ترقی پزیر اور ترقی یافتہ ممالک میںتعلیمی ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ تعلیم کے معیار میں بہتری اساتذہ کی مرہونِ منت ہے۔ طلبا ‘ اساتذہ ‘درسی کتاب ‘ طریقہ ٔامتحان اور تعلیمی ادارے کے ماحول سبھی تعلیمی معیار کے اہم اجزا ہیں ‘لیکن ان سب میں اساتذہ کا کردار مرکزی ہے۔ قیامِ پاکستان کے بعد ہمیں جن تعلیمی چیلنجز کا سامنا کرنا پڑا ‘ان میں اساتذہ کی کمی بھی شامل تھی اور خواتین اساتذہ کے حوالے سے یہ کمی اور بھی شدید تھی۔اس کے علاوہ تربیت یافتہ اساتذہ کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر تھی۔اس ضرورت کا ادراک شروع میں ہی کر لیا گیا تھا‘ جب 1947ء میں منعقدہ پہلی ایجوکیشن کانفرنس میں اساتذہ کے حوالے سے تجاویز پیش کی گئیں ۔اس کے بعدپاکستان کی تمام تعلیمی پالیسیوں میں اساتذہ اور تعلیم اساتذہ کے حوالے سے تجاویز پیش کی گئیں ‘لیکن ان میں سے بیشتر تجاویز تعبیر کا روپ نہ دھار سکیں۔ان تجاویز کے نتیجے میں پاکستان میں تعلیم اساتذہ کے پروگراموں میں خاطر خواہ اضافہ ہوا‘ لیکن تعلیم میں معیار کی بہتری کا خواب خواب ہی رہا۔گزشتہ چار دہائیوں سے پاکستانی نظامِ تعلیم سے منسلک ہونے کے باعث میں یہ سمجھتا ہوں کہ معیار کی بہتری میں حائل سب سے بڑی رکاوٹ بڑے پیمانے پر اس کا نفاذ ہے ۔ چھوٹے پیمانے پر مطلوبہ معیار کی مطلوبہ تبدیلی حاصل کرنا نسبتاً آسان ہے اور یہ بات میں آغا خان یونیورسٹی ‘لمزاور جی آئی کے انسٹیٹیوٹ میں براہِ راست تدریس کے تجربے کی بنیاد پر کہہ رہا ہوں۔سرکاری تعلیمی اداروں میں تربیتِ اساتذہ کے بے شمار پروگرام پیش کئے جارہے ہیں‘ لیکن ان میں سے بیشتر کی افادیت پر ایک سوالیہ نشان ہے۔ دراصل تعلیمی تبدیلی ایک جامع عمل ہے‘ جس کے لیے ضروری ہے کہ اساتذہ میں تین سطحوں پر تبدیلی لائی جائے یہ سطحیں علم ‘مہارت اور رویے کی سطحیں ہیں۔اکثر تربیت اساتذہ کے پروگرام ٖصرف مہارتوں کی تدریسی تعلیم پر اکتفا کرتے ہیں اور باقی دو سطحوں کی تبدیلی پر بہت کم توجہ دی جاتی ہے۔ یوں ہمارے ہاں تربیتِ اساتذہ کے بیشتر پروگرام اساتذہ میں سوچ کی تبدیلی کی بجائے صرف چندمہارتوں کے حصول کو اپنا مقصد گردانتے ہیں۔
یوں تربیت اساتذہ کے روایتی پروگرامز اساتذہ میں تفکر(Reflection) کی صلاحیت پیدا کرنے کی بجائے انہیں محض ایک ٹیکنیشن کے طور پر دیکھتے ہیں۔ایچ ای سی کے نئے چیئر مین ڈاکٹر طارق بنوری نے تعلیم اساتذہ کی اہمیت کے پیش نظر نیشنل اکیڈمی آف ہائیر ایجوکیشن کے احیا کا اعلان کیا ہے۔ یہاں یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ اس اکیڈمی کا قیام صدر ضیا الحق کے دور میں عمل میں آیا تھا۔ اس وقت تعلیم کے وزیرافضل صاحب تھے اور یہ انہیں کے ذہن ِرسا کا نتیجہ تھا ۔اکیڈمی کی سربراہ محتر مہ انجم ریاض الحق تھیں‘ جن کی متحرک قیادت میںاکیڈمی نے اس دوران تربیت اساتذہ کے موثر پروگرام پیش کئے ۔ان میں سے ایک پروگرام انگریزی تدریس کا بھی تھا۔ اس پروگرام کا دورانیہ نو ماہ کا تھا‘ جس میں سے چار ماہ کورس کے شرکا کا قیام کیمپس پر ہوتا۔ اس ڈپلومہ کے اہتمام میں غیر ملکی یونیورسٹیوں کا بھی اہم کردار تھا ۔مجھے اس پروگرام میں پڑھانے کا موقع ملا۔ میرے خیال میں اس کورس کا شمار تربیت اساتذہ کے چند انتہائی موثر پروگراموںمیں ہوتا تھا۔ اس کورس کے شرکا نے بعد میںپاکستانی جامعات میں اہم عہدوں پر اپنے فرائض سر انجام دیے۔ وقت گزرنے کے ساتھ اکیڈمی کے عہدیدار بھی بدل گئے اور اس کے بعد تربیت اساتذہ کے پروگرام کے دورانیے مختصر ہوتے گئے۔اس کی ایک بڑی وجہ تربیت یافتہ اساتذہ کی تعداد میں اضافے کا ٹارگٹ تھا‘اس طرح مقدار کی تلاش میں معیار پس منظر میں چلا گیااور ایچ ای سی میں اکیڈمی آف ہائیر ایجوکیشن کو غیر فعال بنا دیا گیا ۔ڈاکٹر طارق بنوری نے اکیڈمی آف ہائیر ایجوکیشن کے احیا کی تقریب میں تعلیم میں معیار کی بہتری کو اپنا اولین نصب العین قرار دیا ۔
اکیڈمی آف ہائیر ایجوکیشن کا احیا اسی نصب ا لعین کی طرف ایک قدم ہے۔ اکیڈمی کے مقاصد میں اعلیٰ معیارات کا تعین ‘اساتذہ کی تدریس ‘ تحقیق ‘ گورننس میںتربیت ‘ اور تجربوں پر مبنی ایسی رپورٹوں کا اجرا ہے‘ جن سے تعلیمی منصوبہ بندی میں مدد مل سکے ۔ یہ ایک ایسا خواب ہے‘ جو خوش رنگ بھی ہے اور دل کش بھی‘ لیکن ایسے ہی بہت سے دل کش خواب ہم نے پہلے بھی دیکھے ہیں ‘جو تعبیر ملنے سے پہلے ہی بکھر گئے۔ اس کی تفصیل میں نے اپنی کتاب (Education Policies in Pakistan: Politics, Projections, and Practices) میں لکھی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ خیال کتنا ہی دلاآویز کیوں نہ ہو‘ اس کا نفاذ نچلے درجے پر ان ہاتھوں میں ہوتا ہے ۔نفاذ کے مرحلے میں اکثر اس خیال کے تاروپود بکھر جاتے ہیں ۔ترقی پزیر ممالک میں نفاذ کے مرحلے پر پالیسیوں کی ناکامی ایک معمول کی بات ہے۔ڈاکٹر طارق بنوری کا تعلیمی معیار کی بہتری کے لئے اکیڈمی آف ہائیر ایجوکیشن کا خواب بہت خوش آئند ہے ‘لیکن اصل چیلنج خواب کی تعبیر تک پہنچنے کا عمل ہے اور یہ وہ خطرناک وادی ہے‘ جہاں بڑے بڑے آدرش اور خواب دم توڑ دیتے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ابتداسے ہی ایسے اقدامات کئے جائیں کہ اکیڈمی کے قیام کے مقاصد کے خواب شرمندئہ تعبیر ہو سکیں ۔درج ذیل تجاویز کا تعلق بھی اسی خواہش سے ہے:۔
-1 اکیڈمی کو نئے جذبے اور نئی سوچ کے ساتھ کام کرنے کیلئے ضروری ہے کہ اس کا سٹیٹس مکمل طور پر خود مختاری کا ہو۔پاکستان میں اس طرح کی کئی خود مختاراکیڈمیاں ہیں‘ جنہوں نے معیاری نتائج دکھائے ہیں ان میں کمانڈ اینڈ سٹاف کالج کوئٹہ ‘ نیپا ‘ پی ایم اے ‘ سول سروسز اکیڈمی اور فیڈرل جوڈیشل اکیڈمی شامل ہیں ‘ان سب اداروں کی کامیابی کا راز ان کی خود مختاری ہے۔
-2نئے مقاصد کے حصول کیلئے اکیڈمی میں ایک ایسی قیادت کی ضرورت ہو گی‘ جس کے پاس تعلیم ‘ متعلقہ تجربہ اور ملکی اور غیر ملکی سطح پر اعلیٰ تعلیم کے حوالے سے مکمل آگاہی ہو ۔
-3اکیڈمی کے سربراہ کا انتخاب اخبارات میں اشتہارات کے ذریعے کیا جائے اور اس امر کا خاص خیال رکھا جائے کہ یہ عمل ہر لحاظ سے شفاف ہو۔
-4پاکستان میں اداروں کا المیہ یہ ہے کہ انہیں اکثر ایڈہاک بنیادوں پر چلایا جاتا ہے ‘اس وقت بھی پاکستان کی بہت سی یونیورسٹیوں میں ایکٹنگ سربراہان کام کر رہے ہیں ‘جو کسی بھی ادارے کیلئے ترقی معکوس کا باعث بنتے ہیں۔اکیڈمی کے باضابطہ اعلان کے بعداکیڈمی کے سربراہ کے انتخاب کا عمل بلاتاخیر شروع کیا جائے ‘جس میں اشتہار کی تیاری ‘ اخبارات میں اشتہارات کا شائع ہونا ‘ انٹرویو کالز ‘ انٹرویو اور فائنل انتخاب شامل ہے یہ سارا عمل تین مہینے میں مکمل ہو سکتا ہے۔
-5اکیڈمی کے سربراہ کو مکمل اختیار ہو کہ وہ اپنی ٹیم خود تشکیل دے ۔یہ بات اس لئے اہم ہے کہ اکیڈمی کے بلند و بالا مقاصد کا حصول اسی وقت ممکن ہے‘ جب اکیڈمی کاسربراہ اور اس کی ٹیم ایک پیج پر ہوں۔
-6ڈاکٹر بنوری کے مطابق ؛اکیڈمی کو چلانے کیلئے ایک سٹیرنگ کمیٹی ترتیب دی جائے گی۔ اس سلسلے میں اس امر کا خاص اہتمام کیا جائے کہ کمیٹی کے افراد تعلیم کے حوالے سے اپنے کام کی بدولت تعلیمی حلقوں میں جانے جاتے ہوں ۔کارکردگی اور شفافیت کو یقینی بنانے کیلئے سٹیرنگ کمیٹی کے افراد کا چنائو ایچ ای سی سے باہر سے کیا جائے۔
درج بالا تجاویز اس خواب کی تعبیر میں مدد دے سکتی ہیں ‘جو ڈاکٹر بنوری نے پاکستان میں اعلیٰ تعلیم میں معیاری بہتری کے لئے دیکھا ہے ‘ لیکن ؛ اگر سربراہ کے چنائو اور سٹیرنگ کمیٹی کے ممبران کے انتخاب میںذر ا بھی کوتاہی برتی گئی تو اس خواب کا انجام بھی ان پالیسیوں سے مختلف نہیں ہو گا‘ جو صرف کاغذ پر خوش نما نظر آتی تھیں ‘لیکن جن کا گلا ان افراد نے گھونٹ دیا‘ جن پر ان کے نفاذ کی ذمہ داری عائد ہوتی تھی۔