یہ 1981 کا ذکر ہے میں نیا نیا اصغر مال کالج میں بطور لیکچرر آیا تھا ۔یہ ایک قدیم تاریخی کالج تھا جس میں کئی شعبوں میںپوسٹ گریجویٹ کلاسز بھی ہوتی تھیں۔ ایک بڑا بوسیدہ کمرہ سٹاف روم کے طور پر استعمال کیا جاتا تھا۔ مجھے یاد ہے پہلے یا دوسرے دن میں کالج کی لائبریری گیا۔ پوچھنے پر پتہ چلا کہ لائبریرین صدیقی صاحب لائبریری سے ملحق دفتر میں بیٹھتے ہیں۔ دفتر کیا تھا ایک چھوٹا سا بوسیدہ کمرہ۔ مجھے اس وقت کیا خبر تھی کہ گورنمنٹ کالج میں میرے دو سالہ قیام کے دوران یہ کمرہ میرا مستقل ٹھکانا بن جائے گا۔ میں کمرے میں داخل ہوا تو میز کے پیچھے ایک ادھیڑ عمر شخص بیٹھا تھا۔میں نے اندازہ لگایا یہی صدیقی صاحب ہیں۔ صدیقی صاحب نے اپنی عینک کے موٹے شیشوں کے اوپر سے مجھے دیکھتے ہوئے کہا‘ جی فرمائیے۔ میں نے اپنا تعارف کراتے ہوئے کہا‘میں نے آج انگلش ڈیپارٹمنٹ بطور لیکچرر جائن کیا ہے۔ یہ سن کر ا نھوں نے تپاک سے مصافحہ کیا اور دیوار کے ساتھ کرسی پر بیٹھے ہوئے نوجوان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا‘ یہ یوسف حسن ہیں اردو ڈیپارٹمنٹ میں لیکچرر ہیں۔ میں نے اس نوجوان سے ہاتھ ملایا اور اس کے کہنے پر اس کی ساتھ والی کرسی پر بیٹھ گیا۔ یہ یوسف حسن سے میری پہلی ملاقات تھی۔ پھر وہ کمرہ میرے اور یوسف حسن کی بیٹھک بن گیا۔اب اس ملاقات کو چار دہائیاں گزر چکی ہیں۔لیکن یوسف کا سراپا آج بھی میری نگاہوں کے سامنے ہے۔ لمبا قد، سر پر تہہ در تہہ لمبے بال، سوچتی، مسکراتی اور چمک دار آنکھیں، ایک ہاتھ کی مخروطی انگلیوں میں دبا ہوا سگریٹ اور دوسرے ہاتھ میں کوئی کتاب ۔ ہم دونوں کا اکثر وقت اکٹھا گزرتا۔جب بھی کلاسوںکے درمیان کوئی وقفہ ہوتا تو ہم لائبریری میں صدیقی صاحب کے دفتر میں بیٹھ جاتے ۔صدیقی صاحب اچھے وقتوں میں ریڈیو دہلی سے وابستہ رہے تھے وہ ا س زمانے کی کہانیاں مزے لے لے کر سناتے تھے۔ ہمارا دوسرا ٹھکانا کالج گیٹ کے سامنے چائے کا ایک چھوٹا سا ڈھاباتھا۔ یہاں بیٹھ کر یوسف حسن آزادی سے سگریٹ پی سکتا تھا ۔یوسف حسن سے میں نے مارکس کی بحثیں بھی سنیں اور اس کی شاعری بھی ۔یوسف کو مطالعے کا جنون تھا۔ وہ مارکس کا شیدائی تھا اس کی زندگی ،اس کی سوچ اورا س کی شاعری اس یقین کے تابع تھی کہ ایک دن آئے گا جب سارے سماجی امتیازات ختم ہو جائیں گے اور استحصال کا چلن اپنے اختتام کو پہنچے گا جس زمانے کی میں بات کر رہا ہوں اس کو گزرے ہوئے بھی چار دہائیاں بیت چکی ہیں اس وقت ہم دونوں نوجوان تھے یہ عمر زندگی کے بارے میں رومانوی تصورات کی عمر ہوتی ہے لیکن یوسف کی شاعری غوروفکر کی دعوت دینے والی شاعری تھی:
ہر شے میں رنگ دیکھ طلوع و غروب کا/ اپنے کسی گمان میں شام و سحر نہ کاٹ
یوسف کی شاعری میں عمل کا پیغام ہوتا وہ صرف زبانی جمع خرچ کا قائل نہ تھا بلکہ سماج میں تبدیلی کے لیے عملی جدوجہد پر یقین رکھتا تھا
دستِ دعا اٹھا ئے تو اک عمر ہو چلی/ کوئی قدم اٹھائو کہ زنجیر ِ ِپا گرے
پل بھر کا معرکہ ہے جو سودا سروں میں ہو/ دن رات کی دہائی سے دیوار کیا گرے
کالج گیٹ کے سامنے چائے کے ڈھابے پر یوسف حسن اور میں بیٹھتے تو ادب، ادیبوں، سماجی نا ہمواریوںاورکتابوں کے حوالے سے باتیں ہوتیں جب بھی وہ کوئی نئی غزل کہتا اس کی رونمائی چائے کے ڈھابے پر ہوتی۔ میں اکثر اسے کہتا: اب تو تمھاری کتاب آجانی چاہیے۔ وہ ہربار میری بات کو ہنسی میں اڑا دیتا یہی وجہ ہے کہ اس کی زندگی میں اس کی کتاب نہ آسکی۔ اس کی موت کے بعد اس کی شاعری کا مجموعہ'اے دل اے دریا‘ اسی سال 2019 میں شائع ہوا ہے ۔ کل ہی عزیزم طاہر اسلام عسکری نے مجھے یوسف حسن کی کتاب پہنچائی ۔ میں نے بے تابی سے کتاب اپنے ہاتھ میں لی اور پڑھنا شروع کیا۔ جیسے جیسے میں کتاب پڑھ رہا تھا یوسف حسن کا مسکراتا ہوا چہرہ، اس کی باتیں، اس کے ساتھ بتائے ہوئے دن جیسے پھر سے دھڑکنے لگے تھے۔ آپ یہ کتاب پڑھیں گے تو آپ کو معلوم ہو گا وہ کتنا مختلف شاعرہے اس کا اسلوب سب سے منفرد ہے اس کی شاعری میںنظریے کی حدت بھی ہے اور یقین کی روشنی بھی۔ یوسف حسن کا تعلق جہلم سے تھا یوں دریائے جہلم اس کی زندگی کا اہم تجربہ تھا جو اس کی شاعری میں بھی مختلف معانی کے ساتھ آتا ہے۔یوسف کی کتاب کا نام ''اے دل اے دریا‘‘ ہے یہ ترکیب اس کی غزل میں استعمال ہوئی:
کتنی عمروں سے میں تیرے ساتھ سفر میں ہوں
کھول اپنے اسرار بھی تو اے دل اے دریا
لیکن دریا سے یوسف حسن کے تعلق کی بنیادیں اور بھی ہیں:
ہم بھی پر بت کاٹتے ہیں اور مٹی چاٹتے ہیں
ہم بھی تیرے کنبے میں شامل ہیں اے دریا
میں ذکر کر رہا تھا راولپنڈی میں گورنمنٹ کالج اصغر مال کے گیٹ کے سامنے چائے کے ڈھابے کا جہاںیوسف اور میں اکثر چائے پینے جاتے۔ وہ سگریٹ کو اپنی انگلیوں میںبھینچ کر کش لگاتا تو میں جان جاتا آج اس نے کوئی تازہ غزل لکھی ہے۔ وہ بھی ایسا ہی ایک دن تھا۔کالج پہنچے تو اچانک چھٹی کا اعلان ہو گیا۔ ہم چائے کے ڈھابے پر جا بیٹھے۔ اس نے اپنی غزل کے تین اشعار سنائے۔ چار دہائیاںبعد بھی وہ اشعار لہجے کی تازگی اور بانکپن کے ساتھ میرے حافظے میں محفوظ ہیں:
صدیوں کا فاصلہ بھی غبارِ سفر ہوا
لیکن ترے وصال کا لمحہ نہ سر ہوا
تیرے بدن کی دھوپ دریچے میں رہ گئی
سایہ تری صدا کا مراہم سفر ہوا
پھر قربتوں کے خواب کہیں خاک ہو گئے
پھر تیرا میرا فیصلہ افلاک پر ہوا
یوسف حسن سے میرا ساتھ اس وقت چھوٹ گیا جب 1983میں میرا تقرر اسلام آباد کی ایک یونیورسٹی میں ہو گیا‘لیکن یوسف کی سرگرمیوں کی اطلاع ملتی رہتی۔ پھر میں پاکستان سے باہر چلا گیا۔ واپسی پر کراچی اور لاہور میں قیام رہا۔ طویل عرصے کے بعد واپس راولپنڈی واپس آیا تو پتہ چلا یوسف حسن نے سیدپورروڈ پر کتابوں کی دکان کھول لی ہے کاروبار تو اسے کیا کرنا تھا یہ دوستوں سے ملنے کا ایک بہانہ تھا۔نوے کی دہائی میں جب نظریات کے بہت سے معبد لرزنے لگے تو بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے لوگوں نے اپنا کعبہ بدل لیا ۔یوسف حسن کا یہ شعر اسی دور کی یادگار ہے
لوگ تو لوگ عقیدے بھی بدل جاتے ہیں
تو نے دیکھی ہی نہیں گر مئی بازار ابھی
لیکن دبلا پتلا یوسف حسن اپنی دھن کا پکا نکلا وہ وفاداری بشرطِ استواری کا قائل تھا سماجی ناہمواریاں اور امتیازات اسے بے چین رکھتے تھے وہ اکثر کم زوروں اور زور آوروں کے درمیان فرق کی وجوہات پرسوچتا رہتا:
سحر تھا کوئی کہ پانی کی غلط تقسیم تھی/ باغ بے برگ و ثمر، جنگل ہرا کیوں کر ہوا
اب یوسف حسن عملی طور پر بائیں بازو کی سیاست میں حصہ لینے لگا اورعو امی ورکرز پارٹی کا ایک سرگرم رہنما بن گیا۔ ادھرمیں اسلام آباد میں نوکری کے جھمیلوں میں پھنس گیا فون پر ایک دوبار بات ہوئی اور ہم نے طے کیا کہ جلد ہی ملیں گے۔ میرے دل میں ایک عجیب سی خواہش تھی کہ اب میں یوسف حسن سے ملوں گا تو اسے کہوں گا کہ چائے ہم اُسی ڈھابے پر پئیں گے جہاں آج سے چالیس سال پہلے بیٹھا کرتے تھے ۔تُم چائے کے ساتھ سگریٹ کے کش لگانا اور میں تم سے تمہاری نئی شاعری سنوں گا۔ ہم ڈھیر ساری باتیں کریں گے۔ میں تمھیں بتائوں گا کہ کالج سے جانے کے بعد میں کہاں کہاں گھومتا رہا، تم مجھے بتانا کہ تمھارے انقلاب کے سفر میں کیسے کیسے مرحلے آئے۔ لیکن یہ خواب خواب ہی رہاکیونکہ تمھیں جانے کی جلدی تھی۔ اب میں سوچتا ہوںکسی روز اکیلا ہی چائے کے اس ڈھابے پر جائوں گا جہاں آج سے چار دہائیاں پہلے ہم بیٹھا کرتے تھے ۔چائے کا آرڈر دے کر میں آنکھیں بند کر لوں گا اور کہوں گا کوئی شعر سنائو یوسف حسن۔اور پھر تمہاری آواز آئے گی:
مجھے کہیں کا نہ رکھا سفید پوشی نے/ میں گرد گرد رواں تھا تو معتبر بھی تھا ـــــ