تعلیم کسی بھی معاشرے کی تعمیراورترقی میں بنیادی کردار ادا کرتی ہے۔ آج کل کادور جسے نالج اکانومی کادورکہاجاتاہے‘ تعلیم کی اہمیت اور بھی زیادہ ہوگئی ہے۔چاہے وہ غربت کاخاتمہ ہو‘ معیشت کی تعمیرہو یاانفرادی اورمعاشرتی سطح پر تبدیلی۔ تعلیم مرکزی کرداراداکرتی ہے۔
پاکستان اس لحاظ سے خوش قسمت ہے کہ ہماری آبادی میں نوجوانوں کی تعداد زیادہ ہے۔نیشنل ہیومن ڈیویلپمنٹ رپورٹ کے مطابق پاکستان کی آبادی میں64فیصد کی عمر30سال سے کم اور29فیصد کی عمریں15اور29سال کے درمیان ہیں۔ نوجوانوں کی کثیرتعداد کو تعلیم کی سہولت دے کرہم نالج اکانومی کاحصہ بناسکتے ہیں‘ لیکن بدقسمتی سے صورتحال اس کے بالکل برعکس ہے۔ایک تخمینے کے مطابق پاکستان میں پانچ سے سولہ سال کے بچوں کی تعداد68.4ملین ہے‘ جس میں سے39.6بچے سکول کی دہلیزتک نہیں پہنچ سکے۔
پاکستان میں شرحِ خواندگی58فیصد ہے ‘جو جنوبی ایشیا کی کم ترین سطح پر ہے سوائے افغانستان کے جنوبی ایشیا کے تمام ممالک کی شرح خواندگی پاکستان سے زیادہ ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ ماضی کی تمام حکومتیں اپنے بلندوبانگ دعووں کے باوجود تعلیم کو عام کرنے اور بہتربنانے کے لیے کوئی ٹھوس قدم نہ اٹھا سکیں۔ اس کااندازہ اس امرسے لگایا جا سکتاہے کہ ہم جی ڈی پی کا صرف 2.2 فیصد تعلیم کے لیے وقف کرتے ہیں یہ بھی جنوبی ایشیا میں تعلیم کے لیے وقف رقم کی کم ترین سطح ہے۔ نتیجے کے طورپر ہمارے اڑھائی کروڑ بچے سکول تک نہیں پہنچ سکے اور جوسکول تک پہنچ جاتے ہیں ان میں سے35فیصد آٹھویں تک نہیں پہنچ پاتے اورسکول سےDropoutہوجاتے ہیں۔ اسی طرح سکول میں پہنچنے والے بچوں کی ایک کثیرتعدادایسے سکولوں میں جارہی ہے‘ جہاں بنیادی سہولتوں کا فقدان ہے۔ یہ وہ بچے ہیںجن کے والدین کے پاس اتنے مالی وسائل نہیں کہ وہ انہیں پرائیویٹ سکولوں میں بھیج سکیں‘جہاں کے اخراجات ان کے تصور سے بھی ماورا ہیں۔ چیف جسٹس آف پاکستان نے جہاں قومی اہمیت کے دیگر معاملات پر ذاتی دلچسپی کامظاہرہ کیا ہے‘ وہیں انہوںنے سکولوں کے حوالے سے سماعت کی ایک نیشنل کمیٹی بنانے کااعلان کیا۔ محترم چیف جسٹس کاکہناتھاکہ سپریم کورٹ کی بنیادی ذمہ داری میں آئین پر عمل درآمد کرانا شامل ہے۔ آئین کے آرٹیکل25-Aکے مطابق 5سے16سال کے بچوں کی لازمی اورمفت تعلیم ریاست کی ذمہ داری ہے۔ وزیراعظم جناب عمران خان نے قوم سے اپنے خطاب میں تعلیم کواپنی تقریر کامرکزی نکتہ بنایا ہے۔ان کی تقریر میں تعلیم کا ذکر اکاون بارکیاگیا‘ اسی طرح انہوںنے ان اڑھائی کروڑ بچوں کاذکر کئی بار کیا‘ جن پرہمارے سکولوں کے دروازے بندہیں۔
جناب چیف جسٹس کی کمیٹی برائے تعلیمی اصلاحات کے صدر وفاقی محتسب جناب سیدطاہرشہباز تھے اوراس میں وفاقی وزارت تعلیم اورسندھ‘ بلوچستان‘ کے پی کے‘ پنجاب گلگت بلتستان اورآزادکشمیر کی نمائندگی وہاں کے سیکرٹریز کررہے تھے۔ کمیٹی کابنیادی مینڈیٹ 25-Aکے نفاذ کے حوالے سے تھا۔ مجھے بھی اس کمیٹی کے ایک رکن کی حیثیت سے کام کرنے کاموقع ملا۔ کمیٹی میں سارے ارکان رضاکارانہ حیثیت میں کام کررہے تھے۔ کمیٹی کے متعدد اجلاس ہوئے آغازِ کار میں کمیٹی نے آرٹیکل25-Aکے حوالے سے Situational AnalysisاورGap Analysisکیا۔ چاروں صوبوں کے علاوہ گلگت بلتستان اورآزادکشمیر کے صوبائی حکومتوں کے نمائندوں نے تفصیلی رپورٹس پیش کیں۔ جن میں مشکلات مواقع اور واضح ٹارگٹ کی نشاندہی کی گئی تھی۔ کمیٹی نے صوبائی اور وفاقی حکومت سے موصول رپورٹس کاتجزیہ کیااورانفراسٹرکچر‘ اساتذہ‘ بجٹ اور تعلیمی معیار کے حوالے سےGapsکاجائزہ لیا۔
کمیٹی کاطریقۂ کارInteractiveتھا ‘جس میں سب اراکین کے سامنے بنیادی مقصد یہ تھا کہ کس طرح 25-Aکے نفاذ کویقینی بنایاجائے۔ کمیٹی کے سربراہ طاہرشہباز صاحب اور سیکرٹری جناب اعجازقریشی صاحب نے ہرمیٹنگ میں اپنی موجودگی کویقینی بنایا۔کمیٹی نے متعددمیٹنگز کے نتیجے میں ایک جامع رپورٹ مرتب کی ہے۔ اس رپورٹ کی چندسفارشات درج ذیل ہیں:
1۔ ملک میں فوری طورپر تعلیمی ایمرجنسی کانفاذ کیاجائے تاکہ آئوٹ آف سکول بچوں کومعیارتعلیم یکساں نظام تعلیم اور سکل ڈیو یلپمنٹ جیسے چیلنجز کا مقابلہ کیاجاسکے۔
2۔ تعلیم کے لیے مختص بجٹ ہماری جی ڈی پی کاصرف2.2فیصد ہے‘ یہ بجٹ کم ازکم جی ڈی پی کا4فیصد ہوناچاہیے۔ اس کے ساتھ اداروں کیCapacity Buildingکااہتمام بھی کیاجاناچاہیے۔
3۔سرکاری سکولوں کی تعدادمیںاضافہ‘ اساتذہ کی بھرتی اوران کی ٹریننگ کافوری اہتمام کیاجائے‘ اسی طرح سکولوں میں بنیادی سہولتوں کویقینی بنایاجائے۔
4 ۔تعلیمی منظرنامے میںپرائیویٹ سیکٹر کاحصہ تقریباً36فیصد ہے ‘یوں ناخواندگی کے چیلنج کاسامناکرنے میں پرائیویٹ سیکٹر اپنامفید کردارادا کررہاہے۔ حکومت کوچاہیے پرائیویٹ اداروںکی فیسوں کو Rationaliseکیاجائے اور انہیں ہدایت کی جائے کہ کم ازکم10فیصد سیٹیں ان بچوں کے لیے مختص کریں جن کے والدین کے پاس مالی وسائل نہیں۔
5۔سکولوں میں ڈبل شفٹس کے علاوہ نان فارمل اداروں سے بھی کام لیاجائے۔
6۔سکول میں کم انرولمنٹ کاایک بڑا سبب غربت ہے۔ والدین اوربچوں کوسکول میں تعلیم کے لیے Incentivesدیئے جائیں۔
یہ رپورٹ میں دی گئی سفاشارت میں سے چند سفارشات ہیں ۔میراتعلیم کے ساتھ مختلف حیثیتوں سے تین دہائیوں سے زیادہ کاتعلق ہے۔ مجھے تعلیمی پالیسوں اوران پرعمل درآمد کی حالتِ زار کااندازہ اس وقت ہوا‘جب میںاپنی کتابEducation Policies in Pakistan:Politics, Projections, and Practices پرکام کررہاتھا۔یہ کتاب آکسفرڈ پریس سے 2014ء میں شائع ہوئی۔ کیااس کمیٹی کی سفارشات بھی ان دستاویزات کاحصہ بن جائیں گی‘ جن پرکبھی عمل درآمد نہیں کیاگیا؟ رپورٹ میں اس امرکی نشاندہی کی گئی ہے کہ قیام پاکستان سے اب تک متعددپالیساں آئیں ‘جن میں خوش نماوعدے اورٹارگٹس دیئے گئے‘ لیکن اصل مسئلہ Imlementationsکاہے۔ اس کے لیے کمیٹی نے لوکل‘ صوبائی اوروفاقی سطح پر مانیٹرنگ ٹیموں کی تجویز دی ہے۔ خداکرے کہ اس رپورٹ سے وہ نتائج حاصل ہوسکیں ‘جس کے لیے محترم ثاقب نثارصاحب نے یہ کمیٹی تشکیل دی تھی۔یہ اس خواب کی تعبیر ہوگی جو عمران خان نے اڑھائی کروڑ آئوٹ آف سکول بچوں کے بارے میں دیکھاتھا۔ کیساروشن ہوگا ‘وہ دن جب وہ بچے دوسرے بچوں کے ہمراہ سکول میں تعلیم حاصل کریںگے ۔ جب ان کی آنکھوں میں مستقبل کے خواب جگمگائیں گے۔جب وہ بھی معاشرے کی تعمیرمیں اپناکرداراداکریںگے۔ جب ان کی پیشانیوں سے مستقبل کی روشنی پھوٹے گی۔ وہی نئے پاکستان کی روشن صبح ہوگی۔