"SSC" (space) message & send to 7575

ساحرلدھیانوی: گیتوں کا جادوگر

اس روز میں کراچی سے اسلام آباد آنے کے لیے ائیرپورٹ لائونج میں بیٹھا تھا۔ ابھی فلائٹ جانے میں کچھ وقت تھا۔ میرے بالکل سامنے کتابوں کی چھوٹی سی دکان تھی‘ جس میں انگریزی کے رسالے اور انگریزی میں لکھی ہوئی نئی کتابیں رکھی تھیں۔ ایک کونے میں اردو کی کتابیں تھیں۔ انہیں میں سے ایک کتاب ''تلخیاں‘‘ تھی۔ اس کتاب سے مجھے اپنے ہائی سکول کا زمانہ یاد آ گیا۔ ساحر سے میرا تعارف اس وقت ہوا جب میں راولپنڈی اور لال کرتی کے ہائی سکول میں پڑھتا تھا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب تعلیمی اداروں میں بیت بازی اور مشاعرے ایک معمول کی بات تھی۔ ساحر کی کتاب ''تلخیاں‘‘ ہم دوستوں کی پسندیدہ کتاب ہوا کرتی تھی۔ مجھے یاد ہے اس نے مقبولیت کے نئے ریکارڈ قائم کر دیے تھے۔ کتاب میں کوئی خاص بات تھی جس نے پڑھنے والوں کو اپنے سحر میں گرفتار کر لیا تھا۔ کتاب کا آغاز ہی اس شعر سے ہوتا تھا:
دنیا نے تجربات و حوادث کی شکل میں 
جو کچھ مجھے دیا ہے وہ لوٹا رہا ہوں
میں سوچا کرتا وہ کون سے تجربات تھے جس نے ساحر کی شاعری میں تلخی کا رنگ بھر دیا ہے۔ اس کے لیے ضروری تھا کہ اس کی زندگی کے سفر کو ابتدا سے دیکھا جائے۔ بہت سے لوگوں کے لیے یہ ایک نئی بات ہو گی کہ ساحر کا اصلی نام عبدالحیٔ تھا جو اس کی پیدائش پر رکھا گیا۔ ساحر کے والد فضل محمد لدھیانہ کے ایک بڑے جاگیردار تھے جس کا رعب اور دبدبہ دور دور تک تھا‘ لیکن سب کچھ ہونے کے باوجود کسی چیز کی کمی تھی۔ فضل محمد کا کوئی بیٹا نہیں تھا جو ان کی جائیداد کا وارث ہوتا۔ فضل محمد صاحب نے متعدد شادیاں کیں۔ سردار بیگم ان کی گیارہویں بیگم تھیں جن سے ساحر لدھیانوی پیدا ہوا۔ یہ ان کی زندگی میں بہت بڑی خوشی کا دن تھا کہ جاگیر کا وارث پیدا ہو گیا تھا لیکن قدرت کو کچھ ہی منظور تھا۔ ساحر کے والد فضل محمد ایک روایتی جاگیردار تھے۔ ان کا اپنی بیویوں سے سلوک مناسب نہیں تھا۔ ساحر کی والدہ سردار بیگم کے لیے یہ صورتحال ناقابل قبول تھی۔ آخر کار بات طلاق تک آ پہنچی۔ والد ساحر کو اپنے پاس رکھنا چاہتے تھے‘ ساحر جو بڑی دعائوں کے بعد ان کو ملا تھا اور جس نے ان کی جاگیر کا وارث ہونا تھا۔ ساحر کیلئے یہ زندگی کا مشکل ترین فیصلہ تھا۔ ایک طرف باپ کی جاگیر تھی جس کے حصول کے بعد وہ ساری عمر عیش و آرام کی زندگی گزار سکتا تھا اور دوسری طرف ماں سردار بیگم تھی جس کے پاس دنیاوی دولت تو نہیں تھی لیکن محبت اور پیار کا خزانہ تھا۔ ساحر نے عدالت کے رو برو باپ کے ساتھ جانے سے انکار کر دیا اور ماںکا ہاتھ تھام لیا۔ ماں ساحر کی کمزوری تھی۔ وہ شہرت کی بلندیوں پر پہنچ گیا تو ماں کے سامنے ایک بچے کی طرح ہوتا۔ وہ دن میں کئی بار ماں سے نہ مل لیتا تو اسے چین نہ آتا۔ دلچسپ بات ہے کہ ساحر کو جب مختلف شہروں میں مشاعر ے میں بلایا جاتا تو گاڑی میں وہ اپنی ماں کو ساتھ لے کر جاتا۔ پڑھنے کی عمر ہوئی تو ساحر کو لدھیانہ کے خالصہ سکول میں داخل کرایا گیا۔ سکول کے بعد گورنمنٹ کالج لدھیانہ میں داخلہ ہو گیا‘ لیکن یہاں ایک سال ہی گزارا تھا کہ 1943ء میں کالج کی انتظامیہ نے ڈسپلن کی خلاف ورزی پر اسے کالج سے نکال دیا۔ کالج کی مینجمنٹ کو کیا معلوم تھا کہ یہی طالب ایک دن ان کے لیے نیک نامی کا باعث ہو گا۔ بعد میں جب وہ بر صغیر کے مشہور شاعر بن چکے تھے‘ انہیں کالج کی ایک تقریب میں بلایا گیا‘ جہاں انہوں نے اپنی نظم ''نذرِ کالج‘‘ پڑھی اب اس کالج کے آڈیٹوریم کا نام ''ساحر آڈیٹوریم‘‘ ہے۔
1947ء میں ساحر اپنی والدہ کے ہمراہ لاہور آ گئے۔ لاہور میں انہوں نے کئی معروف ادبی رسالوں ادبِ لطیف، شاہکار اور سویرا کے لیے کام کیا۔ 1949ء کی بات ہے‘ سویرا میں چھپنے والی ان کی ایک تحریر پر ان کی گرفتاری کے وارنٹ جاری ہو گئے۔ ساحر چھپتے چھپاتے سرحد پار چلے گئے اوربمبئی جا پہنچے‘ جہاں ایک نئی دنیا ان کی منتظر تھی۔ وہ ابھی لاہور میں تھے کہ ان کی کتاب ''تلخیاں‘‘ شائع ہوئی تھی۔
یہ ایک مختلف طرح کی شاعری تھی‘ گل و بلبل اور زلف و رخسار سے ہٹ کر۔ یہ کتاب سماجی نا انصافیوں اور جنگ کی تباہ کاریوں کے خلاف ایک صدائے احتجاج تھی۔ کتاب کی مقبول نظموں میں ''تاج محل‘‘ شامل تھی۔ تاج محل پر نظم و نثر میں بہت کچھ لکھا گیا لیکن یہ زاویۂ نگاہ سے شاید ہی کسی ادیب نے لکھا ہو۔ نظم کی یہ سطریں ''اک شہنشاہ نے دولت کا سہارا لے کر، ہم غریبوں کی محبت کا اڑایا ہے مذاق‘‘ امر ہوچکی ہیں۔ ایک اور نظم ''ثنا خوانِ تقدیس مشرق کہاں ہیں‘‘ کمزوروں اور زورآوروں کے درمیان فرق پرایک بھرپور احتجاج ہے۔ ''پرچھائیاں‘‘ ساحر کی ایک اور یادگار نظم ہے‘ جس میں جنگ کی ہولناکیوں اور جنگ کے سماجی اور معاشی اثرات کو موضوعِ سخن بنایا گیا ہے۔ نظم کا اختتام ان سطروں پر ہوتا ہے۔
گزشتہ جنگ میں گھر ہی جلے مگر اس بار
عجب نہیں ہے کہ یہ تنہائیاں بھی جل جائیں
گزشتہ جنگ میں پیکر جلے مگر اس بار
عجب نہیں ہے کہ یہ پرچھائیاں بھی جل جائیں
شعروسخن کے آسمان پر اس وقت جوش، فراق، فیض اور مجازکی شاعری کے رنگ بکھرے تھے۔ ساحر نے اپنی شاعری کا آہنگ منفرد رکھا۔
1949ء میں جب وہ پاکستان سے دہلی اور پھر بمبئی گئے تو اسی سال ایک فلم ''آزادی کی راہ پر‘‘ گیت لکھنے کی پیشکش ہوئی لیکن نہ تو یہ فلم نہ ہی ساحر کے گیت مقبول ہوئے۔ ساحر کو اصل کامیابی گرو دت کی فلم ''بازی‘‘ سے ملی۔ اس کے بعد شہرت کی بلندیاں اس کے قدم چومنے لگیں۔ 1964ء میں فلم تاج محل میں ساحر کے گیتوں نے مقبولیت کے نئے ریکارڈ قائم کیے ''جو وعدہ کیا وہ نبھانا پڑے گا‘‘ اس فلم میں ساحر کو بطور نغمہ نگار فلم فیئر ایوارڈ دیا گیا۔ 1971ء میں ساحر کو بھارت کا بڑا سول ایوارڈ ''پدم شری ایوارڈ‘‘ ملا۔ اور پھر ''کبھی کبھی‘‘ فلم کے لازوال گیت جو خیام کی موسیقی کے ساتھ امر ہو گئے۔ ساحر کو ایک بار پھر نغمہ نگاری پر فلم فیئر ایوارڈ دیا گیا۔ یوں تو ان فلموں کی فہرست طویل ہے جن میں ساحر نے اپنے گیتوں کا جادو جگایا لیکن چند فلموں کا ذکر ضروری ہے جن میں نیا دور، پیاس، پھر صبح ہو گی، دھول کا پھول، گمراہ، وقت اور کبھی کبھی شامل ہیں۔
ساحر کا کمال یہ ہے کہ ان کی شاعری اور ان کی نغمہ نگاری کی حدیں ملی ہوئی ہیں۔ ان کے گیت اپنی نغمگی، اپنی شاعری اور اپنے پیغام کے حوالے سے ان کی سنجیدہ شاعری سے کسی طور کم نہیں۔ ساحر کی نظر میں اپنے ذاتی تجربات اور مشاہدات کی روشنی میں معاشرے میں نا انصافیوں کا بڑا سبب دولت کی غیر منصفانہ تقسیم تھی۔ ان کے گیتوں میں مزاحمت کا پیغام ہے‘ جدوجہد کی تلقین ہے۔
پونچھ کر اشک اپنی آنکھوں سے مسکرائو تو کوئی بات ہے
سر جھکانے سے کچھ نہیں ہوتا سر اٹھائو تو کوئی بات ہے 
زندگی بھیک میں نہیں ملتی زندگی بڑھ کے چھینی جاتی ہے
اپنا حق سنگ دل زمانے سے چھین پائو تو کوئی بات ہے
ساحر کا ذکر امرتا پریتم کے بغیر نا مکمل ہے۔ امرتا پریتم خود پنجابی کی ایک معروف شاعرہ تھیں۔ ساحر کیلئے ان کی محبت کا ذکر امرتا پریتم کی سوانح عمری ''رسیدی ٹکٹ‘‘ میں ملتا ہے۔ امرتا کے علاوہ ساحر اس زمانے کی گلوکارہ سدھا ملہوترا سے متاثر تھے۔ دلچسپ بات یہ کہ ساحر کے چند بہترین گانے سدھا ملہوترا کی آواز میں ہیں‘ لیکن ساحر کی زندگی میں ایک خالی پن تھا۔ ایک بے نام سی اداسی تھی جو آخر دم تک اس کے ہمراہ رہی۔ اس نے ساری عمر شادی نہیں کی۔ کبھی وہ اپنی زندگی کے ادھورے پن پر سوچتا تو اس کے ذہن میں کئی سوال جاگ اٹھتے‘ پھر ان میں سے کئی سوال اس کے گیتوں میں ڈھل جاتے۔ انہیں سوالوں میں ایک سوال تھا:
جانے وہ کیسے لوگ تھے جن کے پیار کو پیار ملا
ہم نے تو جب کلیاں مانگیں کانٹوں کا ہار ملا

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں