سوچتا ہوں یہ کیسا طلسم ہے ‘کیسی کشش ہے کہ شام ڈھلتے ہی کوئی آواز انہیں اپنی طرف بلاتی ہے اور وہ اس کی طرف کھنچے چلے جاتے ہیں‘ ایک مخصوص جگہ پر ان کا اجتماع ہوتا ہے‘ جہاں چائے کی چسکیوں اور سگریٹ کے دھویںکے ہمراہ ادب کے مختلف پہلوئوں پر گفتگو ہوتی ہے۔ نئی پرانی کتابوں کی باتیں ہوتی ہیں‘ شعروشاعری کی محفل جمتی ہے ‘مشرق و مغرب کے تنقیدی رویوں کی بحثیں ہوتی ہیں۔ شام رات میں ڈھل جاتی ہے‘ لوگ آتے جاتے رہتے ہیں؛حتیٰ کہ شہر کی سڑکوںکو رات کا سناٹا اپنی گرفت مضبوط کر لیتا ہے تواس منڈلی کے لوگ آہستہ آہستہ رخصت ہونا شروع ہو تے ہیں‘ اس یقین کے ساتھ کہ کل وہ پھر یہاں جمع ہوں گے۔ یہ معمول جانے کب سے جاری ہے ‘جانے کب تک جاری رہے گا۔ بس لوگ اور ٹھکانے بدلتے رہتے ہیں ۔کبھی یہ ٹھکانہ لاہور کا پاک ٹی ہائوس تھا‘ جہاں شاعر اور ادیب جمع ہوتے تھے‘ ناصر کاظمی‘ انتظار حسین‘ احمد مشتاق اور ان جیسے کتنے ہی اور لکھنے والے ۔ شام رات میں بدل جاتی اور رات بھیگنے لگتی تو وہ وہاں سے اٹھتے اور بعض اوقات وہاں سے اٹھنے کے بعد بھی پہروں رات کی خاموشی کے ساتھ چلتے رہتے۔ احمد مشتاق نے انہیں محفلوں کے حوالے سے یہ شعر کہا تھا۔؎
یار سب جمع ہوئے رات کی خاموشی میں
کوئی رو کر تو کوئی بال بنا کر آیا
ناصر کاظمی اور انتظار حسین یہاں سے اٹھ کر لاہو ر کے لارنس گارڈن میں آ بیٹھتے‘ باتوں کا خزانہ تھا کہ ختم ہونے میں نہیں آتا تھا‘ نیند تھی کہ جیسے اجنبی ہو گئی تھی‘ باتوں کے درمیان وقفہ آتا تووہ آسماں پر تیرتے چاند کو دیکھتے رہتے ۔ناصر کاظمی ہی کا شعر ہے۔؎
نیند آتی نہیں تو صبح تلک
گردِ مہتاب کا سفر دیکھو
یہ تو لاہور کے پاک ٹی ہاؤس کا تذکرہ تھا‘ اب کچھ ذکر راولپنڈی کا ہو جائے‘ جہاںمیرا بچپن اور جوانی گزری‘ جہاں میں نے شاعروں اور ادیبوںکو کئی ٹھکانے بدلتے دیکھا ‘ان میں سے ایک شالیمار ہوٹل تھا ۔شالیمار ہوٹل‘ راولپنڈی کے جنرل پوسٹ آفس کے قریب واقع تھا۔ شالیمار میں بہت سے ادیبوں اور شاعروں سے ملاقات ہوتی ۔ مجھے یاد ہے یہیں میری ملاقات اردو کے بے مثل شاعر اختر حسین جعفری سے ہوئی تھی ‘جن کا مجموعہ'' آئینہ خانہ ‘‘ اردو شاعری میں ایک اہم مقام رکھتا ہے۔ اس وقت میں گورڈن کالج میں پڑھتا تھا ۔اختر حسین جعفری سے وہ ملاقات مجھے یاد رہے گی‘ جس میں انہوں نے غالبؔ کی شاعری کے حوالے سے گفتگو کی تھی۔ اب سوچتا ہوں اس گفتگو سے جو سیکھا شاید بہت سی کتابیں پڑھ کر بھی نہ سیکھ پاتا۔ شالیمار ہوٹل کے بالکل سامنے ‘ سڑک کے اُس پار‘ شیزان کیفے تھا۔ شیزان کیفے اپنے ماحول کی وجہ سے ایک ایلیٹ جگہ تصور کی جاتی تھی ‘جہاں لوگوں کا زیادہ ہجوم نہیں ہوتا تھا‘ کچھ لکھنے والے البتہ کبھی کبھار نظر آتے تھے‘ وہیں ایک بار میری ملاقات ناصر جہاں سے ہوئی تھی‘ بہت ہی خوش طبع شخص تھے۔ اس ملاقات میں مجھے پتہ چلا کہ انہوں نے انگریزی ادبیات میں ایم اے کیا ہے۔
صدر میں ہی شاعروں اور ادیبوں کا ایک اور ٹھکانہ داتا ہوٹل تھا۔ بینک روڈ پر واقع سموسوںکی قدیم دکان کریم ہوٹل کے پہلو سے ایک تنگ گلی نکلتی جو داتا ہوٹل تک لے جاتی ۔داتا ہوٹل تک پہنچنے کا ایک دوسرا راستہ بھی تھا۔ پاس ہی نوائے وقت کا دفتر تھا ۔داتا ہوٹل ایک عرصے تک شاعروں اور ادیبوں کا مرکز بنا رہا۔ اسی زمانے کا قصہ ہے حلقہ اربابِ ذوق ‘جو ادیبوں اور شاعروں کا پرانا پلیٹ فارم ہے‘ کے متوازی حلقۂ اربابِ غالب کا قیام عمل میں آیا‘جس کے سرخیل نوجوان ترقی پسندشاعر یوسف حسن تھے ۔صدر میں اس زمانے میں ایک نیا ہوٹل برلاس وجود میں آیا ۔ یہاں بھی کبھی کبھار لکھنے والوں سے ملاقات ہو جاتی ۔یہیں نثار ناسک نے مجھے اپنا یہ خوبصورت شعر سنایا تھا۔؎
میں سازشوں میں گھِرا اک یتیم شہزادہ
یہیں کہیں کوئی خنجر میری تلاش میں ہے
راولپنڈی صدر کے بعد کچھ نئے ٹھکانے وجود میں آئے‘ اب کے ان ٹھکانوں کا مرکز لیاقت باغ کا علاقہ تھا ۔ یہیں پر شمع ہوٹل ادیبوں اور شاعروں کی محفلوں کامرکز بن گیا‘ اس کے قریب ایک کیفے ذیشان تھا‘ جہاں حلقے کے لوگ بیٹھے تھے۔ کچھ لوگ شنگریلا میں بھی بیٹھنے لگے ‘اس کے قریب ہی ایک نیا ہوٹل بنا تھا سینڈہلز‘ یہاں ترقی پسند لوگوں کا اجتماع ہوتاتھا ۔یہ معروف معنوں میں ادیب تو نہیں تھے‘ لیکن یہاں کی محفلوں میں انٹلیکچویل بحثیں ہوتیں اور نوجوانوں کو سیکھنے کو بہت کچھ ملتا۔ اسی طرح کالج روڈ پر زم زم کیفے اور سٹیڈیم روڈ پر پرنس ہوٹل ادیبوں اور فن کاروں کی آماجگاہ تھی۔
اب اسلام آباد کا شہر اپنی جڑیں پکڑ رہا تھا‘ حلقۂ ارباب ذوق میں اسلام آباد کے اجلاس بھی ہونے لگے۔ منشا یاد نے اس سلسلے میں سر گرم کردار ادا کیا۔ اب اسلام آباد میں مختلف علاقوں سے آنے والوں نے نئے ٹھکانے تلاش کرنے شروع کر دیے۔ ان میں سے ایک ٹھکانہ آبپارہ میں تھا ۔اسی طرح ستارہ مارکیٹ میں زی ہوٹل‘ جہاں شاعر اور ادیب مل کر بیٹھتے ۔حلقۂ ارباب ذوق کے اجلاس سی ڈی اے کے ٹریننگ سنٹر میں ہوتے‘ بعد میں اس سے متصل عمارت میں یہ اجلاس ہوتے۔ مجھے یاد ہے یہیں خواجہ مسعود اور محترمہ سرفراز اقبال سے میری آخری ملاقات ہوئی۔ خواجہ مسعود گورڈن کالج میں ہمارے پرنسپل تھے‘ جو آخر دم تک ادبی اور سماجی سرگرمیوں میں پیش پیش رہے ۔سرفراز اقبال راولپنڈی میں ہمارے ہمسائے میں ہارلے سڑیٹ میں رہتی تھیں۔ ان کے گھر معروف ادبی شخصیتوں کا آنا جانا تھا۔ فیضؔ صاحب جب بھی راولپنڈی آتے‘ یہیں قیام کرتے۔جب حلقۂ ارباب ذوق کے اجلاس اکادمی ادبیات میں منعقد ہونے لگے تو شام کا نیا ٹھکانہ بھی دریافت کر لیا گیا ‘یہ نائنتھ ایونیو پر واقع ایک ڈھابا‘ جسے چھپر ہوٹل کا نام دیا گیا۔اب ادیب اور شاعر یہاں جمع ہونے لگے۔ان بہت سے ٹھکانوں کا رازدار اسلام آباد کا طرحدار شاعر اختر عثمان ہے‘ جو ایک کثیرالمطالعہ اور ہمہ جہت شاعر ہے۔ شاعری اس کا اوڑھنا بچھونا ہے۔ حلقٔہ اربابِ ذوق سے اس کی طویل وابستگی ہے ۔اس کے اندر ایک سیلانی روح ہے ۔اب ان سب ٹھکانوں سے اس کا جی اکتا گیا تھا‘ اسے کسی اور ٹھکانے کی تلاش تھی‘ جو شہر کے ہنگاموں سے دور ہو۔ آخر وہ ٹھکانا اسے اسلام آباد I-10 میںمل گیا۔ ایک روز اس کا ٹیلیفون آیا‘ کہنے لگا: آئیں ہمارے ساتھ ڈھابے پر چائے پئیں ۔میں نے10 I- میں اس ڈھابے کا ذکر بہت سے لوگوں کی زبانی سن چکا تھا‘ فوراً حامی بھر لی۔ یہ I-10سیکٹر میں سوئی گیس چوک کے ساتھ ہی ایک وسیع کچے احاطے میں ایک چھوٹا سا ڈھابا ہے‘ جس کی پیشانی پر بسم اللہ فوڈ لکھا ہے۔ میں گاڑی کھڑی کرکے آگے بڑھا تو ایک طرف ان آشفتہ سروں کو دیکھا جن کے دمِ قدم سے یہ محفل آباد تھی۔ اختر عثمان اس محفل کی جان ہے‘ یہاں کے مستقل شرکا میں معروف شاعر منظر نقوی‘ نقاد صلاح الدین درویش‘ صحافی اور ناول نگار ظفر سید‘ طالب حسین طالب‘ سیدحسن نقوی‘ طاہر اسلام عسکری‘ صغیر انور مغل‘اشفاق عامر‘ڈاکٹر اسد نقوی‘ اور عبداللہ ہارون شامل ہیں۔ سردیاں ہو ںیا گرمیاں ‘ آندھی ہو یا طوفان ‘یہ محفل ہر حال میں جمتی ہے۔ اختر عثمان ا س محفل کی روح ِرواں ہے۔ اب اس محفل کو آٹھ سال ہونے کو آئے ہیں‘ لیکن شرکا کے جوش و خروش دیکھ کو یوں لگتا ہے ابھی اس کا آغاز ہوا ہے۔ یہاں میں نے ادب کے نوجوان طالب علموں کو بھی دیکھا جوانتہائی انہماک سے گفتگو سنتے ہیں‘ سوال پوچھتے ہیں اور تنقید کے نئے زاویوں سے واقف ہوتے ہیں۔ مجھے یوں لگا کہ یہ محفل ان سب کی زندگیوں کا ایک لازمی حصہ بن چکی ہے ‘جس روز وہ اس محفل میں نہ آئیں انہیں کسی چیز کے کھو جانے کا احساس ہوتا ہے۔ اختر عثمان کی تو اس محفل سے وابستگی سب سے جدا ہے‘ اس کے بقول اس کے یہاں سے جانے کے بعد بھی اس کا یہ تعلق یوں ہی باقی رہے گا۔اسی تعلق کے حوالے سے اختر عثمان کا شعر ہے۔؎
میں ریستوران میں آیا کروں گا بعد از مرگ
یہ اپنا حلقۂ احباب دیکھنے کے لیے
سوچتا ہوں یہ کیسا طلسم ہے‘ کیسی کشش ہے کہ شام ڈھلتے ہی کوئی آواز انہیںاپنی طرف بلاتی ہے اور وہ اس کی طرف کھنچے چلے جاتے ہیں۔