کہتے ہیں تجسس‘ ادھورے پن‘ اور خوبصورتی کے مابین ایک پُر اسرار اور نازک سا رشتہ ہوتاہے ‘جو تکمیل کے تقاضے‘ انجام کی شرط اور سب کچھ جاننے کے اصرارسے ٹوٹ بھی سکتاہے۔ بعض اوقات کہانی کار جان بوجھ کر بہت سی توجیہات پڑھنے والوں کے تخیل کے لیے چھوڑ دیتے ہیں۔پچھلے ہفتے چھپنے والے کالم 'وعدہ‘ میں‘ مَیں نے راج اور پاروتی کی کہانی لکھی تھی ‘جس میں راج ساؤتھ انڈیا سے سات سمندر پار مانچسٹر پڑھنے کیلئے آیا تھا اور پھر یہیں کا ہو کر رہ گیا تھا۔ اب وہ اسی یونیورسٹی میں پڑھاتا تھا۔ میری اور راج کی دوستی ہو گئی تھی اور اس کی بڑی وجہ ہم دونوں کی سوشل تھیوری میں دلچسپی تھی ۔مانچسٹر میں راج کی کل کائنات ایک کرائے کا گھر تھا‘ جہاں ہر طرف کتابیں بکھری ہوتی تھیں اور جہاں اس کے سائیڈ ٹیبل پر پاروتی کی تصویر تھی‘ جس کی ہنستی ہوئی آنکھوں میں ایک عجیب سی کشش تھی‘ جس کی پیشانی پر سیاہ رنگ کی بندیا تھی اور جو ایک وعدہ کر کے بھول گئی تھی۔کالم کے ایک قاری نے واٹس ایپ پر کالم کے حوالے سے پسندیدگی کاپیغام بھیجا اور ساتھ ہی لکھا''کاش کہانی مکمل ہوتی‘‘۔ یہ پیغام پڑھ کرمیرے ہونٹوں پر مسکراہٹ آگئی اور میرا دھیان ایک ادھوری کہانی کے خالق اور''سب رنگ‘‘ ڈائجسٹ کے ایڈیٹر شکیل عادل زادہ کی طرف چلا گیا ۔شکیل عادل زادہ سے میرا عقیدت کا رشتہ ہے۔ اردو ادب میں اتنی خوبصورت نثر شاید ہی کسی نے تخلیق کی ہو؛اگر آپ نے لفظوں کی درو بست ‘جملوں کی ساخت اورتراش خراش کے فن کو اپنے درجہ ٔکمال پر دیکھنا ہو تو شکیل عادل زادہ کی نثر کا مطالعہ کریں ‘لیکن برا ہو ہمارے عصبیت کے مارے نقادوں کا‘ جنہوں نے ڈائجسٹ کے ادب کو سرے سے ادب ماننے سے ہی انکار کر دیا۔ یوں کیسے کیسے شہ پارے گمنامی کی دھند میں دھکیل دیے گئے ‘لیکن شکیل عادل زادہ کا معاملہ ذرا مختلف تھا ‘ یہاں نقادوںکی ایک نہ چلی ‘کیونکہ شکیل عادل زادہ کا سرتاسر انوکھا اسلوب لاکھوں دلوں میں گھر کر چکا تھا اور اسے کسی خود ساختہ نقاد کی سرپرستی کی ضرورت نہ تھی۔اب بھی ہماری نسل کے لوگ شکیل عادل زادہ کے نام سے اس دور کو یاد کرتے ہیں جب سب رنگ ہماری زندگیوں کا حصہ تھا‘ جب ہم اس کا انتظار کرتے تھے ‘اس کے ساتھ ہمیں شکیل عادل زادہ کے قلم سے قسط وار کہانی' بازی گر‘ کا بھی شدت سے انتظار ہوتا۔
ہمارا انتظار دس سے بارہ سال تک پھیل گیا‘ جوں جوں کہانی آگے بڑھتی ہمارے تجسس کی لو اور تیز ہو جاتی اور اور پھر ایک روز ''سب رنگ‘‘ کے بند ہونے کی خبر ملی ‘تو ہمیں یوں لگا ہماری زندگی کا ایک جزو ہم سے ہمیشہ کے لیے جدا ہو گیا ہے۔''بازی گر‘‘ کی کہانی ادھوری رہ گئی‘ لیکن یہ اب بھی ہمارے دلوں میں مہک رہی ہے۔ شاید کہانی مکمل ہو جاتی تو ہم اس کو اب تک فراموش کر چکے ہوتے۔بعض اوقات منزل کا تصور مسافر کو سرگرداں رکھتا ہے ‘شاید جو لطف تلاش میں ہے ‘وہ پا لینے میں نہیں۔ بعض دفعہ راستے منزلوں سے زیادہ دل فریب ہو جاتے ہیں۔
آج جب واٹس ایپ پر ایک قاری کا پیغام ملا کہ کاش کہانی مکمل ہوتی تو مجھے شکیل عادل زادہ کی ادھوری کہانی ''بازی گر‘‘ یاد آگئی‘ جس کا مرکزی کردار 'کورا ‘ تھی‘ جس کی تلاش میں ایک نوجوان بابر زمان خاں‘ ہندوستان میں شہر در شہر مارا مارا پھرتا رہا‘ لیکن کورا کا کوئی سراغ نہیں ملا۔ بابر زمان کی تلاش کا یہی نہ ختم ہونے والا سفر اور ادھورا پن کہانی کا حسن تھا۔ یہ کیفیت بھی عجیب ہوتی ہے جب منزل سے زیادہ تلاش کا عمل سحرانگیز ہوتا ہے‘ جب وصال سے زیادہ فراق میں لطف ملتاہے۔ ناصر ؔکاظمی نے شاید اسی کیفیت کے حوالے سے کہا تھا:
ترے فراق کی راتیں کبھی نہ بھولیں گی
مزے ملے انہیں راتوں میں عمر بھر کے مجھے
مجھے کیٹس کی شہرہ آفاق لائنHeard melodies are sweet, but those unheard are sweeter Readیاد آگئی۔ حقیقت تو یہی ہے کہ ا ن سنی بات کا اپنا حسن ہوتا ہے‘ جو تصور کی حاشیہ آرائی سے اور نکھر جاتا ہے‘ اسی طرح ان کہی بات کی خوب صورتی اظہار کے ساتھ ہی بکھر جاتی ہے ۔انگریزی کے معروف شاعر شیلی نے کہا تھا:When the lips have spoken,Loved accents are soon forgot مجھے گورڈن کالج کی ایک شام یاد آرہی ہے‘ تب گورڈن کالج محض ایک کالج نہ تھا‘ بلکہ ایک تہذیب اور تاریخ کا نام تھا ۔کیسے کیسے اساتذہ اور طالب علم اس کالج سے وابستہ تھے۔ میں یہاں ایم اے کا طالب علم تھا ‘ایم اے کے طالب علموں کو یہ رعایت ہوتی تھی کہ وہ پروفیسرمیس اور اس کے سامنے سرسبز لان میں کبھی کبھار پروفیسر کے ہمراہ ان کی گفتگو سن سکتے تھے۔ اساتذہ کی ایک جگمگاتی ہوئی کہکشاں تھی ۔خواجہ مسعود ‘ سجاد شیخ ‘آفتاب اقبال شمیم ‘نصراللہ ملک اورسجاد حیدر ملک ۔کیسے کیسے لوگ تھے ‘جن کی گفتگو سننے کا موقع ملتا‘ پھر ایک محفل زم زم کیفے میں ہوتی تھی ‘جہاں ہم اپنی فرمائش پر گراموفون ریکارڈ گیت سنتے۔ وہ بھی ایک ایسی ہی شام تھی‘ آسمان پر بادل گھرکر آئے تھے اور ہم دوست زم ز م کیفے کے باہر لکڑیوں کی بوسیدہ کرسیوں پر بیٹھے شیشے کے چھوٹے گلاسوں میں چائے پی رہے تھے۔ ہم سے کسی نے سوال کیا :خو بصورتی کسے کہتے ہیں ؟اس پر طرح طرح کے جواب آئے‘ کسی نے کہا: خوبصورتی تناسب کا نام ہے‘ کوئی بولا: خوبصورتی دیکھنے والے کی آنکھ میں ہوتی ہے‘ کسی نے کہا کہ خوبصورتی کا ایک محور ہوتا ہے کہیں آنکھیں‘ کہیں چہرہ‘ کہیں ہونٹ ۔ پھر ایک دوست بولا: خوبصورتی کے کئی رنگ ہوتے ہیں۔ زیادہ تر لوگ خوبصورتی کو جسمانی خوبصورتی تک محدود کر لیتے ہیں؛ حالانکہ آواز کی بھی ہو سکتی ہے‘کچھ لوگ خوبصورت گفتگو کرتے ہیں۔وہ جو احمد ندیمؔ قاسمی نے کہا ہے:؎
صرف اس شوق میں پوچھی ہیں ہزاروں باتیں
میں ترا حُسن ترے حُسنِ بیاں تک دیکھوں
خوبصورت گفتگو کی طرح ایک خوبصورتی اچھے رویے کی بھی ہوتی ہے اور بعض اوقات خوبصورتی کے سوتے ذہانت سے پھوٹتے ہیں۔اس ساری گفتگو کے بعد ہمارے ایک دوست نے ڈرامائی انداز میں کہا: در اصل خوبصورتی ایک Mysteryہے۔ یہ ایک راز ہے‘ ایک دھند لکا ہے‘ ایک جھٹپٹا ہے جس میں اظہار توہے مگر مکمل نہیں‘ اخفا بھی ہے مگر پورا نہیں۔ یوں خوبصورتی کو ہم محسوس تو کر سکتے ہیں‘ مگربیان نہیں کرسکتے۔ یہ تتلیوں کے نازک پروں پر بکھرے ان خوبصورت کچے رنگوں کی طرح ہے جن کو چھوا جائے تو وہ بکھر جاتے ہیں۔ منیر ؔنیازی کے ہاں ان کہی اور ان سنی کا حسن فراواںہے ‘اسی نظم کولے لیں:کچھ باتیں ان کہی رہنے دو /کچھ باتیں ان سنی رہنے دو/ سب باتیں دل کی کہہ دیں اگر /پھر باقی کیا رہ جائے گا/ سب باتیں ان کی سن لیں اگر/ پھر باقی کیا رہ جائے گا /ایک اوجھل بے کلی رہنے دو /ایک رنگین ان بنی دنیا پر /ایک کھڑکی ان کھلی رہنے دو ۔ اس ان کھلی کھڑکی کے اُس طرف کیا ہے‘ یہ ہمارے تخیل پر منحصر ہے ۔ وہ جو بشیرؔ بدر نے کہا ہے :جو کہا نہیں وہ سنا کرو‘ جو سنا نہیں وہ کہا کرو ۔ کچھ چیزیں ناتمام ہی اچھی لگتی ہیں۔ راج اورپاروتی کی کہانی بھی ادھوری رہ گئی تھی‘ میں نے بھی اسے نامکمل رہنے دیا یہی ساحر ؔ لدھیانوی کا مشورہ تھا:
وہ افسانہ جسے انجام تک لانا نہ ہو ممکن
اسے اک خوبصورت موڑ دے کر چھوڑنا اچھا
کہتے ہیں تجسس‘ ادھورے پن‘ اور خوبصورتی کے مابین ایک پُر اسرار اور نازک سا رشتہ ہوتاہے ‘جو تکمیل کے تقاضے‘ انجام کی شرط اور سب کچھ جاننے کے اصرارسے ٹوٹ بھی سکتاہے۔