اندھیرے میں گھات لگائے بے نظیر پر حملے کا منتظر کوئی اور نہیں بے نظیر کی اپنی پارٹی کا رکن فاروق لغاری تھا جسے بے نظیر نے صدرِ پاکستان کے عہدے کے لیے منتخب کیا تھا‘ لیکن سچ کہتے ہیں سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا۔ صدر فاروق لغاری نے 58-2/13 کا استعمال کرتے ہوئے بے نظیر کی حکومت کو اقربا پروری کے الزام پر برطرف کر دیا۔ بے نظیر جلا وطن ہو گئیں۔ اسی دوران ایک پاکستانی عدالت سے انہیں ان کی عدم موجودگی میں تین سال قید کی سزا سنائی گئی جو بعد میں ختم کر دی گئی۔ ادھر پاکستان میں نواز شریف کی حکومت کو برطرف کر دیا گیا اور نواز شریف کو ہائی جیکنگ کے جرم پر قید کی سزا سنا دی گئی اور انہیں اٹک جیل میں قید کر دیا گیا۔ اب بے نظیر کی جلا وطنی کا دور طویل ہو گیا تھا۔ پھر برف پگھلنا شروع ہوئی۔ پاکستان میں انتخابات کا اعلان کر دیا گیا اور پرویز مشرف اور بے نظیر کے درمیان ایک معاہدہ ہوا جس کے مطابق ان کے حوالے سے تمام کیسز ختم کر دیے گئے‘ شرط صرف ایک تھی کہ بے نظیر انتخابات کے بعد پاکستان آئیں گی۔ ایک طرف یہ شرط تھی‘ دوسری طرف ان کی پارٹی کو ان کی فوری ضرورت تھی۔ بے نظیر نے جرأت مندانہ فیصلہ کیا کہ اسے الیکشن سے پہلے پاکستان جانا ہو گا۔ اسی دوران ایک خلیجی ریاست کے سربراہ نے انہیں فون کر کے بتایا کہ پاکستان جانے میں ان کے لیے سراسر خطرہ ہے۔ جہاز میں بیٹھنے سے پہلے بھی پاکستان کے ایک اہم فرد نے انہیں فون کیا‘ سکرین پہ فون کرنے والے کا نام دیکھ کر انہوں نے فون سننے سے انکار کر دیا۔ انہیں1988ء میں لاہور ائیرپورٹ پر اپنا استقبال یاد آ گیا۔ اب منزل کراچی تھی۔ کیا لوگ ان کے استقبال کو ائیرپورٹ پہنچیں گے؟ کیا انہیں ائیرپورٹ پر گرفتار کر لیا جائے گا؟ ہر چیز کا امکان موجود تھا۔ جہاز اپنا سفر شروع کر چکا تھا۔ اب جہاز پاکستان کی فضائی حدود میں داخل ہو چکا تھا اور آہستہ آہستہ نیچے اتر رہا تھا۔ پھر جہاز کراچی ائیر پورٹ پر اتر چکا تھا۔ وہی کراچی جس کی فضائوں میں سانس لیے بے نظیر کو ایک عرصہ ہو چکا تھا۔ بے نظیر کو کراچی میں گزارے ہوئے سارے روز و شب یاد آنے لگے۔ اپنے بچپن کے وہ دن جب وہ اپنے ماں باپ کے پیار کا مرکز تھی۔ جب سب بہن بھائی ماں باپ کے ساتھ رہتے تھے۔ جب زندگی ہر فکر سے آزاد تھی۔ پھر ان دنوں کی یاد جب آزمائشوں نے ان کے گھر کا انتخاب کر لیا تھا۔ وہ اعصاب شکن دن جب بھٹو صاحب جیل میں تھے۔ پھر وہ دن جب انہوں نے ایک ایک کرکے اپنے والد اور بھائیوں کو اپنے سامنے ازل کی وادی میں اترتے دیکھا تھا۔ سہالہ ریسٹ ہائوس کے دن، نظر بندی کے دن، سکھر میں عقوبت خانے میں گزارے ہوئے دن‘ جب وقت ٹھہر گیا تھا۔ اور پھر جلا وطنی کے دن جب وطن کی مٹی کی مہک اسے بلاتی تھی۔ اب جہاز کا دروازہ کھل چکا تھا۔ انتظار کی گھڑیاں ختم ہونے والی تھیں۔ لیکن دل کی دھڑکن ابھی تک بے ترتیب تھی۔ کیا ائیرپورٹ پر لوگ استقبال کے لیے پہنچ پائیں گے؟ کیا ان کی تعداد اتنی ہو گی کہ حکومت وقت پر اس کا دبائو پڑے؟ کیا دھمکی آمیز فون کال کے بعد میری آمد پر مجھے گرفتار کر لیا جائے گا؟ لیکن بے نظیر اس گرفتاری کے لیے تیار تھیں۔ ائیرپورٹ سے باہر لوگوں کا ہجوم تھا۔ بے نظیر نے کنٹینر پر کھڑے ہو کر دیکھا تاحدِ نگاہ لوگوں کا سیلاب تھا‘ جس کا کوئی کنارا نہ تھا۔ بے نظیر کو لاہور میں 1986ء کا استقبال یاد آ گیا‘ جب جلا وطنی سے واپسی پر لاہور ائیر پورٹ پر لاکھوں کا ہجوم امڈ آیا تھا۔ لیکن آج اہالیانِ کراچی نے ایک نئی تاریخ رقم کی تھی۔ لوگوں کی تعداد بلاشبہ لاہور کے اجتماع سے زیادہ تھی۔
بے نظیر کی آنکھیں فرطِ تشکر سے چھلک پڑیں ۔ ان کے ہاتھ بے اختیار فضا میں بلند ہوئے اور انہوں نے چھلکتی آنکھوں سے آسمان کی طرف دیکھا‘ اللہ تعالیٰ نے اس کی لاج رکھ لی تھی۔ جیالوں کا جوش دیدنی تھا۔ آج ان کی لیڈر، بھٹو کی بیٹی ان کے درمیان تھی۔ بچے، بوڑھے اور جوان، مرد، عورتیں اس جلوس کا حصہ تھے جو آہستہ آہستہ رینگ رہا تھا۔ اس کی منزل مزار قائد تھی جہاں جلسے کا اہتمام کی گیا تھا۔ بے نظیر نے لوگوں کے جمِ غفیر کو دیکھا تو انہیں یوں لگا‘ یہ ان کی جدوجہد کا ثمر ہے۔ لوگ اپنی لیڈر کو طویل جلا وطنی کے باوجود نہیں بھولے تھے۔ کنٹینر کے اردگرد پارٹی کے جیالوں کا حفاظتی حصار تھا۔ اس روز کراچی کی سڑکوں پر میلے کا سماں تھا۔ اب جلوس کارساز کے قریب پہنچ چکا تھا۔ اچانک ایک زوردار دھماکہ ہوا اور پھر دوسرا۔ ہر طرف چیخ و پکار مچ گئی۔ بھگدڑ میں لوگ سمت کا تعین کیے بغیر بھاگ رہے تھے۔ ان دھماکوں میں 140 افراد شہید ہو گئے اور سینکڑوں زخمی ہوئے۔ یہ بے نظیر کے لیے واضح پیغام تھا کہ اس نے واپس وطن آ کر کتنی بڑی غلطی کی ہے‘ لیکن بے نظیر ہمت ہارنے والی نہیں تھیں۔ ملک میں ایمرجنسی کا نفاذ کر دیا گیا تھا‘ جسے بے نظیر نے پاکستانی تاریخ کا سیاہ ترین دن قرار دیا اور اس کے خلاف تحریک چلانے کا اعلان کیا۔ حکومتِ وقت کو یہ گوارا نہ تھا۔ بے نظیر کو پھر نظربند کر دیا گیا تھا اور گھر کے اردگرد کے راستوں پر خاردار تاریں لگا دی گئی تھیں۔ عام انتخابات کے لیے 8 جنوری 2008 کی تاریخ مقرر کی گئی تھی۔ اپوزیشن کے شدید احتجاج پر ایمرجنسی اٹھا دی گئی اور بے نظیر نے الیکشن کی مہم کا آغاز کر دیا۔
اور پھر 27 دسمبر کا دن۔ اس روز بے نظیر نے لیاقت باغ میں جلسے کا اعلان کیا تھا۔ بے نظیر کو کھلے میدان میں لاکھوں کے مجمع سے خطاب میں ممکنہ خطرات کا علم تھا۔ سکیورٹی رپورٹس بھی اطمینان بخش نہیں تھیں۔ لیاقت باغ، جو کبھی کمپنی باغ تھا، جلسوں کا روایتی میدان تھا۔ یہی جگہ تھی جہاں وزیر اعظم لیاقت علی خان کو عین اس وقت گولی مار دی گئی تھی جب وہ ڈائس پر اپنی تقریر کا آغاز کر رہے تھے۔ اسی جگہ سے تین کلومیٹر کے قریب دور وہ جگہ تھی‘ جہاں بے نظیر کے والد ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دی گئی۔ یہ سب کچھ قومی حافظے کا حصہ تھا اور بے نظیر اس سے بخوبی آگاہ تھی لیکن یہ وقت میدانِ عمل میں آگے بڑھ کر لوگوں کی قیادت کرنے کا تھا۔ اس روز لیاقت باغ میدان اپنے کناروں سے چھلک رہا تھا۔ یہ علاقہ میری روز کی گزرگاہ تھا۔ جب میںگورڈن کالج میں پڑھتا تھا۔ وہیں لیاقت باغ میں ایک لائبریری ہوا کرتی تھی جہاں ہم جاکر بیٹھتے تھے۔ اس روز مجمع کا جوش دیدنی تھا۔ بے نظیر نے لوگوں کے سمندر پر نگاہ ڈالی اور ہاتھ اٹھا کر نعروںکا پرجوش جواب دیا۔ بے نظیر کے چہرے پر طمانیت اور مسرت نظر آ رہی تھی۔ بے نظیر نے تقریر میں دہشت پسندی کے حوالے سے اپنے دوٹوک موقف کا اعلان کیا۔ سٹیج پر ان کے دائیں بائیں راجہ پرویز اشرف اور امین فہیم کھڑے تھے۔ اس دن کی تقریر بے نظیر کی بہترین تقریروں میں ایک تھی۔ جلسہ کامیابی سے اختتام کو پہنچا تھا اور اب وہ چبوترے کی سیڑھیاں اتر رہی تھیں۔ یہ کُل چودہ سیڑھیاں تھیں۔ آٹھویں سیڑھی پر پہنچ کر وہ رک گئیں اور ہاتھ ہلا کر لوگوں کے نعروں کا جواب دیا۔ پھر وہ گاڑی میں بیٹھیں اور گاڑی چل پڑی۔ گاڑی سے باہر لوگ دیوانہ وار ہاتھ ہلا رہے تھے۔ بے نظیر گاڑی کی کھلی چھت سے لوگوں کے نعروں کا جواب دینے کے لیے کھڑی ہو گئیں۔ اسی دوران دو فائر ہوئے۔ دوسری گولی پر وہ گاڑی میں بیٹھی ناہید خان کی آغوش میں جا گریں۔ اس کے فوراً بعد زور دار دھماکہ ہوا۔ وہ قیامت کا منظر تھا۔ کان پڑی آواز نہیں سنائی دے رہی تھی۔ بے نظیرکے جسم سے تیزی سے خون نکل رہا تھا۔ انہیں فوری ہسپتال پہنچانا ضروری تھا لیکن گاڑی کے ٹائر پنکچر ہو چکے تھے۔ اس وقت ایک ایک لمحہ قیمتی تھا۔ بے نظیر بھٹو کے سانسوں کی مالا بکھر رہی تھی۔ (جاری)