یہ ایک تصویر ہے۔ ایک کشمیری نوجوان کی تصویر ۔ یقیناً سوشل میڈیا پر آپ نے بھی دیکھی ہو گی۔ میں نے اسے دیکھا تو دیکھتا ہی رہ گیا۔ اس کے دل میں حریت کا چراغ جلتا تھا۔ وہ سری نگر میں اپنے گھر سے نکلا تو اس کے ہاتھ میں پاکستان کا سبز ہلالی پرچم تھا۔ اسے معلوم تھا کہ شہر میں کرفیو ہے‘ ہر طرف بھارتی فوجی گشت کر رہے ہیں لیکن اس کی نگاہوں میں آزادی کے خواب تھے۔ وہ اپنے ہاتھوں میں پاکستانی پرچم تھامے بازار میں نکل آیا جہاں بھارتی فوجی گشت کر رہے تھے۔ اس نے 'کشمیر بنے گا پاکستان‘ کا فلک شگاف نعرہ لگایا۔ اسی لمحے بھارتی فوجیوں نے اپنی بندوقیں سیدھی کیں اور چشمِ زدن میں کئی گولیاں اس کے بدن میں پیوست ہو گئیں۔ اس کا جسم تیورا کر گرا لیکن مرتے وقت بھی پاکستانی پرچم پر اس کی گرفت مضبوط تھی۔ یہ پرچم اس کی آزادی کا استعارہ تھا۔ یہ صرف ایک نوجوان کی تصویر ہے۔ اس طرح کے کتنے ہی نوجوان اپنی آنکھوں میں آزادی کے خوش رنگ خواب لیے اس وادی میں اتر گئے‘ جہاں سے کوئی واپس نہیں آتا۔ آزادی کی ساحر نگاہیں ان نوجوانوں کے دلوں میں مزاحمت کی لو اور تیز کر دیتی ہیں۔ مجھے فیض صاحب یاد آ جاتے ہیں۔ یہ انہی کی ایک نظم کے چند اشعار ہیں جو ان نوجوانوں کے آدرش کے سحر کو بیان کرتے ہیں۔
تو نے دیکھی ہے وہ پیشانی، وہ رخسار، وہ ہونٹ
زندگی جن کے تصور میں لٹا دی ہم نے
تجھ پہ اٹھی ہیں وہ کھوئی ہوئی ساحر آنکھیں
تجھ کو معلوم ہے کیوں عمر گنوا دی ہم نے
مزاحمت کا یہ واقعہ نیا نہیں۔ یہ تصویر مجھے دو سو سال پیچھے لے گئی۔ 1832 کا سال ہے کشمیر پر ڈوگرہ حکمران مہا راجہ، گلاب سنگھ کی حکومت ہے۔ یہ دراصل جبر اور استبداد کا راج ہے‘ جہاں اختلاف رائے کی کوئی گنجائش نہیں۔ ایک بار اسی جرم پر مہا راجہ گلاب سنگھ نے مقامی سرداروں کی زندہ کھالیں کھنچوا لی تھیں اور ان میں بھس بھر کر درخت پر لٹکا دیا تھا تا کہ رعایا کو عبرت ہو۔ منگ کے مقام پر یہ درخت آج بھی موجود ہے جہاں شہدا کی یادگار ہے۔
13 جولائی1931 مزاحمت کا ایک اور سنگِ میل ہے‘ جب 22 لوگوں کو شہید کر دیا گیا تھا۔ 15 منٹ مظاہرین پر فائرنگ ہوتی رہی۔ ایک سو اسی کے قریب رائونڈ فائر کئے گئے۔ چوہدری غلام عباس اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ اس دن اچانک گہرے سیاہ بادلوں نے آسمان کو ڈھانپ لیا اور پھر ایک تیز طوفان نے آ لیا۔ جلوس مرکزی مسجد کی طرف رواں دواں تھا کہ حکومت نے مارشل لاء لگا دیا اور شہر کو فوج کے حوالے کر دیا۔ روایت یہ ہے کہ اس روز شہید ہونے والے ایک شخص نے اپنے آخری لمحوں میں شیخ عبداللہ کو پیغام دیا تھا کہ میں نے اپنے حصے کا کام کر دیا ہے‘ اب اس مشن کو آپ نے آگے لے کر جانا ہے۔ شہدا کو تیسرے دن اس جگہ دفن کیا گیا جواب مزار شہدا کہلاتا ہے۔ 1932 میں مسلم کانفرنس اور نیشنل کانفرنس کا قیام عمل میں آیا‘ جن کا بنیادی مقصد تحریکِ مزاحمت کو منظم کرنا تھا۔ شروع میں شیخ محمد عبداللہ، چوہدری غلام عباس اور اللہ رکھا ساغر اس مزاحمت کا بنیادی کردار رہے۔ 19 جولائی کو سری نگر میں سردار محمد ابراہیم کے گھر میں مسلم کانفرنس کی مرکزی مجلس عاملہ کا اجلاس منعقد ہوا جس میں مہا راجہ سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ ریاست کا پاکستان سے الحاق کرے۔ یاد رہے کہ یہی سردار ابراہیم بعد میں آزاد کشمیر کے پہلے صدر بنے۔
اگست 1947 کے بعد اکتوبر کے مہینے میں ریاست میں زبردست یورش برپا ہو گئی اور 24 اکتوبر 1947 کو آزاد کشمیر کی حکومت قائم ہو گئی۔ دوسری طرف 27 اکتوبر کو مہا راجہ نے کشمیر کا الحاق ہندوستان سے کر دیا اور شیخ عبداللہ مقبوضہ کشمیر کے وزیر اعظم بن گئے۔ یہ وہی شیخ عبداللہ تھے جو مہا راجہ کے خلاف ''کشمیر چھوڑ دو‘‘ تحریک میں پیش پیش تھے‘ جن کے دل میں مزاحمت کی آنچ اب مفادات کے خس خانوں میں سرد پڑ گئی تھی۔ 1948 میں جواہر لال نہرو کشمیر کے مسئلے کو اقوام متحدہ لے گئے جہاں ایک قرارداد منظور کی گئی کہ کشمیر کے لوگوں کو حق خود ارادی دیا جائے تا کہ وہ اپنے مستقبل کا فیصلہ خود کر سکیں‘ جس پر آج تک عمل درآمد نہیں ہوا؛ البتہ ظلم اور جبر کے ضابطوں میں مزید سختی آتی گئی۔ لیکن وہ جو مجید امجد نے کہا ہے:
گھات میں ہو منتظر چلے پہ تیر
ہرنیوں نے چوکڑی بھرنی تو ہے
جبر کے ہر نئے ہتھکنڈے کے ساتھ حریت پسندوں کی مزاحمت کا سفر اور تیز ہوتا گیا۔ سیاسی محاذ پر پیپلز لیگ، کشمیر محاذ رائے شماری، جماعت اسلامی جموں و کشمیر، کشمیر لبریشن فرنٹ اور 1990 کے بعد تحریک حریت کشمیر شامل ہیں۔ ان سیاسی جماعتوں کے علامہ بڑی تعداد میں عسکری تنظیمیں بھی وجود میں آئیں جن کا خیال تھا کہ ریاستی جبر کے خلاف صرف سیاسی مزاحمت کافی نہیں اس کیلئے طاقت کا استعمال ضروری ہے۔
ان سیاسی جماعتوں اور عسکری تنظیموں کے ساتھ ساتھ آزادی کے کچھ جری کرداروں کا ذکر ضروری ہے جن کے بغیر مزاحمت کی تاریخ کا تذکرہ نا مکمل رہے گا۔ ان میں سرِِ فہرست مقبول بٹ کا نام ہے۔ آزادی کی جدوجہد میں ان کا کردار سنہری حروف میں لکھا جائے گا۔ مقبول بٹ کی ساری زندگی مزاحمت سے عبارت تھی۔ اس کے خوابوں میں سب سے روشن خواب آزادی کا تھا جسے آنکھوں میں بسائے وہ 11 فروری 1984 کو بھارت کے تہاڑ جیل میں پھانسی کے پھندے پر جھول گیا۔
کشمیر کی جدوجہد آزادی کا ایک اور روشن کردار برہان وانی ہے جس کا تعلق حزب المجاہدین سے تھا۔ اس نے سوشل میڈیا کے ذریعے کشمیر کے مسئلے کو اجاگر کیا اور آزادی کے قافلے کو تیز تر کر دیا۔ وہ بھارتی استبداد کے خلاف ایک توانا آواز تھی۔ 8 جولائی 2016 کو بھارتی سکیورٹی فورسز نے برہان وانی کو گولی مارکر اس آوازکو ہمیشہ کیلئے خاموش کر دیا‘ لیکن وانی کی شہادت نے مزاحمت کی تحریک میں مزید شدت پیدا کر دی۔ افضل گرو بھی ریاستی جبر کے خلاف مزاحمت کا ایک اہم کردارتھا۔ اسے پارلیمنٹ پر حملے کے الزام میں 9 فروری 2013 کو بھارت کی تہاڑ جیل میں پھانسی پر چڑھا دیا گیا۔مزاحمت کے نمایاں کرداروں میں سید علی گیلانی (چیئرمین تحریکِ حریت کشمیر)، محمد فاروق رحمانی (صدر پیپلز لیگ رحمانی گروپ)، شبیر احمد شاہ (صدر پیپلز لیگ/ شبیر شاہ گروپ)، آسیہ اندرابی (صدر دختران اسلام) محمد اشرف صحرائی (تحریک حریت کشمیر) محمد یٰسین ملک (جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ) شامل ہیں۔
یہ صرف چند ممتاز رہنمائوں کے نام ہیں لیکن مزاحمت کی اس تحریک کے ہزاروں گمنام کردار ہیں‘ جن کی فہرست بہت طویل ہے اور جن کا کہیں نشانِ مزار نہیں۔ سینکڑوں خواتین ہیں جن کی عزتیں محفوظ نہ رہیں‘ بے شمار مائیں ہیں جن کے بچے آزادی کی خوش رنگ تتلیوں کے تعاقب میں اتنی دور چلے گئے کہ پھر لوٹ کر واپس نہیں آئے۔ کشمیر کی مزاحمت کی تاریخ انہیں دیوانوں کے نام سے روشن ہے۔
کہتے ہیں خواب اور آدرش زندگی کا حسن ہیں‘ جو اسے رواں دواں رکھتے ہیں۔ یہ سنگلاخ میدانوں میں راہیں تراشتے اور صحرائوں میں پھول اُگاتے ہیں اور کبھی کبھار یہ خواب اور آدرش اپنے تعاقب میں ہمیں اس شہرِ طلسمات میں لے جاتے ہیں جہاں جا کر کوئی واپس نہیں آتا‘ لیکن اسی شہرِ طلسمات میں امکانات کے در کھلتے ہیں۔ اس نوجوان کی تصویر کو میں ایک بار پھر غور سے دیکھتا ہوں جو زمین پر گرا ہوا ہے۔ جس کا جسم بے جان ہے مگر جس کے ہاتھوں کی گرفت پاکستان کے پرچم پر محکم ہے‘ جس کی آنکھوں کے آئینے ساکت ہیں جن میں امکانات کے دریچے وا ہیں۔ ان دریچوں میں صبحِ نو کا پیغام ہے۔
زیست امکانات کا اک ہیر پھیر
کیا عجب ہے مرے سینے کا شرر
وقت کے مرگھٹ پہ بانہیں کھول دے
اک نرالی صبح بن جائے یہ رات