتا اور سامان ختم ہونے پردکان بندکرکے گھرچلاجاتا۔ لطیف تکاشاپ سے ذرا آگے کونے میں ملا کاہوٹل تھا‘ یہاں کی چائے کا اپنا ذائقہ تھا‘ اتنی اچھی چائے میںنے پھرکہیں نہیں پی۔ اگرآپ پورا کپ چائے نہ پیناچاہئیں‘ توآدھا کپ بھی آرڈر کرسکتے تھے‘ اسے کٹ(Cut)کہاجاتا تھا۔سناہے‘ ملاہوٹل کی جگہ بدل گئی ہے ‘ مگر چائے کا وہی معیار ہے۔مجھے لال کُرتی کو دیکھے ایک عرصہ ہو گیا ہے۔کبھی جی چاہتا ہے ‘انہیں راستوں پر پھر جاؤں‘لیکن سنا ہے‘ وہاں بہت کچھ بدل گیا ہے۔ میرے پرائمری سکول کی عمارت میں ایک ٹینٹ سروس کا دفتر بن گیا ہے۔ سکول کے باہر سایہ دار درخت اب کٹ چکا ہے‘ ایوب ہال میں ایک سرکاری دفتر بن گیا ہے۔تصویر محل سینما کی جگہ اب خاک اُڑ رہی ہے۔دارالسرور پان والے حاجی یوسف اپنے خوش رنگ اور خوش نام پانوں سمیت اجل کے دھندلکوں میں کھو گئے ہیں۔احاطے میں رہنے والے میرے دوست نوکریوں کی تلاش میں ملک سے باہر گئے اور پھر لوٹ کر نہیں آئے ۔ لطیف تکہ شاپ کا لطیف مدتوں پہلے اپنی دکان بڑھا گیا۔ سنا ہے فہیم گل وطن سے دُور آج کل امریکہ کے ایک شہر میں سکوائش سکھاتا ہے۔ اور میں؟ میں اس وقت یہ کالم راولپنڈی سے بہت دور ایک شہر میں لکھ رہا ہوں‘ میرے کمرے کی کھڑکی کے بالکل سامنے ایک خوب صورت پارک ہے ‘میں اپنے کمرے کی کھڑکی کے پاس جا کر کھڑا ہوتا ہوں‘ کھڑکی سے باہر بارش ہونے سے ذرا پہلے کی تیز ہوا چل رہی ہے‘درختوں سے سرخ پھول ٹوٹ ٹوٹ کر اِدھر اُدھر اُڑرہے ہیں۔لال کُرتی کے باسیوں کی طرح ‘جو کل تک تو یہیں تھے‘ لیکن اب ان منظروں کا حصہ نہیں ہیں۔میرے دل میں اداسی کی ایک بے نام سی لہر اٹھتی ہے۔ ایسا کیوں ہوتا ہے؟ پھر میںسوچتا ہوں‘شاید زندگی انہیں منظروں کے بننے اور بکھرنے کا نام ہے۔