برصغیر میں مزاحمت کی تاریخ دیکھیں تو کتنے ہی روشن چہرے سامنے آ جاتے ہیں‘ جنہوں نے آزادی کی خاطر اپنا سب کچھ لُٹا دیا۔ یہ اُنہی روشن چہروں میں سے ایک کردار کی کہانی ہے‘ جس کا نام مولوی محمد جعفر تھانیسری تھا۔ یہ اُس زمانے کا ذکر ہے جب سید احمد شہید نے سکھوں کے خلاف علمِ بغاوت بلند کیا تھا اور تجدید دین کے لیے جان نثاروں کا ایک قافلہ تیار کیا تھا لیکن اس قافلے کا سفر 6 مئی 1831کو بالاکوٹ کے مقام پر رُک گیا تھا‘ جہاں سید احمد شہید اور شاہ اسمٰعیل اپنے خالقِ حقیقی سے جاملے تھے۔ بظاہر یہ سفر تمام ہو گیا تھا لیکن حقیقت میں ایسا نہیں تھا۔ سید احمد شہید کی فکر نے نوجوانوں کی ایک کثیر تعداد کو متاثر کیا تھا۔ محمد جعفر ایک ایسا ہی نوجوان تھا جس کی پیدائش معرکۂ بالاکوٹ سے ٹھیک سات برس بعد 1838میں قصبہ تھانیسر ضلع انبالہ میں ہوئی۔ وہ سید احمد شہید کی تعلیمات کا پیروکار تھا۔ اس کے اندردینِ اسلام کے لیے کچھ کرگزرنے کی تڑپ تھی۔ اس نے نوجوانی کی حدود میں قدم رکھا ہی تھاکہ 1857ء کی جنگِ آزادی کا طبل بجنے لگا۔ نوجوان محمد جعفر فرنگیوں کے خلاف سب سے بڑی جنگ کا حصہ بن گیا۔ لوگوں کا جوش اور جذبہ دیدنی تھا۔ اس جنگ میں ہندوستان کے سبھی لوگ شامل تھے مسلمان، ہندو، سکھ۔ یوں لگتا تھا تاجِ برطانیہ اب گرا کہ گرا‘ لیکن ایک طرف محض جذبہ اور قربانی کی تڑپ تھی اوردوسری جانب تربیت یافتہ فوج، جدیداسلحہ، مرکزی حکمرانی اور بہتر وسائل تھے۔
جنگِ آزای میں بظاہر جیت تاجِ برطانیہ کی ہوئی لیکن ہندوستان میں فرنگیوں کی حکومت کی چُولیں ہل گئی تھیں۔ یہی وجہ ہے کہ آزادی کے متوالوں کو انگریزوں کے انتقام کا نشانہ بننا پڑا۔ لوگوں کی ایک کثیر تعداد کو سرِعام درختوں سے لٹکا کر پھانسی دی گئی۔ سینکڑوں کے حساب سے لوگوں کو جیلوں میں بند کر دیا گیا‘ اور پھر جزائر انڈمان کا عقوبت خانہ، جسے کالا پانی بھی کہتے ہیں، حریت پسندوں کیلئے کھول دیا گیا۔ مولوی محمد جعفر تھانیسری جیسے نوجوان جنگِ آزادی کے بعد دل برداشتہ تو ہوئے لیکن اُنہوں نے ہمت نہ ہاری۔ وہ کسی نہ کسی شکل میں انگریزوں کے خلاف صف آرا کسی بھی مزاحمتی گروپ کو مدد دینے کے لیے تیار رہتے تھے۔ مولوی محمد جعفر کے بچپن ہی میں ان کے والد اللہ کو پیارے ہوگئے تھے۔ ان کی ابتدائی تعلیم کا آغاز دیر سے ہوا اور پھر وہ عرائض نویس بن گئے۔ وکیلوں اور عدالتوں سے ان کا رابطہ ان کیلئے بہت مفید ثابت ہواکہ وہ قانون کی باریکیوں کو سمجھنے لگے۔ وہ اپنے گاؤں کے نمبردار بھی تھے۔ ان کی جائیداد وسیع تھی اور کثیرتعداد میں لوگ ان کی رعیت میں شامل تھے۔ ان دنوں سرحدوں پرمجاہدین انگریزوں کیلئے دردِ سر بنے ہوئے تھے۔ مولوی محمد جعفران مجاہدین سے رابطے میں تھے اوردرپردہ ان کی مالی امداد بھی کرتے تھے۔
ایک روزاُنہوں نے مجاہدین کے نام ایک خط لکھا اور اس میں اشاروں اشاروں میں ان اشرفیوں کا ذکر کیا جو وہ انہیں بھیج رہے تھے۔ نہ جانے کیسے پولیس کو خبر ہوگئی۔ ان کے گھر کی تلاشی لی گئی اور کوٹ کی جیب سے وہ خط برآمد ہو گیا‘ جو مجاہدین سے اِن کے رابطے کا براہِ راست ثبوت تھا۔ پولیس وہ خط لے کر چلی گئی۔ گھروالوں اور دوست احباب نے اُنہیں مشورہ دیا ان کی گرفتاری کا سامان ہورہا ہے اس لیے بہترہے کہیں روپوش ہو جائیں۔ وہ 12دسمبر کا سرد دن تھا جب وہ اپنے گاؤں سے انبالہ اور پھرپانی پت اور دہلی سے ہوتے ہوئے علی گڑھ پہنچ گئے۔اس وقت ان کی عمر 25سال تھی۔
اگلے دن جب پولیس ان کے گھر پہنچی تو اُنہیں گھر نہ پاکر قیامت برپاکر دی۔گھر کے تمام افراد کو بہیمانہ تشدد کا نشانہ بنایا گیا‘ حتیٰ کہ ان کے چھوٹے بھائی‘ جس کی عمر بارہ تیرہ سال تھی‘ پر اس حد تک تشددکیا گیاکہ اس نے زبان کھول دی۔ اس ساری مہم کی قیادت انگریز افسر پارسن کررہا تھا۔ ادھر خبر ملنے پر مولوی محمد جعفر تھانیسری کو گرفتار کر لیا گیا۔ اگلے ہی روز پارسن علی گڑھ پہنچ گیا۔ مولوی جعفرکو پھانسی گھر میں رکھا گیا تھا اور ان پر تین تین پہرے لگائے گئے تھے‘ لیکن پارسن کو یہ سزاکافی نہ لگی۔ وہ چاہتا تھاکہ مزاحمت کرنے والے اس نوجوان کوعبرت کا نشان بنایا جائے۔ اگلے روز مولوی جعفرتھانیسری کے پاؤں میں بیڑیاں پہنائی گئیں، ہاتھوں میں ہتھکڑی لگائی گئی، گردن میں طوق ڈالا گیا اور پھر اس طوق میں ایک زنجیر ڈال کراس کاایک سرا ایک سپاہی کے ہاتھ میں دیا گیا۔ جب انہیں جیل سے عدالت لے جایا گیاتو ان کے ایک طرف پارسن اور دوسری طرف ایک پولیس انسپکٹربیٹھ گئے دونوں کے ہاتھ میں بھرے ہوئے پستول تھے۔
عدالت میں گواہی کیلئے دباؤ ڈال کر پچاس کے قریب گواہ تیار کیے گئے تھے‘ حتیٰ کہ ان کے چھوٹے بھائی سعید کو بھی مولوی جعفر تھانیسری کے خلاف تیار کیا گیا جو بعد میں اپنے بیان سے مکر گیا۔ مولوی جعفر اور ان کے ساتھیوں کا وکیل مسٹر پلوڈن تھا جس نے بنیادی نکتہ اُٹھایاکہ جس سرحد پر جنگ ہورہی ہے اور جس کی امداد کاالزام مولوی جعفر اور ان کے ساتھیوں پر ہے‘ وہ تاجِ برطانیہ کی عملداری میں نہیں آتی۔ یہ ایک اہم قانونی نکتہ تھا‘ لیکن عدالت توانہیں سزا دینے کا تہہ کیے ہوئے تھی۔ مولوی جعفر صاحب نے ایک درجن گواہوں کے بلانے کی اجازت چاہی لیکن اس درخواست کومسترد کر دیا گیا۔ اس پیشی کے بعد کافی مدت گزرگئی۔ آخر 2 مئی 1864ء کو عدالت کی حتمی پیشی تھی جس میں جج نے لکھا ہوا فیصلہ سنانا شروع کیا۔ اس مقدمے کی روداد Selection from Bengal Government Record on Wahabi Trials میں موجود ہے۔ فیصلے میں تین لوگوں کوپھانسی اور آٹھ کوعمر قید سنائی گئی۔ پھانسی پانے والوں میں مولوی جعفر بھی شامل تھے۔ عدالت میں آئے لوگ اشکبار تھے۔ مولوی جعفر اور ان کے ساتھیوں کو گیروا لباس پہناکر جیل خانہ میں بنے تین علیحدہ پھانسی گھروں میں منتقل کردیا گیا۔
اب اپیل کا مرحلہ تھا جس میں مسٹر پلوڈن نے پھرسے سرکاری عملداری کا اہم نکتہ اُٹھایا۔ اس سماعت کے بعد پھر طویل انتظار‘ 2 مئی تا 16ستمبر۔ عربی کا مقولہ ہے کہ انتظار موت سے بھی شدید ہوتا ہے۔ انتظار کی اذیت میں اس وقت اور بھی اضافہ ہو جاتا جب وہ یہ دیکھتے کہ ان کی پھانسی کی تیاریاں ہو رہی ہیں۔ تین نئے رسے منگوا لیے گئے ہیں۔ وہ سولہ ستمبر کا دن تھا جب ڈپٹی کمشنر پھانسی گھروں میں آیا اور فیصلہ سُنایا کہ ان کی پھانسی کی سزا تبدیل کرکے کالا پانی کی سزا دی گئی ہے۔ اس زمانے میں کالاپانی کے ذکر سے بدن میں خون خشک ہوتا تھا۔ یہ دراصل انڈمان کے جزائر تھے‘ جہاں مہذب زندگی کا کوئی دخل نہیں تھا۔ تاجِ برطانیہ کے خطرناک مجرموں کو کالاپانی کی سزادی جاتی۔ سزا سنانے کے فوراً بعد ان کے سر کے بال، داڑھی اور مونچھیں مونڈ دی گئیں۔ کالا پانی میں آمد پر انہوں نے جو دیکھا اپنی سوانح عمری کالا پانی (تواریخِ عجیب) میں بیان کرتے ہیں ''جب ہم اس جزیرے میں پہنچے ہزاروں مرد عورت قیدیوں کو دیکھا کہ ماتھا ان کا کھود کر پیشانی پر ان کا نام اور جرم اور لفظ دائم الحبس لکھا ہوا ہے کہ وہ نوشت مثلِ نوشتۂ تقدیر کے تمام عمر نہیں مٹتی‘‘ کالاپانی میں مولوی جعفر کی قید 18سال پر محیط تھی۔ کالا پانی میں زندگی کے 18بہترین سال تاجِ برطانیہ کے خلاف مزاحمت کی قیمت تھی۔ کالا پانی کی قید نفسیاتی سطح پر انسان کو توڑ دیتی ہے اور پھر 18سال کوئی کم مدت نہیں ہوتی‘ لیکن آزادی کے جذبے کو کسی دھمکی سے سرد نہیں کیا جا سکتا۔ جب مولوی جعفر تھانیسری کی رہائی ہوئی اور وہ واپس انبالہ آئے تو جیسے دنیا ہی بدل چکی تھی‘ اٹھارہ سال کی مدت بہت ہوتی ہے۔ نہ وہ جائیدادرہی تھی نہ ہی رعایا کی فوج۔ ان کا نوجوان بیٹا صادق وفات پا چکا تھا۔ رہے نام اللہ کا۔ لیکن مولوی جعفر صاحب کے دل میں طمانیت کی ایک کونپل تھی جس کی خوشبو انہیں ہروقت اپنے حصار میں لیے رکھتی تھی۔ جب بھی کالاپانی کا ذکر ہوتا وہ کہا کرتے: اٹھارہ سال تو کیا آزادی کی جدوجہد میں میری پوری زندگی بھی چلی جائے تو کم ہے۔ برصغیر میں مزاحمت کی تاریخ دیکھیں تو کتنے ہی روشن چہرے سامنے آ جاتے ہیں‘ جنہوں نے آزادی کی خاطر اپنا سب کچھ لُٹا دیا۔ یہ اُنہی روشن چہروں میں سے ایک کردار کی کہانی ہے جس کا نام مولوی محمد جعفر تھانیسری تھا۔