گولیوں کی تڑتڑاہٹ نے رات کی خاموشی میں کچھ دیر کے ہل چل پیدا کر دی تھی لیکن اس کے بعد سکوت طاری ہو گیا تھا۔ جنگ کے زمانے میں فائرنگ کی آواز ایک عام سی بات تھی۔ بعض دفعہ مورچوں میں بیٹھے ہوئے جوان ماحول کی یکسانیت سے تنگ آ کر ہوا میں فائر کا برسٹ مارتے ہیں کچھ دیر کے لیے زندگی کے آثار پیدا ہوتے ہیں اور پھر وہی بوجھل خاموشی۔ بریگیڈیر رفیق نے برفیلے موسم میں مستعدی سے کھڑے جوان کی پیٹھ تھپکائی اور آگے بڑھ گئے۔ جوان اپنے کمانڈر کو برفباری کے دوران روزمرہ کی گشت لگاتے ہوئے حیران نہیں ہوا تھا۔ وہ جانتا تھا اس کا کمانڈر ہر لمحے ان کے ارد گرد موجود ہوتا ہے۔ بریگیڈیر رفیق اس راز سے واقف تھے کہ ایک موثر اور کامیاب رہنما کا اپنے رفقاء سے مثبت رشتہ بڑے مقصد کے حصول کا پہلا زینہ ہوتا ہے اور اس رشتے کی آبیاری محبت، خلوص اور قربانی سے ہوتی ہے۔ جنرل اقبال بتاتے ہیں کہ وہ بریگیڈیر رفیق کے نائب کی حیثیت سے کشمیر میں فرائض سرانجام دے رہے تھے۔ جاڑے کا موسم تھا اور تقریباً ہر روز برف پڑتی تھی۔ جنرل اقبال‘ جو ان دنوں بی ایم (بریگیڈ میجر) کے منصب پر فائز تھے‘ سرد ہوائوں کی وجہ سے زکام کی زد میں آ گئے۔ اس کیفیت میں سردی کا اثر دوچند ہو جاتا ہے۔ ان کے پاس ایک کمبل تھا۔ وہ تھوڑی دیر کے لئے سستانا چاہتے تھے۔ انہوں نے ایک درخت سے ٹیک لگائی اور اپنے اوپر کمبل لے کر آنکھیں بند کر لیں۔ لیکن ایک کمبل میں سردی کا احساس کم نہیں ہو رہا تھا۔ پھر نجانے کیا ہوا کہ کمبل کے اندر حرارت بڑھ گئی۔ اور وہ تھوڑی دیر کے لئے سو گئے۔ جاگنے پر انہوں نے دیکھا کہ ان کے اوپر ایک نہیں دوکمبل تھے۔ وہ حیران تھے کہ دوسرا کمبل کہاں سے آیا۔ انہوں نے اِدھر اُدھر نگاہ دوڑائی تو کیا دیکھتے ہیں کہ بریگیڈیر رفیق ایک درخت کے تنے کے ساتھ ٹیک لگا کر سو رہے ہیں۔ ان کے اوپر ان کا کمبل نہیں ان کا اوورکوٹ تھا۔ انہوںنے اپنا کمبل اپنے نائب اقبال پر ڈال دیا تھا۔ جنرل اقبال کو اس دن شدت سے احساس ہوا کہ رہنمائی صرف حکم چلانے کا نام نہیںہے بلکہ اس میں اپنے رفقاء سے محبت کا رشتہ اہم کردار ادا کرتا ہے اور محبت قربانی مانگتی ہے۔
بریگیڈیئر رفیق چھوٹے بڑے کی تفریق کے قائل نہیں تھے۔ کالجز کے گریڈ فور ملازمین کے ساتھ گھل مل کر رہے۔ ایک بار کہیں گئے تو اپنے ڈرائیور بشیر کو اپنے ساتھ بٹھا کر کھا نا کھلایا۔ اسی طرح ملٹری کالج کا ایک پُرانا ملازم اُن سے ملنے لارنس لالج گھوڑا گلی گیا۔ یہ ان دنوں کی بات ہے جب بریگیڈیئر رفیق ملٹری کالج جہلم کے دو ادوار کے بعد لارنس کالج گھوڑا گلی کے پرنسپل تھے۔ بریگیدیر رفیق اس سے گلے ملے، اسے اپنے ساتھ بٹھا کر کھانا کھلایا اور واپسی پر اسے دروازے تک الوداع کہنے آئے۔ بریگیڈیئر رفیق کی قیادت میں بنیادی نکتہ مقصد سے لگن تھا۔ انہوںنے اپنی ملازمت کے سارے عرصے میں تفریح کے لیے کوئی چھٹی نہیں کی۔ جس زمانے میں وہ دیر باجوڑ میں تعینات تھے‘ انہیں شرپسندوں کی کارروائیوں کو روکنے کا ٹاسک دیا گیا تھا۔ بریگیڈیئر رفیق نے ہمیشہ کی طرح اس اسائمنٹ کو اپنی زندگی کی پہلی ترجیح بنا لیا تھا۔ اب ان کے لیے دن اور رات کی تمیز ختم ہو گئی تھی۔ اسی اثنا میں انہیں خبر ملی کہ ان کی بیگم کی نظر کمزور ہو رہی ہے لیکن بریگیڈیئر رفیق اپنے مورچے کو نہیں چھوڑ سکتے تھے۔ دن گزرتے رہے‘ پھر ایک روز خبر ملی کہ بیگم کی بینائی چلی گئی ہے۔ یہ خبر سن کر بریگیڈیئر رفیق کی آنکھیں چھلک پڑیں۔ ملٹری کالج جہلم کے بعد جب وہ لارنس کالج گھوڑا گلی میں گئے تو ان کی صحت کے مسائل شروع ہو چکے تھے۔ اب وہ تیز چلتے یا چڑحائی چڑھتے تو ان کی سانس پھول جاتی لیکن خراب صحت ان کے جذبوں کی راہ میں حائل نہ ہو سکی۔ وہ مری میں سردیوں کی ایک یخ بستہ رات تھی جب کالج کا ایک استاد‘ جو ایم او ڈی (ماسٹر آن ڈیوٹی) کے فرائض سرانجام دے رہا تھا‘ رات کے وقت ایک چڑھائی پر چڑھ کر آگے جا رہے تھا۔ اچانک اس کی نظر سامنے جاتے ہوئے ایک ہیولے پر پڑی۔ وہ تیز قدم اٹھاتے ہوئے قریب پہنچا تو دیکھا بریگیڈیئر رفیق اوور کوٹ پہنے، چھڑی اٹھائے، چڑھائی چڑھتے ہوئے اوپر کی طرف جا رہے تھے۔ چڑھائی چڑھتے ہوئے ان کی سانس پھول جاتی تو وہ کچھ دیر رک جاتے اور پھرچل پڑتے۔ ماسٹرآن ڈیوٹی نے کہا: سر آپ کیوں تکلیف کرتے ہیں ہم اپنی ڈیوٹی کر رہے ہیں۔ بریگیڈیئر رفیق بولے ''آپ اپنی ڈیوٹی کر رہے ہیں اور میں اپنی ڈیوٹی کر رہا ہوں‘‘۔
بریگیڈیئر رفیق کا پورا زور کردار سازی پر تھا۔ انہوں نے عمارتوں کی تعمیر کے بجائے طلبا کے کردار کی تشکیل پر توجہ دی۔ وہ خود بھی کلاس میں لڑکوں کو قیادت کے اصول سمجھاتے، انہیں محمد بن قاسم، طارق بن زیاد اور صلاح الدین ایوبی کے قصے سناتے۔ وہ انہیں پاکستان سے محبت کا درس دیتے۔ پاکستان کی تعمیروترقی کے لیے اپنا کردار ادا کرنے کو کہتے۔ ان کی گفتگو سننے والوں کو ایک جذبہ اور جنوں سے آشنا کرتی۔ ان کی شخصیت میں ایک خاص طرح کا رعب اور جلال تھا۔ سکول کے زمانے سے ہی انہیں سب ''صاحب‘‘ کہہ کر بلاتے تھے۔ ان کے جسم کی ساخت، ان کی چھب ڈھب، اور ان کی سیاہ آنکھوں کی تیز چمک انہیں دوسروں سے ممتاز کرتی تھی۔ شجاعت، بہادری اور اعتماد ان کی شخصیت کی پہچان تھی۔ ایک بار جب وہ دیر باجوڑ میں تعینات تھے ایک باغی سردار نے انہیں دعوت دی مگر یہ شرط رکھی کہ وہ اکیلے آئیں گے۔ سب نے انہیں مشورہ دیا کہ وہ نہ جائیں اور اگر جانا ضروری ہے تو کچھ فاصلے پر جوانوں کو ساتھ رکھیں۔ بریگیڈیئر رفیق نے کہا کہ میں نے وعدہ کیا ہے کہ میں اکیلا آئوں گا۔ زندگی اور موت اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ وہ اس دن بغیر کسی گارڈ کے اکیلے دعوت پر گئے۔ دیر باجوڑ میں ہی ایک بار وہ اپنی جیپ خود چلا رہے تھے۔ سڑک بہت تنگ تھی۔ اچانک جیپ کا ایک پہیہ سڑک کے کنارے میں پھنس گیا۔ دوسری طرف خوفناک کھائی تھی۔ ان کے ساتھ بیٹھے ہوئے ڈرائیور نے کہا: سرآپ باہر نکل آئیں میں کوشش کرتا ہوں۔ بریگیڈیئر رفیق نے اسے پلٹ کر دیکھا اور کہا: جیپ مجھ سے سلپ ہوئی اب میں ہی اسے باہر نکالوں گا۔ اور پھر واقعی وہ خود ہی جیپ کو سڑک کے کنارے سے نکال کر لے آئے۔
بریگیڈیئر رفیق کی زندگی کے دو رُخ تھے۔ ایک ظاہر کا رُخ جس میں وہ ایک بارعب اور سخت گیر شخصیت کے روپ میں سامنے آتے لیکن دراصل وہ ایک تنہا شخص تھے۔ کبھی کبھار وہ تنہائی میں سسکیوں سے روتے لیکن اس کا اظہار کسی سے نہ کرتے۔ ان کی زندگی سادگی سے عبارت تھی۔ وہ پروٹوکول کے قائل نہ تھے۔ لارنس کالج میں پرنسپل کے جس بنگلے میں چار سال رہے۔ اس کے درودیوار بہت بوسیدہ تھے۔ رنگ وروغن ہوئے ایک عرصہ ہو چکا تھا۔ ساتھیوں کے کہنے پر بھی انہوں نے گھرکی آرائش پر توجہ نہ دی لیکن سب کو اس وقت حیرت ہوئی جب ان کی وہاں سے رخصتی کا وقت تھا تو انہوں نے سارے بنگلے کی آرائش اور رنگ وروغن کا حکم دیا۔ کہنے: لگے نئے آنے والے پرنسپل کو کسی طرح کی تکلیف نہیں ہونی چاہیے۔ یہ بریگیڈیئر رفیق کی کہانی ہے۔ اس کہانی میں مؤثر قیادت کے سارے اصول ملتے ہیں۔ کیسے ایک لیڈر سب سے پہلے اپنے وژن کا تعین کرتا ہے۔ کیسے اس وژن کو اہداف میں بدلتا ہے۔ کس طرح اہداف کو اپنے ہم کاروں کے ذہن نشین کرتا ہے۔ کیسے اپنے رفقا کے ساتھ تمام فاصلے ختم کر کے گُھل مِل جاتا ہے۔ کیسے ان کے دکھ درد میں شریک ہوتا ہے۔ کیسے سب کو مساوی توجہ دیتا ہے۔ کس طرح اپنے آپ کو ایک بڑے مقصد کے لیے وقف کر دیتا ہے۔ کس طرح Leading from front کی روشن مثال بنتا ہے۔ کس طرح مصلحت پر اصولوں کو ترجیح دیتا ہے۔ کیسے میرٹ کی خاطر کسی دباؤ کو خاطر میں نہیں لاتا۔ کس طرح لوگوں کے دلوں میں گھر کر جاتا ہے۔ کیسے اپنے ساتھیوں کو انسپائر کرتا ہے۔ کیسے بکھرے ہوئے لوگوں کو ایک مؤثر ٹیم میں بدل دیتا ہے‘ اور کیسے ادارے سے چلے جانے کے بعد بھی لوگوں کے دلوں میں جگمگاتا رہتا ہے۔ یہ وہ کہانی ہے جس سے ہمارے تعلیمی اداروں کے سربراہ بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔ وہ ایک ستارہ تھا جس نے اپنی روشنی سے ان گنت ستاروں کی تشکیل کی۔ بریگیڈیر رفیق اب ہم میں نہیں لیکن وہ اب بھی اپنے ہزاروں شاگردوں کے دلوں میں دھڑک رہے ہیں۔ یہی ایک سچے لیڈر کی پہچان ہے۔ وہ چلاجاتا ہے لیکن اس کے ساتھ دیکھے ہوئے خواب مدتوں ہماری آنکھوں میں جھلملاتے رہتے ہیں۔ (ختم)