یہ آج سے تقریبا چار دہائیاں پہلے کی بات ہے جب میں نے گورڈن کالج سے ایم اے کا امتحان پاس کیا تھا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب ایم اے انگلش کرنے والوں کی تعداد بہت کم ہوا کرتی تھی ‘ اتنی کم کہ ان کو کسی اور سیارے کی مخلوق سمجھا جاتا تھا ۔اس وقت آج کل کے دور کی طرح ڈگریوں کے Flood gatesنہیں کھلے تھے ۔ اب تو انگلش میں ایم فل اور پی ایچ ڈی بھی ایک عام سی بات لگتی ہے‘ تب ایم اے انگلش کرنے والوں کی تعداد بھی بہت کم تھی۔ پنجاب میں لاہور کا گورنمنٹ کالج اور راولپنڈی کا گورڈن کالج معروف علمی درس گاہیں تھیں‘جن کاقیام پاکستان سے پہلے عمل میں آیا تھا۔ ایم اے انگلش کرنے والوں کا پہلا انتخاب سی ایس ایس ہوتا تھا‘ یہی وجہ ہے کہ بیوروکریسی میں گورنمنٹ کالج لاہور اور گورڈن کالج راولپنڈی کے طلباکی کثیر تعداد ہوتی ۔
ایم اے انگلش کے امتحان میں گورڈن کالج میں میری پہلی پوزیشن تھی۔ اصولی طور پر مجھے بھی مقابلے کے امتحان میں بیٹھنا چاہیے تھا‘ لیکن بھلا ہو بی اے میں میرے انگریزی کے استاد شیخ اشرف صاحب کا ‘جن کی کلاس میں مجھے یوں لگتا تھا کہ مجھ پر سحر ہو گیا ہے ۔ انگریزی ادب میں میری دلچسپی ان کی مرہونِ منت ہے۔یہ حقیقت ہے کہ استاد کسی مضمون کو بور بھی بنا سکتا ہے اور دلچسپ بھی۔انگریزی سے مجھے کوئی خاص لگاؤ نہ تھا‘ لیکن شیخ صاحب نے ہمیں اس کا گرویدہ بنا دیا۔ شیخ صاحب کی کلاس میںمَیں نے زندگی کے دو اہم فیصلے کیے‘ پہلا یہ کہ بی اے کے بعد ایم اے انگلش کروں گا اور اور دوسرا یہ کہ شیخ صاحب کے نقش قدم پر چلتے ہوئے استاد بنوں گا۔
ایم اے کے امتحان کے نتیجے کے کچھ ہفتوں بعد راولپنڈی ڈائریکٹوریٹ کی طرف سے سے لیکچرر شپ کے انٹرویو ہوئے ۔ مجھے اس انٹرویو کا ایک سوال ابھی تک یاد ہے کہ جب مجھ سے پوچھا گیا کہ ای ایم فاسٹر کے ناول A Passage to India میں ولن کون ہے تو میں نے ایک لمحہ سوچ کر جواب دیا تھا کہ ناول میں Marabar Caves ہی اصلی ولن ہیں۔شاید انٹرویو کرنے والے کو میرا جواب پسند آگیا تھاکچھ دنوں بعد مجھے اطلاع ملی کہ لیکچرر شپ کے لیے میرا انتخاب ہوگیا ہے اور میری پہلی اپوائنٹمنٹ گورنمنٹ ڈگری کالج منڈی بہاؤالدین میں کی گئی ہے ۔
میری ساری زندگی کا محور راولپنڈی کینٹ اور گورڈن کالج رہا تھا ۔منڈی بہاؤالدین میرے لئے ایک اجنبی جگہ تھی‘ جس کا نام میں نے پہلی بار سنا تھا۔ وہ انٹرنیٹ کا دور تو نہیں تھا کہ گوگل میپ سے منڈی بہاؤالدین کالج کی لوکیشن دیکھ سکتا ‘نہ ہی موبائل فون کا زمانہ تھا بلکہ اس وقت تو پی ٹی سی ایل کے فون بھی بہت کم گھروں میں ہوتے تھے‘ کم از کم ہمارے گھر میں اس وقت کوئی فون نہیں تھا ۔اتفاق سے ان دنوں گورڈن کالج میں اسلامیات کے ایک استادافتخار بھٹہ صاحب تھے جن کا آبائی گاؤں منڈی بہاؤالدین تھا۔ انہیں پتہ چلا کہ میرا انتخاب گورنمنٹ ڈگری کالج منڈی بہاؤالدین کے لیے ہوا ہے‘ تو انہوں نے کمال مہربانی سے پیشکش کی کہ وہ منڈی بہاؤالدین میرے ساتھ جائیں گے۔
مجھے یاد ہے اس روز ہلکی ہلکی بارش ہو رہی تھی بھٹہ صاحب نے بتایا تھا کہ ہم لالہ موسیٰ والی ٹرین پر سفر کریں گے جس کا ایک مختصر سٹاپ منڈی بہاؤالدین ہے۔ یہ اس زمانے کی بات ہے جب میرے والدین زندہ تھے‘ یہ میرا گھر سے دور جانے اور رہنے کا پہلا موقع تھا‘ مجھے یاد ہے والد صاحب اور والدہ مجھے دروازے تک چھو ڑنے آئے تھے۔ والد صاحب نے ہمیشہ کی طرح فی امان اللہ کہا تھا۔والدہ نے میرے سر پر ہاتھ پھیرا‘ منہ سے کچھ نہ بولیں‘ لیکن ان کی آنکھوں کی نمی بہت کچھ کہہ رہی تھی ۔
اس روزر اولپنڈی کے ریلوے سٹیشن پر ہمیشہ کی طرح بھیڑ تھی ۔بھٹہ صاحب وقت پر پہنچ گئے تھے اور ٹرین بھی اپنے وقت پر چل پڑی تھی۔ میں کھڑکی کے ساتھ والی سیٹ پر بیٹھا تھا اور کھڑکی سے باہر تیزی سے گزرتے ہوئے منظروں کو دیکھ رہا تھا ۔ مجھے گورڈن کالج کے دن یاد آنے لگے ۔ کیسا زمانہ تھا جب ہم ہر فکر سے آزاد تھے‘ صبح کالج میں کلاسز اور شام کو کالج روڈ پر زم زم کیفے کے باہر کرسیوں پر بیٹھ کر چائے پیا کرتے تھے ‘ جہاں چائے کے ساتھ فرمائش پر گانے بھی سنے جا سکتے تھے۔ یہاں ہر وقت طالب علموں کا ہجوم رہتا تھا۔ ریل اپنی رفتار سے آگے بڑھ رہی تھی ۔ آخر منڈی بہاؤالدین کا سٹیشن آگیا ۔یہ سردیوں کا موسم تھا جس میں سورج جلد غروب ہو جاتا ہے اور ہر طرف اندھیرا پھیل جاتا ہے اور اس دن تو بارش بھی ہوئی تھی۔چاروں طرف مکمل تاریکی تھی۔ سٹیشن پر اترنے کے بعد ہم باہر آئے تو راستے میں جگہ جگہ پانی کھڑا تھا ایک طرف تانگوں کا اڈہ تھا ‘ہم بھی ایک تانگے میں سوار ہو گئے۔ سڑک پر جا بجا کھڑے پانی کو عبور کرتے ہوئے آخر ہم مظہر صاحب کے گھر پہنچ گئے جو بھٹہ صاحب کے بہنوئی تھے۔
کالج میں میرا پہلا تعارف پرنسپل چوہدری ولی محمد صاحب سے ان کے آفس میں ہوا ۔بہت دلچسپ شخصیت کے مالک تھے ‘انہوں نے ایک ٹیچر کی ڈیوٹی لگائی کہ مجھے کالج اور ہاسٹل کا وزٹ کرائیں۔ اسی ہاسٹل کی ایک ڈارمیٹری میں پولیٹیکل سائنس کے استاد قیوم صاحب رہتے تھے۔ مجھے بھی ان کے ساتھ جگہ مل گئی۔ ہاسٹل میں پہلی رات بڑی مختلف تھی‘ میرے بیڈ کے سامنے کھڑکی سے ٹھنڈی ہوا آ رہی تھی اور بجلی گئی ہوئی تھی ۔ایک موم بتی جلا کر ہم نے کمرے میں روشنی کی ۔ اگلے روز مجھے ٹائم ٹیبل دیا گیا جس کے مطابق مجھے انٹرمیڈیٹ اور بی اے کا ایک ایک سیکشن دیا گیا ۔وہ آج سے چار دہائیوں پہلے کا منڈی بہاؤالدین تھا‘ جہاں انگلش پنجابی میں پڑھائی جا رہی تھی۔ اس زمانے میں بی اے کی کلاس میںپوئٹری کی کتاب میں نظموں کو مختلف سیکشنز میں تقسیم کیا گیا تھا‘ مثلاً Machines Death Loveوغیرہ ۔ میں نے پہلے دن کلاس میں طالب علموں سے پوچھا کہ انہوں نے کتنے سیکشنز پڑھ لیے ہیں؟ تو انہوں نے بتایا دو سیکشن پڑھ لیے ہیں‘ لیکن Loveکا سیکشن چھوڑ دیا۔ میں نے اس کی وجہ پوچھی تو مجھے بتایا گیاکہ استاد نے کہا تھا یہ گناہ ہے مجھے ایک دھچکا سا لگا۔ یہ میرا کسی بھی کلاس میںپڑھانے کا پہلا تجربہ تھا۔ وہ ابتدائی دن مجھے آج بھی اچھی طرح یاد ہیں ‘میں نے پوری کوشش کی کہ بی اے میں اپنے پسندیدہ استاد شیخ اشرف صاحب کی طرح کلاس کو دلچسپ بناؤں اور طلبا کو کلاس کی سر گرمیوں میںمشغول کروں ۔جلد ہی مجھے اس کے اثرات نظر آنے لگے ۔ کچھ ہی دنوں میں دوسرے سیکشن کے بچے بھی میری کلاس میں آنے لگے۔ بعد میں مجھے پتا چلا کہ دوسرے سیکشن کے استاد اس صورتحال پر ناخوش تھے‘ لیکن اس میں میرا کوئی دخل نہ تھا۔
میری کلاس کے طالب علم کلاس کے باہر بتاتے کہ ان کی کلاس میں کیا ہوا تو دوسرے سیکشن کے بچے بھی شوق سے آ جاتے ۔ طلب علموں کا اعتماد جیتنا اور انہیں کلاس روم میں آنے کی ترغیب دینا کسی بھی استاد کے لیے پہلا چیلنج ہوتا ہے۔ اب مجھے اگلے مرحلے کی تیاری کرنا تھی جس میں نصاب‘ درسی کتب‘ اور امتحان کے تقاضوں کے ساتھ ساتھ مجھے اس مضمون میںطالب علموں کی دلچسپی کا سامان پیدا کرنا اور ان کے ذوق کی پرورش کرنا تھی۔یہی وہ مرحلہ ہے جس میں استاد کے فن کی آزمائش ہوتی ہے۔یہ مرحلہ اگلے ہفتے شروع ہونے والا تھا۔ (جاری)
میری کلاس کے طالب علم کلاس کے باہر بتاتے کہ ان کی کلاس میں کیا ہوا؟ طلب علموں کا اعتماد جیتنا اور انہیں کلاس روم میں آنے کی ترغیب دینا کسی بھی استاد کے لیے پہلا چیلنج ہوتا ہے