کسی بھی تعلیمی ادارے کے کیمپس پر چلے جائیں‘ آپ کو فاسٹ فوڈ کے Outlets ملیں گے۔ فاسٹ فوڈ کی رینج وسیع ہے‘ جس میں سستے سے لے کر مہنگے داموں میں آپ فاسٹ فوڈ خرید سکتے ہیں۔ کچھ Elite تعلیمی اداروں میں تو فاسٹ فوڈ کے بین الاقوامی برانڈز نے اپنے آؤٹ لیٹس بھی کھول رکھے ہیں۔ کچھ تعلیمی اداروں میں فاسٹ فوڈ کے بین الاقوامیChains نے عمارت اور فرنیچر تک فراہم کیا ہے‘ جس کے نتیجے میں اس عمارت کا نام اس برانڈ پر رکھا گیا ہے۔ فاست فوڈ کی کمپنیاں اپنے بجٹ کا ایک خطیر حصہ مارکیٹنگ کے لیے رکھتی ہیں‘ یہی وجہ ہے کہ میڈیا کے علاوہ مصروف شاہراہوں پر ان کے Bill Boardsآویزاں ہوتے ہیں اور ائیرپورٹ سمیت تمام اہم مقامات پر فاسٹ فوڈ کے اشتہارات نظر آتے ہیں۔ مارکیٹنگ کی منطق یہ ہے کہ کسی چیز کا بار بار اعادہ ہمارے ذہنوں کو غیر محسوس طریقے سے متاثر کرتا ہے اور ہماری قوتِ فیصلہ پر اثرانداز ہوتا ہے ۔ یوں مارکیٹنگ کی یلغار اشیا کے حوالے سے ہمارے انتخاب پر اثرانداز ہوتی اور انفرادی آزادی کا گلا کارپوریٹ منطق (Corporate Logic) گھونٹ دیتی ہے۔
اس تناظر میں اگر تعلیم کے بنیادی مقاصد پر نظر ڈالیں تو اس میں ایک ہم مقصد طلبا میں سماجی شعور کی بیداری‘ معاشرے کی بہتر تفہیم اور دستیاب Alternatives کی تلاش ہے۔ معروف نوبل انعام یافتہ ماہرمعیشت امرتیاسین کے خیال میں کسی بھی معاشرے کی ترقی کچھ آزادیوں سے جُڑی ہوتی ہے۔ان میں سے ایک آزادیٔ انتخاب (Freedom of Choices) ہے ‘لیکن اس آزادی کے حصول سے پہلے ایک شرط یہ ہے کہ ہمیں متبادلات (Alternatives) کے بارے میں آگاہی ہو اور ہم مارکیٹنگ کے تندوتیز ریلے میں بہہ کر کوئی چیز خریدنے کی بجائے سوچ سمجھ کر متبادلات (Alternatives) کا تصور سامنے رکھتے ہوئے فیصلہ کریں۔
آزادیٔ انتخاب کا تصور اور سماجی شعور کی بیداری تعلیمی اداروں کے فرائض میں شامل ہیں‘لیکن بدقسمتی سے بہت سے تعلیمی ادارے اس فرض سے پہلو تہی کرتے نظر آتے ہیں‘ مثلاً فاسٹ فوڈ کو ہی لیجئے‘ فاسٹ فوڈ کے مضر اثرات کے بارے میں دنیا بھر میں آگاہی کی مہم چل رہی ہے‘ پاکستانی تعلیمی ادارے اس میں بری طرح ناکام رہے ہیں‘ اس کے برعکس جنوبی ایشیا کے دوسرے ممالک خاص طور پر بھارت میں فاسٹ فوڈ کے خلاف سماجی سطح پر کئی تحریکیں چل رہی ہیں۔ پچھلی دو دہائیوں میں فاسٹ فوڈ کے تقریباً سبھی بڑے Chains نے پاکستان کے چھوٹے بڑے شہروں‘ ائیرپورٹس‘ ریلوے سٹیشنز‘موٹروے اور دیگر اہم مقامات پر اپنے Outlets کھول دیے ہیں۔ جہاںمختلف اقسام کے برگر‘ فرائیڈ چپس اور دیگر میٹھی اشیا دستیاب ہیں ۔ متعددتحقیقی رپورٹس ایک ہی نتیجے پر پہنچتی ہیں کہ فاسٹ فوڈ کے استعمال سے انسانی جسم پر انتہائی مضر اثرات مرتب ہوتے ہیں ‘ان میں سب سے نمایاں موٹاپا ہے‘ جو بہت سے موذی امراض کی وجہ بنتا ہے‘ اسی طرح سافٹ ڈرنکس انسانی صحت کے لیے سمِ قاتل ہیں‘ اس پر طر فہ تماشا یہ ہے کہ ان سافٹ ڈرنکس کا چربہ اب مقامی گلی محلوں میں تیار کیا جا رہا ہے۔
معروف ماہر ماحولیات وندانا شیوا کا کہنا ہے کہ جس معاشرے میں فاسٹ فوڈ کا استعمال زیادہ ہے‘ وہاں صحت کے مسائل بھی زیادہ ہوں گے‘ سنگاپور جہاں فاسٹ فوڈ کا استعمال زیادہ ہے‘ وہ موٹاپے کے علاج کے لیے مخصوص کلینک شروع کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔ادھر جاپان میں خوراک سے جڑی ہوئی بیماریوں میں70فیصداضافہ ہوا ہے۔اسی طرف معروف سافٹ ڈرنکس میں مصنوعی رنگ اور ذائقہ اور ایسے اجزا شامل کیے جاتے ہیں‘ انسانی صحت کے لیے اچھے نہیں ہوتے اور ان کا زیادہ استعمال کئی موذی بیماریوں کو جنم دیتا ہے۔فاسٹ فوڈ کے استعمال سے صحت کے لیے مضر اثرات کے علاوہ ماہرین نے اس کے ایک پہلو کی طرف اشارہ کیا ہے‘ جس کا تعلق فاسٹ فوڈ کی لت(Addiction) سے ہے‘ جو بچے فاسٹ فوڈ کے عادی ہو جاتے ہیں‘ انہیں کسی اور خالص(Organic) چیز کھانے میں مزا نہیں آتا۔ کم عمر بچے بھی جو پیکٹ کا دودھ پینے کے عادی ہو جاتے ہیں‘ انہیں خالص دودھ میں وہ مزا نہیں آتا‘ بلکہ کچھ کو تو خالص دودھ میں ناگوار سی مہک محسوس ہوتی ہے۔ اس تاثر کو مزید تقویت اس وقت ملتی ہے‘ جب وہ اخبار اور ٹیلی ویژن میں اس طرح کے اشتہارات دیکھتے ہیں۔
مصنوعی دودھ کی بڑی کمپنی کے اشتہار میں گندگی‘ بو اور اس کے نتیجے میں جنم لینے والے امراض سے جوڑ دیا گیا ہے اور پیکٹ کے دودھ کو ایک صحت بخش نعم البدل کے طور پر پیش کیا گیا ہے ۔اس طرح کے اشتہارات تواتر سے چلتے ہیں کہ بچے اور ان کی مائیں یکساں طور پر ان سے متاثر ہوتے ہیں۔ یہ سارا عمل اس تواترسے کیا جاتا ہے کہ بچے اپنی خوراک کو کم تر اوراشتہار میں پیش کئے گئے فاسٹ فود پراڈکٹس کو بہتر سمجھنا شروع کر دیتے ہیں۔ اس کیفیت کو سمجھنے کے لیے ہمیں انٹوینو گرامچی کے ثقافتی بالادستی (Cultural Hegemony) کے تصور کو سمجھنا ہو گا‘ جس میں ذہنوں کو کلچر کے مختلف پہلوئوں سے مسخر کیا جاتا ہے۔ خوراک کسی بھی ثقافت کا اہم حصہ ہوتا ہے‘ فاسٹ فوڈ کی بیرونی انڈسٹری ناصرف لوگوں کی صحت کوخراب کر رہی ہے‘ بلکہ مقامی معیشت پر بھی اس کے اثرات منفی ہیں دلچسپ بات یہ ہے کہ فاسٹ فوڈ کے چین (Chain) ‘ معاشرے کے عام طبقوں کے لیے پاکستان میں ان ریستورانوں میں جانا بہتر سماجی مرتبے کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ یوں معاشرے کے عالم لوگوں کو بھی وہاں بیٹھ کر ایلیٹ کلاس کے ساتھ وابستگی کا احساس ہوتا ہے ۔پاکستان میں طبقہ امراکے خاندانوں کے لیے(Burger Families) کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔ ملٹی نیشنل کمپنیاں مقامی و سائل کا استحصال کر کے ‘ مقامی معیشت پر بھی منفی اثرات ڈالتی ہیں۔
اس حوالے سے سماجی شعور کی بیداری کی ذمہ داری تعلیمی اداروں پر عائد ہوتی ہے ‘جو ان کے تعلیمی نصاب کا حصہ ہونا چاہیے‘ اگر تعلیمی ادارے اس بات پر متفق ہیں کہ فاسٹ فوڈ کا استعمال صحت کے لیے مضر ہے تو انہیں اپنے کیمپس پر فاسٹ فوڈ کی حوصلہ افزائی نہیں کرنی چاہیے۔ اس سلسلے میں ایسے سیمینارز کا انعقاد کروایا جائے‘ جن میں طالب علموں کو فاسٹ فوڈ کے مضر اثرات سے آگاہ کیا جائے۔ اس کے ساتھ ساتھ انہیں خالص (Organic) اشیا کے استعمال کی ترغیب دی جائے ۔ان سیمینارز میں ماحولیات کے اور نیو ٹریشن کے ماہرین کو بلایا جا سکتاہے۔
یوں ہم طلبا میں وہ سماجی شعور پیدا کر سکتے ہیں‘ جس کی بدولت وہ اچھے برے میں تمیز کر سکیں‘ کیوں کہ تعلیم کا بنیادی مقصد افراد کی نجی زندگیوں اور معاشرے میں ایک مثبت تبدیلی لانا ہے۔ ایسی تعلیم کے لیے ضروری ہے کہ اساتذہ‘ طلبا میں سوال کرنے اور خود سے سوچنے کی صلاحیت پیدا کریں۔ طلبا کو تقلید (Conformity) کی بجائے سوچ بچار (Reflection) کی عادت ڈالی جائے ‘تا کہ وہ ہر اشتہار کو اور اس میںکہی گئی باتوں کو حتمی سچائی کے طور پر قبول کرنے کی بجائے ان پر سوالات اٹھائیں اور ان کے متبادل سچائیوںکی تلاش کریں۔ تعلیم کا عمل صرف کلاس روم تک محدود نہیں ہوتا‘ بلکہ معاشرے میں دھڑکتی ہوئی زندگی سے جُڑا ہوتا ہے ۔ طلبا میں سماجی شعور کی بیداری تعلیم کا ایک اہم جزو ہے‘ جن سے وہ اپنی زندگیوں میں بہتری لا سکتے ہیں اور فاسٹ فوڈ کے مضر اثرات سے بچ سکتے ہیں۔