یہ سفید دودھیا پرندے ہیں یا اڑتی ہوئی روشنیاں جو رات کی تاریکی کو منور کیے ہوئے ہیں۔ یہ کراچی ہے اور میں دو دریا میں واقع سمندری جہاز کی شکل کے ایک ریستوران میں بیٹھا ہوں۔ کراچی آنا ہو تو یہاں ضرور آتا ہوں۔ لکڑی کے بنے ہوئے اس ریستوران میں سمندری جہاز کی طرح کئی منزلیں ہیں۔ ہر بار میری کوشش ہوتی ہے کہ سمندر کے قریب والی جگہ ملے۔ اکثر شکیل عادل زادہ کا ساتھ میسر ہوتا ہے‘ وہی سب رنگ اور بازی گر والے شکیل عادل زادہ۔ یہاں بیٹھ کر ہم دنیا جہاں کی باتیں کرتے ہیں۔ ہمارے قریب، بالکل قریب سمندر کا پانی اور اوپر سفید پرندوں کی بے تاب اڑانیں ہوتی ہیں۔ لیکن آج کا دن مختلف ہے‘ آج میرے ہمراہ شکیل عادل زادہ نہیں۔ ہوا میں خنکی معمول سے زیادہ ہے اور میں اکیلا میز پر بیٹھا ہوں۔ آج ہی کراچی پہنچا ہوں۔ اڑتے ہوئے سفید پرندوں کو دیکھ کر مجھے وہ دن یاد آنے لگے‘ جب میں نیا نیا کراچی آیا تھا۔ تب دو دریا ریستوران کی یہ قطاریں نہیں تھیں صرف سمندر کے پاس ایک بڑا ریستوران ہوا کرتا تھا۔ میں ملیر کینٹ میں رہتا تھا اور ہر روز یونیورسٹی روڈ سے ہوتا ہوا کریم آباد میں آغا خان یونیورسٹی کے انسٹی ٹیوٹ فار ایجوکیشنل ڈویلپمنٹ جایا کرتا تھا۔ 1996ء سے 1999ء تک تین سال میرا یہی معمول رہا۔ وہ ہڑتالوںکا دور تھا۔ جب ایک کال پر شہر کی تمام دکانیں بند ہو جاتی تھیں اور سڑکوں پر ہُو کا عالم ہوتا تھا۔ ہم سوچتے تھے‘ روشنیوں کے شہر کراچی کو کس کی نظر لگ گئی ہے۔ آج کراچی آیا تو ایک عرصے بعد انسٹی ٹیوٹ جانے کا اتفاق ہو۔ پرانی چھوڑی ہوئی جگہوں پر جانا ایک عجیب سا تجربہ ہوتا ہے۔ راستے اور عمارتیں ویسی ہی رہتی ہیں لیکن وہ لوگ جن کے ہمراہ آپ نے وقت گزارا ہوتا ہے وہاں نہیں ہوتے۔ میں ان راہداریوں اور کمروں کو دیکھ رہا ہوں اور ان چہروں کو یاد کر رہا ہوں جن کے دم سے یہ عمارت آباد تھی۔ پھر میں سوچتا ہوں‘ لوگ تو آتے جاتے رہتے ہیں لیکن یہ گرمئی بازار کم نہیں ہوتی۔ کل مجھے حبیب یونیورسٹی جانا ہے‘ جو کراچی کے تعلیمی منظرنامے میں ایک منفرد اضافہ ہے۔ اس کے پریزیڈنٹ واصف رضوی ہیں۔ واصف سے میری دوستی لگ بھگ 25 سال پرانی ہے۔ واصف کا شمار تعلیم کے میدان میں چند انتہائی ذہین اور کثیرالمطالعہ افراد میں ہوتا ہے۔ وہ ہارورڈ سے فارغ التحصیل ہیں۔ جدت اور ندرتِ فکر ان کی شخصیت کو دوسروں سے منفرد بناتی ہے۔ مجھے یاد ہے کہ یونیورسٹی کے قیام سے پہلے کیسے ایک طویل عرصہ واصف کے شب و روز اس کی پلاننگ میں گزرے۔ میں نظر اٹھا کر سطحِ سمندر سے ذرا اوپر اڑتے ہوئے روشنیوں جیسے پرندوں کو دیکھتا‘ اور سوچتا ہوں خیال کی رفعت بھی ان دودھیا پرندوں کی طرح امکان کے دریچوں کو منور کر دیتی ہے۔ مجھے زیادہ دیر اکیلے نہیں بیٹھنا پڑا کچھ ہی دیر بعد میرے دوست آ گئے۔ ان میں سے دو کا براہِ راست تعلق تعلیم سے ہے اور انہیں میں ایک عرصے سے جانتا ہوں‘ لیکن ان کے ہمراہ آنے والے عمران سے یہ میرا پہلا تعارف تھا۔ پھر کچھ ہی دیر میں مجھے یوں لگا کہ اسے ایک عرصے سے جانتا ہوں۔ اس کا فشری کے شعبے سے تعلق تھا۔ اس نے بتایا کہ کیسے وہ اپنی فیملی کے ہمراہ اپنی گاڑی میں ڈرائیونگ کرتا ہوا کراچی سے ملتان، لاہور، اسلام آباد، مری، مظفر آباد، اور کالا باغ گیا اور پھر انہی راستوں سے ہوتا ہو پچھلے ہفتے ہی کراچی واپس لوٹا ہے۔
ہوا میں خنکی بڑھ گئی تھی اور سمندر کی ہوا سے ٹھنڈک کا اثر زیادہ ہو گیا تھا۔ آج شعروادب کے بجائے ہمارے موضوعات مختلف تھے‘ جن میں پاکستان کی معیشت سر فہرست تھی۔ عمران صاحب بتا رہے تھے کہ چین اب Sea Food کی بڑی مارکیٹ بن گیا ہے۔ ہمیشہ کی طرح ریستوران کا کھانا آج بھی بہت اچھا تھا۔ اس کی ایک وجہ ریستوران کا کوالٹی کنٹرول اور فیڈبیک کا موثر نظام ہے۔ کھانے کی میز سے گاڑی میں بیٹھنے تک دو سے تین بار ہوٹل کا ایک نمائندہ کھانے اور سروس کے بارے میں پوچھتا ہے۔ اب سمندر کی ہوا تیز ہو رہی تھی۔ ہم وہاں سے اٹھے تو عمران کہنے لگا: ایک دنیا دو دریا پر ریستورانوں کی ہے‘ اب میں آپ کو ایک مختلف دنیا میں لے کر جائو رہا ہوں۔ میں دل ہی دل میں اندازہ لگا رہا تھا کہ یہ نئی دنیا کونسی ہو گی۔ کچھ ہی کلومیٹرز بعد عمران نے گاڑی کو بریک لگائی۔ میں نے دیکھا‘ سڑک کے بائیں طرف کھلا میدان تھا اور دائیں طرف رنگ برنگے چائے کے ڈھابوں کی جھلمل کرتی قطار تھی۔ عمران نے بتایا‘ یہ خیابانِ صبا ہے اور اس علاقے کو ہم چھوٹا بخاری کہتے ہیں۔ میں نے دیکھا ان چائے کے ڈھابوں کے سامنے کھلی جگہ پر پلاسٹک کی کرسیوں پر لوگوں کی ایک کثیر تعداد بیٹھی تھی۔ اس میں ہر عمر کے لوگ تھے نوجوان، بوڑھے، مرد اور عورتیں۔ اور پھر دوست احباب اور فیملیز۔ میں نے چائے کے ڈھابوں کا اتنا خوبصورت جمگھٹ ایک جگہ پر کہیں نہیں دیکھا تھا۔ ڈھابوں کے کیسے کیسے دلچسپ نام تھے۔ چائے والا، چائے شائے، چھوٹو چائے والا، اولڈ سکول کنسرن، برینٹوز، افغانش، کلاوڈنان، چائے سیشن، دیسی گلی۔ اور پھر آرٹ کے مختلف نمونے ٹرک آرٹ جس میں نمایاں تھے۔ پرانی فلموں کے اداکاروں کی تصویروں کی پینٹنگ، مولا جٹ کے ایکشن۔ ہم ''چائے والا‘‘ کے ڈھابے پر چلے گئے۔ ان کا سلوگن ہے ''پیو مگر پیار سے‘‘ ڈھابے کے کاروبار میں اب پڑھے لکھے نوجوان بھی دلچسپی لے رہے ہیں۔ یوں کراچی کے چائے کے دیرینہ کلچر میں اب جدت کے رنگ گھل مل گئے ہیں۔ چائے کی مختلف قسمیں ہیں، دودھ پتی،کشمیری چائے، قہوہ، اور پھر انواع و اقسام کے نان اور پراٹھے۔ گاہکوں کی تفریح طبع کے لیے لڈو اور تاش مفت میسر ہیں۔ مستعد ویٹر اِدھر سے اُدھر بھاگ دوڑ میں مصروف ہیں۔ انہیں میں میری ملاقات لیاقت اور عبدالرحمن سے ہوئی۔ ایک کا تعلق پشاور اور دوسرے کا سکردو سے تھا۔ انہیں اپنے گھروں سے بہت دور کراچی کے دامن میں پناہ ملی تھی۔ اس وقت آدھی رات ہو چکی تھی۔ لیاقت اور عبدالرحمن کے گھر والے میٹھی نیند سو رہے ہوں گے۔ انہیںکیا خبر کہ ان کے جگر گوشے بہت دور ایک مصروف سڑک پر ایک میز سے دوسری میز تک کا نہ ختم ہونے والا سفر طے کررہے ہیں۔ میں نے لیاقت سے پوچھا: تم سکول میں پڑھتے ہو؟ تو اس نے بتایا: شروع میں سکول جاتا تھا لیکن پھر سکول چھوڑنا پڑا‘ لیکن اب کچھ پیسے کما لیتا ہوں۔ گاہک بھی ٹپ دے دیتے ہیں۔ ہر مہینے گھر پیسے بھیجتا ہوں۔ میں نے ماں سے کہا ہے کہ چھوٹے بھائی کو ضرور سکول میں پڑھانا ہے۔ عبدالرحمن کی کہانی بھی اس سے ملتی جلتی ہے۔ اس عمر میں ہی وہ خاصا سنجیدہ ہے۔ وہ بھی ہر مہینے پیسے اپنے گھر بھیجتا ہے۔ لیاقت اور عبدالرحمن کے چہرے پر محنت کی روشنی ہے وہ اپنی ضرورتوں کے لیے دستِ طلب دراز نہیں کرتے۔ انہیں یقین ہے کہ ان کی راتوں کا جاگنا‘ ان کے چھوٹے بہن بھائیوں کی زندگی آسان کر دے گا۔ میں نے سینکڑوں کی تعداد میں بیٹھے لوگوں کو دیکھا‘ جن میں سندھی، بلوچی، پٹھان آزاد کشمیر، گلگت بلتستان سے تعلق رکھنے والے شخصی لوگ موجود تھے۔ وہ سب ایک جگہ بیٹھے چائے سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔ یہ ڈھابے صبح کے تین بجے تک ایسے ہی کھلے رہتے ہیں۔ لوگوں کو سستی تفریح مہیا کرتے ہیں۔ ہم چاروں پلاسٹک کی کرسیوں پر بیٹھ گئے۔ سامنے ٹیبل پر بھی دیسی آرٹ کے نقوش تھے۔ کچھ ہی دیر میں کانچ کے چھوٹے گلاسوں میں چائے آ گئی۔ آدھی رات ہو چکی تھی لیکن یہاں گرمئی بازار کا وہی عالم تھا۔ لوگ چائے پی رہے اور باتیں کر رہے تھے۔ ایک سرشاری کی کیفیت تھی۔ میں سوچتا ہوں‘ چھوٹی چھوٹی معصوم خوشیاں بانٹنے میں چائے کے ان ڈھابوں کا بھی حصہ ہے‘ جہاں بے فکری مسرت اور یگانگت کے رنگ آپس میں مل گئے۔ ہماری آنکھوں میں اب نیند گُھل رہی تھی۔ کراچی کی مہربان رات دھیر ے دھیرے ڈھل رہی تھی۔