"SSC" (space) message & send to 7575

نیشنل کالج: برطانوی راج ِ کے خلاف مزاحمت کا استعارہ

برطانوی راج کے خلاف مزاحمت کی کہانی نیشنل کالج لاہورکے ذکر کے بغیر اُدھوری ہے۔یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ یہ نیشنل کالج آف آرٹس کا قصہ نہیں‘ بلکہ اس نیشنل کالج کی کہانی ہے‘ جس نے ہندوستان کے نوجوانوں میں حریت کی جوت جگا کرانہیں فرنگی حکومت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کربات کرنے کاحوصلہ دیاتھا۔ یہ ان دنوں کی بات ہے جب ہندوستان میں مزاحمت کی تحریک زور پکڑرہی تھی۔ ایک طرف 1920 ء میںگاندھی نے تحریکِ عدم تعاون کاآغاز کیاتھا اورساتھ ہی تحریکِ خلافت میں لوگ دیوانہ وار حصہ لے رہے تھے۔ دونوں تحریکوں میں ہندواورمسلمان مل کربدیسی حکمرانوں کے خلاف جدوجہد کررہے تھے۔تحریکِ عدم تعاون میں تمام ہندوستانیوں سے کہاگیاتھا کہ وہ سرکاری نوکریاں چھوڑدیں‘ بدیسی اشیاء خریدناترک کردیں اور فرنگی تعلیمی اداروں کابائیکاٹ کریں۔ ایسے تعلیمی ادارے قائم کئے جائیں‘ جہاں نوجوانوں کوقومی تعلیم سے روشناس کرایاجائے۔ ایک ایسی تعلیم جودیس کی ثقافت اوراس کے خوابوں سے جُڑی ہوئی ہو۔ اس اپیل پرہندوستان کے مختلف حصوں میں بہت سے قومی کالجوں کی بنیاد رکھی گئی۔ ان تعلیمی اداروں میں دونمایاں ادارے تھے‘ جن میں ایک جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی اوردوسرا لاہور کانیشنل کالج تھا۔
نیشنل کالج کا روحِ رواں لالہ لاجپت رائے تھا‘ جس نے1921ء کولاہور میں ا س کا لج کی بنیاد رکھی۔ لالہ لاجپت رائے 28جنوری 1865ء کو لاہور میںپیدا ہوا۔ وہ ایک وکیل‘ سیاست دان‘ صحافی‘ ماہرتعلیم اورلکھاری تھا اوریوں اس نے مختلف حیثیتوں سے آزادی کی قومی جدوجہد میں بھرپور کردارادا کیا۔ دوردراز علاقوں کاسفر کیا اور دنیاکے سیاسی اورتعلیمی نظاموں کانہایت باریک بینی سے مطالعہ کیا۔ لالہ لاجپت رائے نے ہندوستان کے سماجی‘ ثقافتی‘ سیاسی اورتعلیمی مسائل سے متعلق لکھااور عوام تک آزادی کا پیغام پہنچانے کے لیے صحافت کی اہمیت کابخوبی ادراک کیا۔ اس نے اُردواورانگریزی دونوں زبانوں میں جرائد کی اشاعت کی۔ لالہ لاجپت رائے ایک نیشلسٹ تھا‘ جس نے نوجوان ہندوستانیوںمیںجذبۂ حریت اجاگرکیا۔1928ء میں لالہ لاجپت نے سائمن کمیشن کے خلاف لاہورمیں ایک احتجاجی ریلی کی قیادت کی‘ لوگوں کاہجوم جوسائمن کمیشن کے خلاف نعرے لگارہاتھا‘ اسے سپرنٹنڈنٹ پولیس جیمز اے سکاٹ کے احکامات پر لاٹھیوں سے بری طرح پیٹاگیا۔ لالہ لاجپت رائے کے جسم پر بھی لاٹھیوں کے زخم آئے؛ حتیٰ کہ اس کے جسم سے خون بہنے لگا اوروہ زمین پر گر پڑا۔اس بہیمانہ تشدد کے نتیجے میں وہ سترہ دن زندگی وموت کی کشمکش میں گزارنے کے بعدجان کی بازی ہار گیا۔ لالہ لاجپت رائے نے کانگرس میں قیادت کاکردار بخوبی نبھایا۔ وہ تعلیمی معاملات میں گہری دلچسپی رکھتا تھا‘ اسی حوالے سے اس نے قومی تعلیم کے حوالے پرایک اہم کتابThe Problem of National Education In India بھی لکھی۔1920ء تحریکِ عدم تعاون کے نتیجے میں جب قومی تعلیمی اداروں کے قیام کے لیے کہا گیا‘ تو لالہ لاجپت رائے نے1920ء میں لاہور میں کچہری کے قریب ریٹی گن روڈ پر واقع بریڈ لا ہال میں نیشنل کالج کی بنیاد رکھی۔ نیشنل کالج کامقصد تعلیم ایک متبادل نظریہ پیش کرناتھا ‘جوکہ باقی کالجوں سے مختلف تھا‘کیونکہ ان تمام تعلیمی اداروں کاہدف گورنمنٹ کے فنڈزاورانتظام کی مددسے ایسے گریجویٹس تیار کرناتھا‘ جو صرف حکومتی نوکری کرسکیں ۔اس کے برعکس نیشنل کالج کے قیام کاواحد مقصد ایسے طلباتیار کرناتھا‘ جن میںبھرپور قسم کی سیاسی وسماجی بیداری اجاگر ہواور جو برطانوی حکومت سے آزادی کے لیے اورہندوستان کے تشخص کی بحالی کے لیے بھرپور کردارادا کرسکیں۔ نیشنل کالج ہندوستان کے ایسے طلبا کومتبادل ذریعہ تعلیم فراہم کررہاتھا ‘جوکہ ہندوستان کے سرکاری تعلیمی اداروں میں نہیں پڑھناچاہتے تھے۔ کالج میں کلاسوں کاآغاز بریڈلا ہال(Bradlaugh Hall)میں ہوا جوکہ ریٹی گن روڈ(Rattigan Road)پرواقع تھا۔ بریڈلا ہال کاافتتاح1901ء میں ہواتھا اوریہ اپنے وقت کی انقلابی اوروطن پرست سرگرمیوں کامرکزتھا۔ مہاتماگاندھی‘ محمدعلی جناح‘ ابولکلام آزاد‘ عطاء اللہ شاہ بخاری اورمولانا ظفر علی خاں جیسے نامور رہنمائوں نے بریڈلا ہال کادورہ کیا۔ نیشنل کالج‘ مذہب وطبقات سے بالاتر ہوکر ان تمام لوگوں کے لیے باہیں کھولے کھڑاتھا‘ جن میں برطانوی راج سے آزادی کی چنگاری سلگ رہی تھی۔ نیشنل کالج کے تمام اساتذہ سیاسی طورپر بھی خاصے سرگرم تھے۔ بھائی پرمانند کالج کے چیف ایڈمنسٹریٹر تھے۔ وہ یورپین تاریخ بھی پڑھاتے تھے۔ جگل کشور کوکالج کاپرنسپل مقرر کیاگیا۔انتظامی امورسنبھالنے کے علاوہ وہ سیاسیات بھی پڑھاسکتے تھے۔ ان کے بعد شبل داس (Chhabil Das)کالج کے پرنسپل بنے۔ پروفیسر جے چند ودیالنکر‘ جن کے بہت سے انقلابیوں سے گہرے مراسم تھے۔ قدیم تاریخ پڑھاتے تھے۔ وہ ایک پرعزم شخصیت کے مالک پروفیسرتھے ‘جوہمیشہ اپنے طلبا میںآزادی کی جوت جگا کر رکھتے تھے ۔ پروفیسر سوندھی‘ ہندوستانی تاریخ پڑھاتے تھے۔ غلام حسین ایک اورپروفیسرتھے ‘جوسوشلزم پڑھاتے تھے اور انہیں بعد میںکان پور‘ کیس میں گرفتار بھی کیاگیاتھا۔
نیشنل کالج کے فارغ التحصیل طلبا نے تحریک ِآزادی کی جدوجہد میں بھرپور کردارادا کیا۔ ان طلبا میںنمایاں ترین بھگت سنگھ اورسکھ دیو بھی شامل تھے‘ جنہوںنے بعد میں1926ء میں نوجوان بھارت سبھاقائم کی تھی۔ وہ دونوں ہندوستان سوشلسٹ ایسوسی ایشن کے بانی ممبران بھی تھے‘ جس کی بنیاد فیروز شاہ کوٹلہ‘ نئی دہلی میں1928ء میںرکھی گئی تھی۔بعد میں بھگت سنگھ اورسکھ دیو کوسانڈرز کے قتل کے الزام میں تختہ دار پرلٹکادیاگیا تھا۔ نیشنل کالج کے کچھ اورممتاز طلبا میں بھاگوتی‘ چرن ودہرا‘ رانا چندرا بنارسی داس‘ گھبیرسنگھ اورپش پال نمایاں ہیں۔ نیشنل کالج کا نصاب سرکاری کالجوں سے مختلف تھا اوراس کامیدان طلبا میں سماجی وسیاسی بیداری اجاگرکرنا تھا اورطلبا میں دنیا کے مختلف علاقوں کی انقلابی تحریکوں کے بارے میں آگاہی پیداکرنا تھا۔ کالج میں سیاسیات‘ تاریخ اور معاشیات کے مضامین پرخصوصی توجہ دی جاتی تھی۔ یہ تینوں مضامین کالج میں پڑھائے جانے والے لازمی مضامین میں شامل تھے اوربعدمیں طلبا انہی میں سے ایک مضمون میں سپیشلائزیشن کرتے تھے۔
زبانوں(Languages) کامطالعہ بھی نصاب کاایک اہم ترین حصہ تھا۔ طلبا کے لیے ہندی‘ پنجابی اوراُردو میں سے ایک زبان پڑھنا لازمی تھا اورانہیں تحریک کے لیے اُردو یاگورمکھی رسم الحظ میں سے کسی ایک کے انتخاب کااختیار دیاجاتاتھا۔ طلبا کے لیے پہلے سے طے شدہ کوئی نصاب کتب نہیں تھیں‘ کیونکہ اساتذہ خود کتابوں کاانتخاب کرکے طلبا کونصاب کا متعلقہ حصہ پڑھاتے تھے ۔باقاعدہ کلاسوں کے علاوہ مخصوص خطابات لیکچرز کااہتمام کیاجاتا تھا ‘جن میں نامور دانشور عصرِ حاضر کے موضوعات پرخطاب کرتے تھے۔ نیشنل کالج میں تعلیم کے مقاصد میں ایک بڑا مقصد طلبا میں جذبہ قومیت کوپروان چڑھاناتھا ۔اساتذہ‘ طلبا کے ساتھ کلاس رومز کے باہرغیر رسمی مراسم رکھتے تھے اور ان کے ساتھ مختلف موضوعات پرگفت وشنید کرتے تھے۔ اس کے علاوہ غیرنصابی سرگرمیوں جیسے ڈرامہ وغیرہ کے لیے الگ سے کلب قائم تھے۔ ان تمام سرگرمیوں کاواحد مقصد طلبا کی حقیقی نموکو یقینی بناناتھا۔
تحریک ِآزادی میںنیشنل کالج کاکردارنہایت ہی اہم رہا۔ اس ادارے نے ایک تھنک ٹینک کاکردار ادا کیا‘جس نے سیاسی طور پر ایسے متحرک اوربیدار جوان پیدا کئے‘ جنہوںنے آزادی کے کے عظیم مقصد کے حصول کے لیے اپنی زندگیاں وقف کردیں۔ اگر آپ کو کبھی لاہور جانے کا اتفاق ہو تو کچہری کے قریب واقع اس تاریخی عمار ت کو دیکھنے ضرور جائیں‘ جسے بریڈ لا ہال کہتے ہیں‘ جو سالوں سے مقفل پڑا ہماری بے حسی پرماتم کناں ہے‘ جو کبھی تحریک ِآزادی میں حریت پسندوں کا مرکزہوتا تھا۔ جہاں کبھی نیشنل کالج ہوا کرتا تھا‘وہیں کہیں کچی زمین پر آپ کو اُن آشفتہ سروں کے قدموں کے نشان ملیں گے‘ جن کی آنکھوں میں آزادی کے ست رنگے خواب تھے اور جو اُن خوابوں کی تعبیر کی تلاش میں اُن وادیوں میں اُترگئے‘ جہاں جا کر کوئی واپس نہیں آتا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں