اس دن صبح ہی سے ہلکی بارش کاسلسلہ جاری تھا ‘چھٹی کادن تھا اورمیں اپنے گھرکی سٹڈی میں کتابوں کی ترتیب درست کررہاتھا کہ فون پرڈاکٹر سلطانہ بخش کاپیغام موصول ہوا ''جاویدصاحب چلے گئے‘‘۔ میرا دل جیسے کسی نے مٹھی میں بند کر دیا۔ مجھے وہ دن یاد آگئے جب جاویداقبال سیدصاحب‘ علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی میں ڈین سوشل سائنسز اورپھر وائس چانسلر تھے۔ لیکن میرے لیے جاویدصاحب کا عہدہ نہیں ان کی شخصیت سحرانگیز تھی‘ جسے عہدوں کی بیساکھیوں کی ضرورت نہیں تھی۔ وہ تو لوگوں کے دلوں میں بستے تھے۔ میںنے مین ڈورکھول کردیکھابارش کی پھوارجاری تھی‘ میں گاڑی میں بیٹھا اورجاویدصاحب کے گھرکی طرف روانہ ہوگیا۔ ونڈ سکرین پر بارش کی پھوار پڑ رہی تھی اور میرے دماغ میں بیتے دنوں کی فلم چل رہی تھی مجھے ان سے تین مہینے پہلے کی ملاقات یادآگئی جب میں ان سے ملنے گیا تھا۔ فریدہ بھابھی کی ناگہانی موت پر تعزیت کے لیے۔مجھے ان سے مل کر اندازہ ہوگیاتھا کہ جاویدصاحب اندر سے ٹوٹ چکے ہیں۔سعدیہ بیٹی چائے لے کرآگئی ‘جاوید صاحب اٹھے‘ شلف سے ایک لفافہ نکالا‘ اس لفافے میںفریدہ بھابھی کی تصویریں تھیں۔ پچاس سالہ محبت بھری رفاقت کی تصویریں۔ وہ مجھے ایک ایک تصویر دکھاتے اوراس کاپس منظر بیان کرتے رہے۔ میں جانے کے لیے اٹھا تو لنچ کے لیے اصرار کرنے لگے‘ پھریہ طے ہواکہ آئندہ ہم لنچ یاڈنر پراکٹھے ہوںگے۔ رخصت ہوتے ہوتے انہوںنے ہمیشہ کی طرح میرے ماتھے پربوسہ دیا۔ گاڑی کی ونڈسکرین پربارش کی تیز بوچھاڑ مجھے حال میںلے آئی ۔اچانک مجھے احساس ہوا میں خود بھی رورہاہوں۔ بیس منٹ کی ڈرائیو کے بعد میں ان کے گھر پہنچ گیاتھا۔ایک کمرے میں جاویدصاحب کابے حس وحرکت جسم تھا جس پرسفید رنگ کی چادرتھی۔ ہمیشہ مسکراتی ہوئی آنکھیں بند تھیں کمرے میں سعدیہ اوردوتین اورخواتین تھیں‘ میںنے جاوید صاحب کے چہرے پر نگاہ ڈالی جس پرزردی پھیلی تھی ‘میں نے جھک کران کے سرد ماتھے پربوسہ دیا اور کمرے سے باہرنکل آیا۔ گھر کے باہرسڑک خالی پڑی تھی۔ اب شام ہوچکی تھی‘ بارش کی وجہ سے وقت سے پہلے اندھیرا پھیل چکاتھا ‘میں اونچی نیچی سڑک پر بے مقصد چلنے لگا‘ اچانک میری نظر ریل کی پٹڑی پر پڑی جو جاوید صاحب کے گھر کے بالکل سامنے تھی۔مجھے یادآیا جاویدصاحب نے ایک بار گفتگو میں بتادیاتھا کہ ان کی پیدائش بلوچستان کے قصبے فورٹ سنڈیمن میں ہوئی۔ ان کے والد ریلوے میں گارڈتھے‘ ان کے گھر کے بالکل سامنے ریل کی پٹڑی تھی اوراس پٹڑی پرجب ریل گزرتی توگھر کے دروازے اورکھڑکیاں لرزاٹھتی تھیں۔ریل کی آواز میں جیسے کوئی جادو تھا‘ جسے سن کر ننھے جاوید کے دل میں ایک جوار بھاٹا اٹھتا اور وہ ننگے پا ؤں گھر سے نکل آتا اور دیر تک ریل کے ڈبوں کو دیکھتا رہتا۔
جاوید صاحب بتایا کرتے کہ ابتدائی تعلیم کے بعد ان کے والدکاتبادلہ کوئٹہ ہوگیا جہاں دسویں جماعت کے بعدکالج میں پڑھائی کے ساتھ انہیں رات کے وقت محکمہ موسمیات میں نوکری مل گئی۔ یوں چھوٹی عمرمیں ہی مشقت کاسفر شروع ہوگیا۔ جاویدصاحب اوپن یونیورسٹی کے ابتدائی سالوںمیں ہی علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی سے وابستہ ہوگئے ۔ میں جب1983ء میں اس یونیورسٹی میں آیا تو اس وقت یونیورسٹی صرف چاربلاکس پرمشتمل تھی۔ میرا ڈپارٹمنٹ دوسرے بلاک میںتھا۔ اتفاق سے جاوید صاحب اسی بلاک میںتھے اور ہماری فیکلٹی کے ڈین تھے‘ لیکن ان کے ساتھ ہماری بے تکلفی تھی ۔بعدمیں جب وہ یونیورسٹی کے وائس چانسلر بن گئے‘ تب بھی ان کے اورہمارے درمیان کوئی فاصلہ نہ تھا۔ ان کی زندگی دلچسپ واقعات سے پُرتھی۔اکثر وہ ہمیں اپنی زندگی کے واقعات سنایا کرتے تھے۔ ان میں سے کچھ تو مجھے اب بھی یاد ہیں ان میں ایک قصہ بلوچستان میں منگن ڈاکو سے ملاقات کاہے جس کی دہشت سے لوگ کانپتے تھے اور راستے سرشام ویران ہوجاتے تھے ۔ اسی طرح ایک بار انہوںنے بتایا کہ کیسے کوئٹہ میں ایک لڑکا بہادرخان ان کی جان کے درپے ہوگیاتھا۔ ایک روزرات کے وقت اس نے دودوستوں کے ہمراہ انہیںگھیر لیا اورکھلے چاقو سے ان پر حملہ آور ہوا‘لیکن وہ پھرتی سے اس کاواربچاکر قریبی ہسپتال کی دیوار پھاند کردوسری طرف کود گئے تھے۔
جاویدصاحب اکثراپنے بچپن کے دوستوں کاتذکرہ کرتے جن میں خالد لطفی‘ حسیب‘ معیز اور شیخ ریاض کاذکرآتا‘لیکن خالد لطفی کاتذکرہ تقریباً ہرگفتگو میں ہوتا۔ بقول جاوید صاحب: لطفی ایک انتہائی ذہین اوربااعتماد لڑکاتھا۔وہ خوبصورت انگریزی بولتا تھا اورکسی بھی سچو ایشن کو کنٹرول کرسکتاتھا۔ لطفی کو لاہورکے فلیٹیز ہوٹل (Faletti's Hotel) میں ٹیلی فون ایکسچینج میں نوکری ملی تواس نے جاویدصاحب کو بھی بلالیا اورانہیں بھی وہیں نوکری دلادی۔ یہ جاویدصاحب کابلوچستان سے باہر پہلا قیام تھا۔ جو لوگFaletti's ہوٹل کی تاریخ سے باخبر ہیں وہ جانتے ہیں کہ یہاں اہم شخصیات کاقیام رہتاتھا۔ ہالی وڈ کی معروف ایکٹریس ایواگارڈنر(Eva Gardner)نے بھی یہاں قیام کیاتھا‘ ایواگارڈنر جاویدصاحب کی پسندیدہ اداکارہ تھی۔پھر یوں ہوا کہ ایک دن اس ہوٹل میں تین مہمان آکرٹھہرے دوماں باپ اورتیسری ان کی بیٹی اس کانام سینڈرا ہیل(Sandra Hale)تھا۔ لیکن اس کی خوبصورتی کودیکھ کرہوٹل کاسٹاف اسے ایوا گارڈنرکہتاتھا۔ کبھی کبھی رات کوسینڈرا جاوید صاحب سے فون پر دیرتک باتیں کرتی رہتی۔ اس سارے معاملے کی لطفی کو خبر نہیں تھی‘ لیکن ایک روز سب کوپتہ چل گیا ۔جاویدصاحب کو نوکری سے فوری برخاست کردیاگیا۔لطفی کوپتہ چلا کہ جاویدصاحب کونوکری سے نکالاگیا ہے تواس نے احتجاجاً استعفیٰ دے دیا۔ جاویدصاحب کووہ دن یاد تھے جب ان کا گھرریلو ے سٹیشن کے باہر ایک چارپائی تھا۔ اسی دوران ایک جیب کترے نے ان کا بٹوا اڑالیا۔ جاویدصاحب کواس چیز کاافسوس نہیں تھا کہ بٹوے میں پیسے تھے‘ انہیں تو صرف اس بات کارنج تھاکہ بٹوے میں سینڈرا کی ایک تصویربھی تھی‘ جواس نے انہیں دی تھی۔
انہوںنے مختصر عرصے کے لیے سینٹ پیٹرک اورحبیب پبلک سکول میں پڑھایا۔ پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد وہیں پرانہیں ریسرچ آفیسر کی جاب مل گئی۔ ان کی زندگی میں ایک اہم موڑ اس وقت آیا جب انہیں پاپولیشن پلاننگ میں ایگزیکٹو آفیسر کی جاب ملی۔ سینکڑوں امیدواروں میں سے دوکومنتخب کیاگیا تھا‘ ایک جاویدصاحب اوردوسرے فخرزمان‘ جوبعد میں پیپلزپارٹی کے سینیٹراوراکیڈمی آف لیٹرز کے سربراہ بھی رہے۔ انہیں یونیورسٹی آف شکاگومیں سوشیالوجی میں ڈگری حاصل کرنے کاموقع ملا۔ واپسی پر انہوں نے یونیورسٹی آف بلوچستان میں بطور ایسوسی ایٹ پروفیسر جائن کرلیا۔ اس زمانے میں یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر کرارحسین تھے‘ جوجاوید صاحب کے آئیڈیل بن گئے۔
ان کی تعلیمی زندگی کا آخری پڑائو علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی تھی‘ جس کی اُٹھان میں ان کااہم حصہ ہے۔یہ اوپن یونیورسٹی کا ابتدائی دور تھا۔ فاصلاتی نظامِ تعلیم عام لوگوں کے لیے ایک اجنبی اصطلاح تھی۔جاوید صاحب نے نہ صرف فاصلاتی نظامِ تعلیم کے لیے کتابی مواد تیار کیا بلکہ ریڈیو اور ٹی وی کے لیے بھی پروگرام کیے۔وہ انتہائی creative ذہن کے مالک تھے‘ انہیں طرح طرح کے اچھوتے خیالات سوجھتے اور پھر وہ اپنے خوابوں کو حقیقت بنانے میں جُت جاتے۔ اب بھی یونیورسٹی جائیں تو جگہ جگہ ان کے تصور کی چھاپ ہے۔ جاویدصاحب ایک درویش صفت انسان تھے‘ وہ یونیورسٹی کے اساتذہ‘ مالیوں ‘ اور نائب قاصدوں سے گھل مل کررہتے تھے۔ ان کے ساتھ طویل رفاقت نے مجھے زندگی کاسب سے اہم سبق سکھایا تھا کہ اگر ہم اپنے رفقائے کار کوعزت دیں گے تو ہمیں جواب میں بھی عزت ملے گی۔ یہی وجہ ہے کہ یونیورسٹی سے جانے کے بعد بھی لوگ انہیں محبت سے یاد کرتے تھے۔
اچانک جاوید صاحب کے گھر کے سامنے پٹڑی پرریل کی پُرشور آواز سے میرے خیالوں کا سلسلہ ٹوٹ جاتا ہے۔ مجھے احساس ہوتا ہے کہ نجانے کتنی دیرسے میں ان کے گھر کے سامنے اونچی نیچی سڑک پر تنہا چل رہاہوں۔ جوںجوں ریل قریب آرہی ہے دروازوں اورکھڑکیوں کی لرزش بڑھ رہی ہے۔سب کچھ وہی ہے‘ لیکن وہ جس کے دل میں ریل کی آواز سُن کر ایک جوار بھاٹا اٹھتا تھا اور وہ ننگے پاؤں گھر سے نکل آتا تھا اور دیر تک ریل کے ڈبوں کو دیکھتا رہتا تھا‘ آج سفید چادر اوڑھے ہمیشہ کی نیند سو رہا تھا۔