گورڈن کالج سے ایم اے کرنے کے بعد بطور لیکچرر میری پہلی تعیناتی گورنمنٹ ڈگری کالج منڈی بہائوالدین میں ہوئی تھی ۔تدریس کے پیشے کا انتخاب میرا شعوری فیصلہ تھا‘ جو میرے ان اساتذہ کا مرہون ِمنت تھا‘ جنہوں نے مجھے تدریس کی لذت سے آشنا کیا۔ ان میں سب سے پہلا نام میرے بی اے کے استاد شیخ اشرف صاحب کاہے۔تدریس کی ساحری کیا ہوتی ہے؟ اس کا اندازہ پہلی بارمجھے شیخ صا حب کی کلاس میں ہوا۔وہ نفسِ مضمون اور طالب علموں کی دلچسپی کے درمیان توازن برقرار رکھنے کا ہنر جانتے تھے ۔ان کی کلاس کا آغاز بڑے دلچسپ انداز سے ہوتا۔ سردیاں ہوں یا گرمیاں جب وہ کلاس میں داخل ہوتے تو ان کے ہاتھ میں چائے کا کپ ہوتا ‘ وہ کرسی پر بیٹھتے اور اپنی پاٹ دار آواز میں پوچھتے Hello young man how are you? fighting fit?اور ہم یک زبان ہو کر کہتے Yes sir۔ان کی شخصیت میں ایک خاص طرح کی دلآویزی تھی اوروہ ابلاغ کے فن سے پوری طرح سے آشنا تھے‘پھر میر ی خوش قسمتی مجھے گورڈن کالج کے انگریزی کے عظیم استاد وکٹر مَل کی کلاس میں لے آئی ۔مَل صاحب خوبصورت حس ِمزاح کے مالک تھے‘ کلاس روم میں اصل زندگی سے مثالیں لا کر ہمارے سیکھنے کے عمل کو بامعنی بنا دیتے ۔وہ کسی شکل یا خیال کی تفہیم کے لئے ہماری زندگیوں سے مثالیں دیتے تو ہمیں بات فوراًسمجھ آ جاتی ۔اور پھر سجاد شیخ صاحب کی کلاس‘جن کی شخصیت سے میں نے تین اہم چیزیں سیکھیں:پابندیٔ وقت‘ پڑھانے سے پہلے لیکچر کی تفصیلی تیاری اور کلاس روم میں ایسے قول و فعل سے گریز ‘جس سے کسی طالب علم کی دل آزاری ہو۔یہ تھے؛ وہ اساتذہ جن کی انسپیریشن نے مجھے تدریس کے سفر پر آمادہ کیا اور اور منڈی بہاؤ الدین اس سفر کا پہل پڑاؤ تھا۔
منڈی بہاؤ الدین کالج کا کیمپس ایک وسیع قطعۂـ اراضی پر واقع تھا۔کیمپس سے ملحق ہاسٹل تھا ‘جہاں دور دراز کے علاقوں سے تعلق رکھنے والے طالب علم رہتے تھے۔مجھے بھی ڈارمیڑی میںدو اور اساتذہ کے ساتھ جگہ مل گئی تھی۔مجھے پڑھانے کے لئے انٹر میڈیٹ اور بی اے کے دو سیکشن دئیے گئے تھے۔ان کے ساتھ ابتدائی کلاسز تعارفی تھیں‘پڑھانے کا اصل مرحلہ اگلے ہفتے سے شروع ہونا تھا۔کالج میں میری آمد کے دوسرے دن ہی کالج کے ایک سنیئر استاد نے مجھے نصیحت کی کہ یہاں کے بچوں کو پڑھنے لکھنے سے کوئی دلچسپی نہیں‘ لہٰذا میں اس کارِ بے کار میں اپنی صلاحیتیں صرف نہ کروں اور یہ کہ بہت جلد مجھے خود بھی اس کا احساس ہو جائے گا۔ ایک سنیئر استاد کی رائے سُن کر میرا دِل جیسے بجھ سا گیا اور تدریس کے سفر کے سارے خواب آغاز سے پہلے ہی بکھرنے لگے ۔اس روز میں ہاسٹل کے کمرے میں میز پر کتابیں رکھ کر لیکچر کے نوٹس بنانے لگا تو میر ے ذہن میںکالج کے سنیئر پروفیسر کی آوازبھنبھنانے لگی ''یہاں کے بچوں کو پڑھنے لکھنے سے کوئی دلچسپی نہیں‘ لہٰذا میں اس کارِ بے کار میں اپنی صلاحیتیں صرف نہ کروں‘ ‘ میں نے کتابوں کو بند کردیا اور میز پر سر رکھ کر آنکھیں بند کر لیں۔اس عالم میں نجانے کتنا وقت گزر گیا۔اچانک مجھے ایک شناسا آواز سنائی دی:Hello young man how are you? fighting fit?۔میں نے ہڑبڑا کر آنکھیں کھولیں اور بے ساختہ جواب دیا Yes sir۔ تب مجھے احساس ہوا کہ میں کمرے میں اکیلا بیٹھا ہوں‘ لیکن شیخ صاحب کی آواز مجھے کئی برس پیچھے لے گئی تھی ۔مجھے یوں لگا میرے اندر ایک نئی طاقت ‘ایک نیا جذبہ آ گیا ہے۔ میں دل لگا کر لیکچر کے لیے نوٹس تیار کرنے لگا۔ اگلے روز جب میں کلاس میںداخل ہو رہا تھا تو مجھے یوں لگا کہ میرے محبوب اساتذہ کی دل آویز یادیں میرے دائیں بائیں چل رہی ہیں‘ مجھے روشنی دکھا رہی ہیں‘ میرا حوصلہ بڑھا رہی ہیں۔
اس روز مجھے کیٹس کی نظم (Ode on a Grecian Urn)پڑھانا تھی۔ اس نظم میں شاعر اپنی دنیا اور آرٹ کی دنیا کا مقابلہ کرتا ہے۔ہماری دنیا جو عارضی ہے اور آرٹ کی دنیا‘ جس کو دوام حاصل ہے۔ یہ نظم ایک برتن کے حوالے سے ہے‘ جس پر تصاویر بنی ہوئی ہیں۔ تصویر میں ایک شخص با نسری بجا رہا ہے ‘کچھ فاصلے پر ایک خوبصورت دوشیزہ کی تصویر ہے ۔ شاعر کے خیال میں عام زندگی میں دو امکانات ہوتے ہیں ایک تو یہ کہ ہم اپنے محبوب کو حاصل کرلیں‘ اس صورت میں محبت میں نہ وہ جوش رہتا ہے‘ نہ ہی والہانہ پن۔ دوسرا امکان یہ ہے کہ ہم محبوب کو حاصل نہیںکرسکتے اور وقت اپنے پنجوں سے حسن کو تاراج کردیتا ہے اور ہم زمانے کے سیلاب میں محبوب کو فراموش کر دیتے ہیں‘ لیکن آرٹ کی دنیا میں ہر چیز کو دام حاصل ہے ‘نہ ہی وہ تصویرمیںدوشیزہ عمر رسیدہ ہوگی‘ نہ ہی بانسری بجانے والا اپنی محبوبہ کو حاصل کر سکے گا اور نہ ہی اُس کی آتشِ شوق کبھی سردہوگی ۔ اس خیال کی تفہیم تھرڈ ایئر کے بچوں کے لیے آسان نہ تھی‘ بھلا نہ ملنا ملنے سے بہتر کیسے ہے؟ اچانک میرے ذہن میں نداؔ فاضلی کا لکھا ہوا گیت آگیا ‘جو اس زمانے میں کافی مقبول تھا ''تُو اس طرح سے میری زندگی میں شامل ہے ‘ جہاں بھی جاؤں یہ لگتا ہے تیری محفل ہے‘‘اس گیت کی دو لائنیں نظم کے خیال کی تشریح کرتی تھیں:
مری تلاش تیری دِل کشی رہے باقی
خدا کرے کہ یہ دیوانگی رہے باقی
کتنی عجیب بات ہے کہ محبوب سے ملنے کی خواہش نہیں کی گئی‘ بلکہ اس کی دل کشی اور اپنی تلاش اور دیوانگی کے دوام کی تمنا کی گئی ہے۔ان تینوں خواہشوں کی تعبیر برتن پر بنی تصویروں میں تھی۔ دوشیزہ جس کی دل کشی ہمیشہ باقی رہے گی۔ دوشیزہ کا چاہنے والا جو ا س کو کبھی پا نہ سکے گا یوں اس کی تلاش اور دیوانگی کبھی ختم نہ ہو گی۔مجھے خوشگوار حیرت ہوئی کہ اس گیت کی مثال سے طالب علموں کو نظم کی تفہیم میں مدد ملی۔تب مجھے شیخ اشرف صاحب اور پروفیسر وکٹر مَل کی کلاسیں یاد آئیں‘ جن میں عام زندگی کے تجربوں اور مثالوں سے تفہیم کے مراحل آسان اور دلچسپ بن جاتے۔اس کلاس نے مجھے اعتماد دیا ۔آنے والے دنوں میں طالب علموں کی کلاس میں بھرپور شرکت سے مجھے ان کی مضمون میں بڑھتی ہوئی دلچسپی کا پتا چلا۔ میں نے طلبا کو یہ پیشکش کی تھی کہ جس کسی کو انگریزی کے مضمون میںکوئی مشکل پیش آئے ‘وہ کالج کے ٹائم کے بعد بلا معاوضہ ہاسٹل میںمجھ سے مدد لے سکتا ہے۔ اس طرح میری مصروفیت اور بڑھ گئی اور وقت گزرنے کا احساس ہی نہیں ہوا۔یوں چار مہینے پلک جھپکتے ہی گزر گئے۔ ایک روز کالج کے پرنسپل ولی محمد صاحب نے مجھے اپنے دفتر بلایا۔ میں ان کے آفس میں داخل ہوا تو انہوں نے کھڑے ہوکر مجھے گلے سے لگا لیا‘ کہنے لگے: بہت عرصے بعد کالج کے طلبا کو انگریزی کی کلاس میں ذو ق و شوق سے جاتے دیکھا ہے۔اس کے بعد ان کے چہرے پر اداسی کی لہر آئی اور گزر گئی۔پھر ہونٹوں پر تبسم لا کر کہنے لگے: آپ کو مبارک ہو آپ کا پبلک سروس کمیشن کے ذریعے لیکچرر شپ کے لیے انتخاب ہو گیا ہے او ر آپ کی اپوائنٹمنٹ آپ کے اپنے شہر راولپنڈی کے ایک کالج میں ہوئی ہے ۔ الوداعی دعوت میں ولی محمد صاحب نے میرے لیے محبت بھرے الفاظ کہے۔ انہوں نے کہا: میرا وہاں مختصر قیام شہابِ ثاقب کی طرح تھا‘ جو ذرا دیر کے لئے افق پر نمودار ہوتا ہے اور آسمان کو روشن کرتا ہوا غائب ہو جاتا ہے۔ مجھے الوداع کہنے کے لیے کچھ اساتذہ اور طالب علم ریلوے سٹیشن تک آئے تھے۔ ٹرین ذرا دیر کو رکی تو میں سب کو خدا حافظ کہہ کر ٹرین پر سوار ہوگیا ۔اب ٹرین تیزی سے آگے بڑھ رہی تھی۔میں نے کھڑکی سے باہر دیکھا تو مجھے یوں لگا دور فضاؤں میں میرے زمانہ ٔطالبعلمی کے اساتذہ کی مہربان آنکھیں مجھے دیکھ رہی ہیں۔ ان آنکھوں میں مسرت کی چمک بھی ہے اور طمانیت کی روشنی بھی!