آج یونہی اسلام آباد میں اپنے گھر کے ٹیرس پر بیٹھے بیٹھے مجھے راولپنڈی میں دھن راج سہگل اور بدھا بائی کی سہگل حویلی یاد آ گئی‘ جسے اب دنیا لال حویلی کے نام سے جانتی ہے۔ یہی اپریل کا مہینہ تھا اور ایسی ہی ہلکی ہلکی بارش ہو رہی تھی جب میں نے سہگل حویلی کو پہلی بار دیکھا اور اس کے ساتھ جڑی ہوئی بدھا بائی کی کہانی سے آشنا ہوا تھا۔ یہ محبت کی ایک انوکھی کہانی تھی جس کا ایک کردار دھن راج سہگل تھا۔ دھن راج کا تعلق پوٹھوہار کے شہر جہلم سے تھا۔ اس کے خاندان کا شمار خوشحال گھرانوں میں ہوتا تھا۔ دھن راج نے قانون کی تعلیم حاصل کی اور بیرسٹر بن گیا۔ یہ قیامِ پاکستان سے پہلے کا ذکر ہے‘ جب ایک بیرسٹر کا معاشرے میں اعلیٰ مقام ہوتا تھا۔ اس زمانے میں امیروں کی شادیاں بھی بڑے پیمانے پر ہوتی تھیں۔ ایک روز دھن راج کو ایک ایسی ہی شادی میں شرکت کی دعوت ملی۔ شادی کی یہ تقریب سیالکوٹ میں تھی اور بیرسٹر دھن راج کو اس میں شرکت کی تاکید کی گئی تھی۔ دھن راج جب شادی میں شرکت کیلئے سیالکوٹ جا رہا تھا تو اس کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھاکہ یہ سفراس کی ساری زندگی کا رخ موڑ دے گا۔ تقریب میں خوب رونق تھی۔ گانے اور رقص کی محفل کا خصوصی اہتمام کیا گیا تھا۔ یہ اس زمانے میں امرا کی شادیوں میں معمول کی بات تھی۔ دھن راج نے ایسی کئی تقریبات میں پہلے بھی شرکت کی تھی۔ لیکن آج کی محفل کچھ مختلف تھی۔ ایک رقاصہ آئی اور جب اُس نے رقص شروع کیا تو دھن راج کو یوں لگا‘ اس کے اردگرد کی ساری چیزیں رقص میں آگئی ہیں۔ اُس کا چہرہ، اُس کی آنکھیں، اُس کے رقص کے سارے انداز۔ دھن راج کو ایسا محسوس ہوا کہ وہ عالمِ خواب میں ہے۔ وہ دعا کرنے لگا‘یہ خواب کبھی ختم نہ ہو۔ پھر اچانک رقص ختم ہو گیا‘ لوگ اُٹھنے لگے‘ لیکن دھن راج اپنے ہوش وحواس گم کر چکا تھا۔ اس نے کسی سے رقاصہ کا نام پوچھا تو اسے بتایا گیا اس کا نام بدھا بائی ہے۔ دھن راج نے وہیں بیٹھے بیٹھے اپنی زندگی کا بڑا فیصلہ کر لیا کہ وہ بدھا بائی کو اپنی زندگی کا حصہ بنائے گا۔ وہ بدھا کو لے کر راولپنڈی آ گیا۔ محبت اور پیار کا اظہار راولپنڈی کے بوہڑ بازار میں ایک خوبصورت حویلی کی شکل میں ہوا۔ یہ دھن راج کا تاج محل تھا جو اس نے اپنی بدھا بائی کے لیے تعمیر کرایا تھا۔ حویلی کا نام سہگل حویلی رکھا گیا۔ یہ اس زمانے میں راولپنڈی کی ایک منفرد عمارت تھی جس کی تعمیر میں حسن بھی تھا اور شکوہ بھی۔ جس میں مینار بھی تھے اور دریچے اور جھروکے بھی۔ اس کے اندر ایک بارہ دری بھی تعمیر کی گئی تھی۔ دروازوں کھڑکیوں اور جھروکوں پر کشمیری نقش نگاری کا اہتمام کیا گیا تھا۔ ہر چیز میں محبت جیسے مجسم ہو گئی تھی۔ دھن راج اور بدھا بائی حویلی کے اوپر والے حصے میں رہنے لگے۔ بدھا بائی کے رقص کے شوق کو سامنے رکھتے ہوئے حویلی میں رقص کے لیے ایک کمرہ تعمیر کیا گیا تھا‘ یوں دھن راج نے بدھا بائی کا دل اپنے پیار سے جیت لیا تھا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ دھن راج ہندو تھا اور بدھا بائی مسلمان تھی‘ لیکن دونوں اپنے مذہب پر قائم رہے اور کسی نے دوسرے سے مذہب تبدیل کرنے پر اصرار نہ کیا۔ دھن راج نے کچھ فاصلے پر اپنی عبادت کے لیے ایک مندر تعمیر کرایا اور ساتھ ہی بدھا بائی کے لیے ایک مسجد تعمیر کرائی۔ آج بھی حویلی کے قریب یہ مندر اور مسجد اپنی جگہ موجود ہیں۔ دھن راج نے بدھا بائی کو دیوی بنا کر رکھا تھا۔ کہتے ہیں‘ اس زمانے میں جب راولپنڈی شہر میں اکا دکا کاریں ہوتی تھیں بدھا بائی کار میں سفر کرتی تھی۔ ان کے پاس 1938 ماڈل کی آسٹن کار تھی جس کے لکڑی کے ٹائروں پر ربڑ چڑھا ہوا تھا اور وہ ایک میگنیٹک سسٹم سے چلتی تھی۔ گرمیوں میں جب راولپنڈی کا موسم ناقابلِ برداشت ہو جاتا تو دھن راج اور بدھا بائی اپنی آسٹن کار پر کشمیر کی سیر کو نکل جاتے۔ دن رات ہنسی خوشی گزر رہے تھے کہ پھر کہانی میں ایک موڑ آیا اور سب کچھ بدل گیا۔ تقسیم سے کچھ عرصہ پیشتر ہی راولپنڈی میں فسادات شروع ہو گئے تھے۔ ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان آئے روز جھڑپیں ہو رہی تھیں۔ اور پھر سرحد کے دونوں طرف سے لوگ ہجرت کرنے لگے۔ انہیں میں ایک دھن راج کا خاندان بھی تھا۔ دھن راج‘ جس نے بدھا بائی کے ساتھ ساری عمر بتانے کا خواب دیکھا تھا‘ اب اس سے علیحدہ ہونے پر مجبور ہو گیا تھا۔ قیامِ پاکستان کے بعد جائیدادوں کے کیس عدالتوں میں جانے لگے۔ سہگل حویلی کا کیس بھی عدالت میں آ گیا۔ جج نے بدھا بائی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا: اگر تم یہ ڈکلیئر کر دو کہ تم ہندو ہو تو یہ حویلی تمہاری ملکیت ہو سکتی ہے۔ یہ ایک اہم مرحلہ تھا ایک 'ہاں‘ اسے معاشی طور پر مستحکم کر سکتی تھی‘ لیکن وہ بدھا تھی۔ اس نے جج کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے وہ جملہ کہا‘ جو ہمیشہ زندہ رہے گا۔ بدھا کا اپنے اور دھن راج کے بارے میں کہنا تھا: We shared everything except religion.
عدالت دو بار adjourn ہوئی۔ایسا لگتا تھا‘ جج بدھا کو اپنی رائے پر نظرِثانی کا موقع دینا چاہتا ہے لیکن وہ اپنے موقف پر قائم رہی۔ جج نے حویلی Evacuee Trust کی ملکیت میں دے دی اور انسانی ہمدردی کے تحت حویلی کے دو تین کمرے بدھا کو رہنے کیلئے دے دیے۔ دھن راج کے جانے کے بعد حالات نے تیزی سے پلٹا کھایا۔ بدھا بائی کی زندگی بجھ کر رہ گئی۔ وہ اکثر حویلی کے جھروکے میں بیٹھتی اور چائے کے ساتھ اپنے پسندیدہ برانڈ کے سگریٹ پیتی رہتی۔ اب وہ اپنے بھائی کے ہمراہ حویلی میں رہ رہی تھی۔
اس کے پاس آمدنی کا کوئی ذریعہ نہیں تھا لیکن لوگوں میں یہ تاثر تھا کہ بدھا بائی کے پاس بہت سی دولت ہے‘ جو اس نے حویلی میں چھپائی ہوئی ہے۔ ایک روز چور حویلی میں آئے اور کچھ نہ پا کر بدھا کے بھائی کو قتل کرکے چلے گئے۔ حویلی کے سامنے رہنے والے ان کے پڑوسی نے بتایا کہ رات کے اڑھائی بجے کا وقت ہوگا کہ بدھا بائی کے چیخنے کی آواز آئی۔ وہ چیختے ہوئے انہیں بلا رہی تھی ''چوہدری صاحب چوہدری صاحب‘‘ پڑوسی کے مطابق‘ بدھا کی آواز سن کر میری آنکھ کھل گئی اور میں تیزی سے حویلی کی طرف دوڑا تو دیکھا کہ حویلی کا دروازہ چوپٹ کھلا ہے اور بدھا کا بھائی صحن میں گرا ہوا ہے اور اس کی گردن سے خون تیزی سے بہہ رہا ہے۔ میں نے قریب جاکر دیکھا تو وہ دم توڑ چکا تھا۔ دھن راج کی جدائی کے بعد بدھا کیلئے یہ ایک بڑا صدمہ تھا۔ اس کی اعصاب جواب دینے لگے تھے۔ اس کی آنکھوں کے ستارے بجھنے لگے تھے۔ اس کے رُخساروں کی شفق میں سرسوں کا رنگ اتر آیاتھا۔ اور پھر ایک روز اچانک بدھا حویلی چھوڑ کر چلی گئی۔ لوگوں نے دیکھا کہ اس کے دروازے پر قفل ہے۔ پھر کسی نے بدھا بائی کو نہیں دیکھا۔ اس بات کو کئی برس گزر گئے۔ پھر ایک روز ایک عجیب واقعہ ہوا جس کے راوی شیخ رشید ہیں۔ ان کے مطابق‘ ایک روز ایک افسر ان کے پاس آیا اور وہ کمرے دیکھنے کی خواہش کی جہاں بدھا بائی رہتی تھی۔ اس نے کمرے دیکھے اور واپس جانے لگا۔ جب اس سے پوچھا گیاکہ وہ کہاں سے آیا ہے اور ان کمروں کو دیکھنے کی کیا کشش تھی جو اسے یہاں لے آئی ہے‘ تو اس نے سیڑھیاں اترتے اترتے بتایا: بدھا بائی میری ماں تھی۔ معلوم نہیں اس کے بیان میں کتنی صداقت تھی‘ لیکن کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ وہ واقعی بدھا بائی کا ایک بیٹا تھا۔ اب بدھا بائی کی حویلی جو کبھی راولپنڈی کی سہگل حویلی تھی شیخ رشید کی لال حویلی میں تبدیل ہو گئی ہے‘ جہاں دن بھر سیاسی لوگوں اور ضرورت مندوں کا ہجوم رہتا ہے‘ لیکن رات کی تاریکی میں اب بھی کچھ لوگوں کو بدھا کے گھنگھروؤں کی آوازیں آتی ہیں اور بعض لوگ تو یہ دعویٰ بھی کرتے ہیں کہ اُنھوں نے اکثر آدھی رات کو خالی سڑک پر بدھا بائی کو چلتے دیکھا ہے۔ شاید وہ سچ کہتے ہوں یا شایدیہ سب تصور کی کرشمہ سازی ہو۔ آج یونہی اسلام آباد میں اپنے گھر کے ٹیرس پر بیٹھے بیٹھے مجھے دھن راج سہگل اور بدھا بائی کی سہگل حویلی یاد آ گئی ہے جسے اب دنیا لال حویلی کے نام سے جانتی ہے۔ یہی اپریل کا مہینہ تھا اور ایسی ہی ہلکی ہلکی بارش ہو رہی تھی جب میں نے سہگل حویلی کو پہلی بار دیکھا تھا اور اس کے ساتھ جڑی ہوئی بدھا بائی کی کہانی سے آشنا ہوا تھا۔