"SSC" (space) message & send to 7575

ڈھاکہ کتنا قریب کتنا دور

بعض اوقات ایسا ہوتا ہے آپ کا محبوب منظر آپ کے سامنے ہوتا ہے لیکن آپ اس کا حصہ نہیں بن سکتے‘ آپ اسے صرف محسوس کر سکتے ہیں لیکن چھو نہیں سکتے‘ اُس روز بھی ایسا ہی ہوا۔وہ 2011 ء کا سال تھا اور جو ن کے مہینے کے ابتدائی دن تھے‘ میں ایک کانفرنس میں شرکت کے لیے نیپال کے شہر کھٹمنڈو جا رہا تھا‘ میرے ہمراہ یارِعزیز ظفراللہ خان اور نوجوان صحافی وقاص خان بھی تھے ۔جہاز کا سفر ہو تو میں Aisleکی سیٹ پر بیٹھنا پسند کرتا ہوں‘ لیکن اس روز میری خواہش کے برعکس کھڑکی کے قریب سیٹ ملی۔ سفر کے دوران میری ساتھی کتاب ہوتی ہے‘ جہاز کے ٹیک آف کرتے ہی میں نے بیگ سے کتاب نکالی‘ یہ جرمن ناول نگار ہرمن ہیس کا ناول'' سدار تھا‘‘ تھی۔یہ ایک مختصر سا ناولٹ ہے جسے ہر بار پڑھ کرلطف محسوس ہوتا ہے ‘یہ اپنی ذات کی تلاش اور روحانیت کا سفر ہے ‘یہ موضوع ہرمن ہیس کے دوسرے ناولوں میں بھی مشترک ہے۔ پی آئی اے کی پرواز ہموار تھی اور میں' سدار تھا‘ کے ہمراہ سچ کے سفر کی تلاش میں تھا ۔میں سوچ رہا تھاادیب بھی کیسے ساحر ہوتے ہوتے ہیں‘ تصور سے ایسے منظر تراشے ہیں کہ سب کچھ اصل معلوم ہوتا ہے۔ انگریزی کے معروف شاعر کولرج(Coleridge) نے اسے Suspension of Disbelief کانام دیا ہے‘ جس میں پڑھنے والا کہانی اور حقیقت میں فرق نہیں کر پاتا اور کہانی کو حقیقت سمجھتا ہے ۔ کتاب پڑھتے پڑھتے میری آنکھیں بند ہونے لگیں‘ میں نے جہاز کی کھڑکی سے باہر دیکھا‘ گھپ اندھیرے کا ایک سمندر تھا اور جہاز کے پروں کے کناروں پر لگی روشنی ٹمٹما رہی تھی۔ میں نے سیٹ سے ٹیک لگا کر آنکھیں بند کر لیں‘ پتہ نہیں کتنی دیر سوتا رہا کہ میری آنکھ جہاز میں ہونے والے اعلان سے کھل گئی جو پہلے اردو اور پھر انگریزی میں ہوا۔ اس کے مطابق کھٹمنڈو ہوائی اڈہ عارضی طور پر بند تھا اوراب ہمارا جہاز ڈھاکہ جا رہا تھا جہاں ہم ایک گھنٹہ رکیں گے۔ مجھے یوں لگا جیسے کوئی گم شدہ خواب پھر سے جاگ اٹھا ہے جب میں ڈھاکہ کا شہر دیکھوں گا۔ کچھ ہی دیر میں ہمارا جہاز ڈھاکہ ائیر پورٹ پر اتر گیا باہر تاریکی تھی صرف ائیر پورٹ کے دور و نزدیک کی روشنیاں تھیں میں اس خیال سے خوش ہو رہا تھا کہ ہم جہاز سے اتر کر ائیر پورٹ کی عمارت میں بیٹھیں گے‘ میں اس ہوا میں سانس لوں گا۔ اس زمیں پر پائوں رکھوں گا۔ ان منظروں کو دیکھوں جنہیں کل تک میں اپنا کہ سکتا تھا۔ کیسا ہو گا وہ منظر۔اس منظر کے تصور ہی سے میرا دل مہکنے لگا‘ لیکن پھر جہاز میں ایک اور اعلان ہوا کہ سب مسافر جہاز میں بیٹھیں گے اور جہاز ایک گھنٹے بعد یہاں سے کھٹمنڈو کے لیے پرواز کر جائے گا۔مجھے یوں لگا میرا خواب مجھ سے چھن گیا ہے‘ بالکل16 دسمبر کی طرح جب ڈھاکہ ہم سے جدا ہو گیا تھا ۔میں نے جہاز کی سیٹ سے ٹیک لگا کر آنکھیں بند کر لیں تو اندر کے منظر روشن ہو گئے۔ جب ڈھاکہ ہم سے جدا ہوا تھا میں نویں کلاس میں پڑھتا تھا‘ یہ خبر ہم پر بجلی بن کر گری تھی۔ چھوٹے بڑے سب بلک بلک کر رو رہے تھے۔ یہ زخم ہماری تاریخ کا ایک حصہ بن کر رہ گیا ہے۔ ایک ایسا درد جس کی کسک تمام عمر ہمارے ساتھ رہے گی۔ معاشرے کے ہر طبقے کی اس دکھ میں ساجھے داری تھی۔ ادیب اور شاعر زیادہ حساس ہوتے ہیں؛ چنانچہ اس سانحے کی گونج پاکستانی ادب میں دیر تک سنائی دیتی رہی۔ کیسے کیسے ناول لکھے گئے۔ نمایاں لکھنے والوں میں فضل احمد کریم فضلی (خون جگر ہونے تک)‘ رضیہ فصیح احمد (صدیوں کی زنجیر) ‘ انتظار حسین (بستی)‘ مستنصر حسین تارڑ (راکھ)‘ الطاف فاطمہ (چلتا مسافر)‘ خالدہ حسین (کاغذی گھاٹ) اور فہمیدہ ریاض (زندہ بہار) شامل ہیں۔ افسانہ نگاروں نے بھی اس سانحے کو اپنے افسانوں کا موضوع بنایا۔ افسانوں کی مکمل فہرست کا یہ کالم متحمل نہیں ہو سکتا۔ ابراہیم جلیس (بانگلہ دیش)‘ انتظار حسین (شہرِ افسوس ہندوستان سے ایک خط)‘ اے حمید (اب جاگتے رہنا ہے)‘ رضیہ فصیح احمد (پل‘ ورثہ) نمایاں ہیں۔ مسعود مفتی‘ محمد منشا یاد‘ رشید امجد‘ آصف فرحی‘ مسعود اشعر‘ انور عنایت اللہ اور فرخندہ لودھی نے بھی سانحۂ مشرقی پاکستان کو اپنے افسانوں کا موضوع بنایا۔
اس دکھ کا کرب اردو شاعری میں بھی نظر آتا ہے۔ اس زمانے کی یاد جب ہم ایک ساتھ تھے‘ ان منظروں کی یاد جو اب ہمارے لیے اجنبی ہو گئے۔ مجھے ناصر شہزاد کی غزل کے کچھ شعر یاد آنے لگے۔
چالنا‘ چٹگام‘ ڈھاکہ چھن گیا
دیس تھا میں اک عجب‘ وہ دن گیا
دھان کی موہن مہک‘ کھلیان کھیت
سون‘ سہلا‘ بیگمی‘ مشکن گیا
اور کیا ہو تیرے فردِ جرم میں
کرکے ممکن کو تو ناممکن گیا
پھر مجھے ناصر کاظمی یاد آ گیا‘ جس نے ان ساحلوں پر گیت گانے والوں کا تذکرہ کیا تھا‘ جن کی اب صرف یاد باقی رہ گئی ہے۔ 
وہ ساحلوں پہ گیت گانے والے کیا ہوئے
وہ کشتیاں چلانے والے کیا ہوئے
وہ صبح آتے آتے رہ گئی کہاں
جو قافلے تھے آنے والے کیا ہوئے
یہ کون لوگ ہیں میرے ادھر اُدھر
وہ دوستی نبھانے والے کیا ہوئے
وہ دل میں چبھنے والی آنکھیں کیا ہوئیں
وہ ہونٹ مسکرانے والے کیا ہوئے
مجھے اپنے دوست اسلام کا خیال آیا جس سے میں مانچسٹر میں ملا تھا‘ جس کا تعلق ڈھاکہ سے تھا' جس کے ساتھ میں نے مانچسٹر کے Grosvenor Place ہاسٹل میں تین مہینے گزارے تھے‘ جس نے چاول اور مچھلی کے مختلف ذائقوں سے مجھے آشنا کیا تھا‘ جس کے چہرے پر ہر وقت مسکراہٹ کھیلتی رہتی اور مانچسٹر کے بعد جس سے کبھی رابطہ نہ ہوا۔ پھر مجھے یونیورسٹی آف کینیڈا میں ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کے ہدایت حسین کا خیال آیا‘ جو ڈھاکہ یونیورسٹی میں پڑھاتا تھا‘ اب پی ایچ ڈی کے لیے ٹورنٹو یونیورسٹی آیا ہوا تھا اور اپنی فیملی کے ساتھ اسی 21 منزلہ عمارت میں رہتا تھا‘ جس میں یونیورسٹی کے طلبا اپنی فیملیز کے ساتھ رہتے تھے‘ جس کی ننھی سی بیٹی رئیسہ میرے بیٹے صہیب کے ساتھ جیسی کیچم سکول میں پڑھتی تھی۔ کئی بار ہم ایک دوسرے کے گھر گئے تھے۔ یوں لگتا تھا ہم ایک ہی فیملی سے تعلق رکھتے ہیں۔ بہت پہلے سنا تھا‘ ہدایت ڈھاکہ واپس آ گیا ہے۔ اسلام بھی اپنی تعلیم کے بعد ڈھاکہ میں جاب کر رہا ہے۔ رات کی تاریکی میں ان کے چہرے روشن ہو گئے‘ اسی شہر کے گھروں میں اسلام اور ہدایت رہ رہے ہوں گے‘ کیسی بے بسی ہے‘ میں ڈھاکہ آ کر بھی ان سے نہیں مل سکتا۔ اچانک جہاز میں ہونے والے اعلان سے میری سوچوں کا سلسلہ منقطع ہو گیا۔ یہ جہاز کے ڈھاکہ ائیرپورٹ سے ٹیک آف کا اعلان تھا۔ میں نے کھڑکی سے باہر دیکھا‘ جہاں ہر طرف تاریکی کا راج تھا۔ ائیر پورٹ کی روشنیاں تھر تھرا رہی تھیں۔ ہمارا جہاز فضا میں بلند ہو رہا تھا۔ ڈھاکہ کی روشنیاں اب دم بدم نظروں سے اوجھل ہو رہی تھیں۔ میں سوچنے لگا‘ یہ ملنا بھی کیا ملنا تھا‘ لیکن بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے آپ کا محبوب منظر آپ کے سامنے ہوتا ہے لیکن آپ اس کا حصہ نہیں بن سکتے آپ اسے صرف محسوس کر سکتے ہیں چھو نہیں سکتے۔

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں