"SSC" (space) message & send to 7575

بریگیڈیئر محمد رفیق: ملٹری کالج کا دیومالائی کردار …(2)

بگل کی آواز لہراتی ہوئی صبح کاذب کی ہوائوں میں پھیل رہی تھی۔ آج پہلی بار ایسا ہوا تھا کہ ملٹری کالج جہلم میں پی ٹی گرائونڈ میں کالج کمانڈنٹ بریگیڈیئر محمد رفیق کے آنے سے پیشتر تاج نے بگل بجا دیا تھا۔ ابھی بگل کی آواز کی بازگشت فضا ہی میں تھی کہ تاج بگلر نے دیکھا‘ بریگیڈیئر رفیق پی ٹی ڈریس میں تیزی سے اس کی طرف آرہے ہیں اور ان کے چہرے پر جلالی رنگ ہے۔ انہوں نے چھوٹتے ہی سخت لہجے میں کہا ''آج وقت سے پہلے بگل کیوں بجایا؟‘‘ تاج بگلر نے کہا: سر کالج کی گھڑی‘ جو ہر صبح ملاتی جاتی ہے‘ پر بگل کا ٹائم ہو چکا تھا۔ بریگیڈیئر رفیق نے اپنی کلائی پر بندھی گھڑی دیکھی جو ایک منٹ پیچھے تھی۔ اس گھڑی کی وجہ سے وہ آج پہلی بار ایک منٹ تاخیر سے پہنچے تھے۔ بریگیڈیئر رفیق نے اپنی کلائی سے گھڑی اتاری اور غصے سے فرش پر دے ماری۔ کہتے ہیں اس دن کے بعد سے وہ دو گھڑیاں رکھنے لگے تھے۔ انہوں نے اب ایک گھڑی کا اضافہ اپنے واش روم میں کر دیا تھا۔ اس کے بعد جتنا عرصہ وہ ملٹری کالج جہلم میں رہے کبھی پی ٹی پر تاخیر سے نہیں پہنچے۔ بریگیڈیئر رفیق جانتے تھے کہ کالج کے طلبا اور اساتذہ تک ویژن پہنچانا کافی نہیں‘ ایک اچھے لیڈر کی طرح انہیں اس ویژن کے حصول کے لیے انسپائر بھی کرنا ہے۔ اس کے لیے ضروری تھا کہ ان سے براہِ راست ربط رکھا جائے۔ اس کے لیے انہوں نے بہت ہوم ورک کیا۔ ان کے گھر میں کالج کے تمام بچوں کی تصویریں لگی تھیں۔ ان کی ڈائری میں ہر بچے کے لیے ایک صفحہ مختص تھا جس میں انفرادی طور پر وہ ہر بچے کے حوالے سے بنیادی معلومات اور اپنے مشاہدات لکھتے تھے۔ اس کا نتیجہ یہ تھا کہ سب لڑکوں کو ان کے ناموں سے پکارتے تھے۔ قیادت کا رجعت پسندانہ طریقہ یہ ہے کہ کمانڈنٹ اور طلبا و اساتذہ میں ایک شعوری فاصلہ رکھا جائے۔ یہ فاصلہ ایک طرح سے Power Relations کا اعادہ کرتا ہے‘ یوں شعوری طور پر حاکم و محکوم کے رشتے کو مستحکم کیا جاتا ہے اور کالج کے دو چار قریبی لوگ کمانڈنٹ کی آنکھیں اور کان بن جاتے ہیں۔ لیکن بریگیڈیئر رفیق انوکھی وضع کے لیڈر تھے۔ انہوں نے آتے ہی اپنے اور طلبا و اساتذہ کے درمیان شیشے کی اس دیوار کو ہٹا دیا۔ وہ اپنے دفتر میں مقید ہو کر احکامات چلانے والے افسر نہیں تھے۔ وہ کالج کے برآمدوں، روشوں اور آتے جاتے راستوں میں سب کو نظر آتے تھے۔ ایک بار یوں ہی وہ کچن کے پاس سے گزر رہے تھے کہ انہوں نے دیکھا کہ کچھ بچے مٹر چھیل کر دانے نکال رہے۔ بریگیڈیئر رفیق بھی ان کے ساتھ بیٹھ گئے اور مٹروں سے دانے نکالنے لگے۔ اسی دوران ایک دانہ نیچے گر گیا۔ انہوں نے وہ دانہ اٹھا کہ میز پر رکھا اور بچوں کو Welldone کہتے ہوئے آگے بڑھ گئے۔
بریگیڈیئر رفیق کی شخصیت میں ایک رعب اور جلال تھا لیکن بچوں کے ساتھ وہ بچے بن جاتے تھے۔ سوئمنگ پول میں وہ لڑکوں کے ساتھ خود بھی تیراکی کے مقابلے کرتے۔ ایک بار وہ ہارس اینڈ کیٹل شو میں کالج کے بچوں کے ساتھ گئے تو وی آئی پی لائونج میں بیٹھنے کے بجائے کالج کے بچوں کے ساتھ بیٹھ کر شو دیکھا اور آفیسرز میس میں رہنے کے بجائے اسی بیرک میں قیام کیا جہاں کالج کے لڑکے ٹھہرے تھے۔ ایک بار کالج کے بچوں کو ہسپتال جانا تھا۔ وہ کالج کی ٹرانسپورٹ پر ہسپتال چلے گئے؛ البتہ ایک بچہ کالج میں پیچھے رہ گیا۔ بریگیڈیئر رفیق نے اس لڑکے کوکھڑے دیکھا تو اس کی وجہ پوچھی۔ اس نے کہا: سر میںکالج میں بالکل نیا ہوں‘ باقی سب چلے گئے مجھے پتہ نہیں چلا۔ بریگیڈیئر رفیق نے کہا: کوئی بات نہیں تم میرے ساتھ جائو گے۔ اور واقعی اس دن وہ اپنی موٹر سائیکل پر بٹھا کر اسے ہسپتال تک لے گئے۔ ان کا یہ برتائو صرف طلبا یا اساتذہ تک محدود نہیں تھا‘ وہ کالج کے عام ملازمین، جن میں مالی، نائب قاصد اور باورچی شامل تھے‘ سے بھی اسی حسنِ سلوک سے پیش آتے تھے۔ ایک بار ایک باورچی کی بیوی فوت ہو گئی اور اسے ایمرجنسی میں گھر جانا تھا۔ یہ وہ زمانہ تھا کہ پورے دن میں ایک دو بسیں ہی چلتی تھیں۔ بریگیڈیئر رفیق نے اپنی جیب سے اس کو پیسے دیے اور ڈرائیور کے ہمراہ اپنی جیپ میں اسے راولپنڈی بھجوایا۔
موثر قیادت کا یہ وہ جزو ہے جس پر لیڈرشپ پر لکھے گئے لٹریچر میں بہت زور دیا گیا ہے۔ ایک اچھا لیڈر اپنے ساتھ کام کرنے والوں کو ایک ایسی ٹیم میں بدل دیتا ہے جو اس کے کہنے پر ناممکن کام کو بھی ممکن بنا دیتی ہے۔ ڈسپلن کے معاملے میں بریگیڈیئر رفیق کے ہاں کوئی رعایت نہیں تھی کوڈ آف کنڈکٹ کی خلاف ورزی پر بریگیڈیئر رفیق کی طرف سے دی جانے والی سزا کم سے کم کالج سے اخراج تھا۔ اس کے لیے وہ ہر طرح کا دبائو قبول کرنے کے لیے تیار رہتے۔ وہ صحیح معنوں میں آہنی اعصاب کے مالک تھے۔ ان کا ملٹری کالج کا پہلا دور ایک سال سے بھی کم تھا۔ اس عرصے میں ملٹری کالج جہلم میں بہت سی نئی روایات کا آغاز ہوا تھا۔ ابھی اصلاحات کا سفر جاری تھا کہ ان کا تبادلہ کوئٹہ کر دیا گیا جہاں انہوں نے سینئر ٹیکٹکس کورس پاس کیا اور انہیں کوئٹہ میں واقع جے ایس پی سی ٹی ایس سکول میں سینئر انسٹرکٹر تعینات کر دیا گیا‘ لیکن ان کا دل ملٹری کالج جہلم میں لگا ہوا تھا۔ یہیں انہوں نے ایک پیپر لکھا‘ جس میں انہوں نے تفصیل سے بتایا کہ ملٹری کالج جہلم کو ایک باقاعدہ پبلک کالج بنانے کی ضرورت ہے‘ جس کے لیے مرحلہ وار اصلاحات کرنا ہوں گی۔ اس فیصلے کو مرحلہ وار نافذ کرنے کے بجائے یک لخت سب پابندیوں کو نرم کر دیا گیا۔ اس کے نتیجے میں کالج میں لاء اینڈ آرڈر کی صورت حال انتہائی مخدوش ہو گئی‘ ڈسپلن نام کی کوئی چیز نہ رہی۔ اس وقت ملک کی باگ ڈور فیلڈ مارشل محمد ایوب خان کے ہاتھ تھی۔ انہوں نے بریگیڈیئر رفیق کو فون کیا اور انہیں فوری طور پر ملٹری کالج جہلم کا چارج لینے کو کہا۔ یہ 1954ء کا سال تھا جب بریگیڈیئر رفیق دوسری بار ملٹری کالج میں سربراہ کے طور پر آئے لیکن ایک سال پیشتر وہ کالج کو جس حالت میں چھوڑ کر گئے‘ صورتحال ویسی نہ تھی اب وہاں ابتری کے آثار نمایاں تھے۔ نظم و ضبط نام کی کوئی چیز نہ تھی۔ لڑکوں کے گروپس بن گئے تھے اور وہ اپنی من مانی کر رہے تھے۔ جب بریگیڈیئر رفیق چارج لینے پہنچے تو کسی ٹیکنیکل وجہ سے چارج لینے میں کچھ تاخیر ہو گئی۔ بریگیڈیئر رفیق نے ان دنوں کا استعمال اس طرح کیا کہ وہ رات کو بھیس بدل کر ادھر اُدھر گھومتے رہتے۔ اس طرح انھوں نے اپنی آنکھوں سے ان طلبا کو دیکھا جو نظم و ضبط کی دھجیاں بکھیر رہے تھے۔ کچھ دنوں بعد جب انہوں نے باقاعدہ چارج لیا تو تمام طلبا کو بلا کر تین گھنٹے تک تقریر کی۔ انہیں ان کی زندگی کا مقصد یاد دلایا اور ان اقدار کا حوالہ دیا جو بڑے مقصد کے حصول کے لیے ضروری تھیں۔ آخر میں انہوں نے وارننگ دی کہ ڈسپلن کی خلاف ورزی پر سخت سزا دی جائے گی۔ اور یہ محض وارننگ نہیں‘ یہ بریگیڈیئر رفیق کا وعدہ تھا۔ کچھ ہی دنوں میں ان طلبا کی فہرست مرتب کی گئی جو ڈسپلن کی خلاف ورزی کر رہے تھے۔ وہ دو تین، یا چار پانچ نہیں پورے 80 تھے۔ اتنی بڑی تعداد کا کالج سے ایک وقت میں اخراج کشتی کو ہچکولوں کے سپرد کرنے کے مترادف تھا۔ مشکل فیصلے کی گھڑی آن پہنچی تھی۔ ہر لیڈر کی زندگی میں چند مقامات ایسے آتے ہیں جب اسے اصول اور مصلحت میں سے ایک کا چناؤ کرنا ہوتا ہے۔ فائل بریگیڈیئر رفیق کے سامنے رکھی تھی۔ بریگیڈیئر رفیق نے کھڑکی سے باہر دیکھا تیز ہوا درختوں کو جُھلا رہی تھی۔ انہیں ملایا کے درخت یاد آ گئے۔ جب ہوا درختوں کے درمیان چلتی تو کیسی کیسی آوازیں آتیں۔ پھر انہیں اپنے والد میاں چراغ دین صاحب کی یاد آ گئی جنہیں بزدلی اور جھوٹ سے شدید نفرت تھی۔ بریگیڈیئر رفیق کی نظریں دوبارہ اس فائل پر آ گئیں جس پر انہوں نے فیصلہ دینا تھا۔ انہوں نے میز سے پین اٹھایا اور فائل پر دستخط کرنے ہی لگے تھے کہ دروازے پر دستک ہوئی۔ )جاری( 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں