"SSC" (space) message & send to 7575

تعلیم‘ تدریس اورشخصیت سازی

زندگی کے سفر میں کچھ لوگ ہمیں خوش رنگ منظر وں کی طرح ملتے ہیں اور اوجھل ہو جاتے ہیں‘ لیکن ان کا تصور ہمیں تا دیر شاداب رکھتا ہے۔ یونیورسٹی آف ٹورنٹو کے پروفیسر Joeکے ساتھ بھی یہی معاملہ تھا۔ پروفیسر Joeکے ساتھ میں نے Fundamentals of Curriculum کا کورس لیا تھا ‘جو میری زندگی کا ایک انوکھا تجربہ تھا۔پروفیسر Joe تعلیم اور معاشرے کے باہمی ربط کے قائل تھے‘ وہ اکثر کلاس میں کہا کرتے کہ اگر تعلیم کسی معاشرے کو بہتر نہ بنا سکے تو محض شرح خواندگی میں اضافے کا کوئی فائدہ نہیں ۔ پروفیسرJoeکی کلاس میں تعلیم اور سماجی نا ہمواریوں پر دھواں دار گفتگو ہوتی ۔اب پروفیسرJoeکی کلاس کا خیال آتا ہے تو سوچتا ہوں ایک استاد کیسے طالبعلموں کے ذہنوں کے بند دریچوں کو کھولتا ہے اور کیسے ان کی سوچ کو اُجالتا ہے۔ پروفیسرJoe نے پہلے دن ہی ہمیں کتابوں کی ایک فہرست دے دی‘ یہ ایک طویل فہرست تھی‘ چند کتابوں کا آپ سے تعارف کراتا ہوں۔ ان میں سے مرکزی کتاب Becoming Criticalتھی‘ جو Carr & Kemmisکی لکھی ہوئی تھی۔ اس فہرست میں ایک کتاب اطالوی مفکر گرامچی (Gramsci) کی Prison Notebooks تھی ۔گرامچی اٹلی کا ایک دانشور تھا‘ جسے اُس وقت کے ڈکٹیٹر مسولینی نے جیل میں ڈال دیا تھا۔اس طویل قید کے دوران ہی گرامچی کا انتقال ہو گیا۔ اس کی موت کے بعد اس کی کال کوٹھڑی سے مختلف کاغذات پر لکھے ہوئے اس کے نوٹس ملے جن کو یکجا کر کے کتابی شکل میں دو جلدوں میں شائع کیا گیا۔ اس کتاب کا نام Prison Notebooks تھا۔ اس کتاب میں گرامچی نے پہلی با ر Hegemonyکے تصور پر بحث کی اور بتایا کہ کس طرح بالادستی کے پولیٹیکل سوسائٹی اور سِول سوسائٹی سے کام لیا جاتا ہے ۔پولیٹیکل سوسائٹی میں طاقت کا استعمال ہوتا ہے‘ جبکہ سول سوسائٹی تعلیم‘ ادب ‘ زبان اور کلچر کے ذریعے اثر انداز ہوتی ہے ۔ گرامچی کے مطابق سول سوسائٹی کی اپروچ اس لیے زیادہ مؤثر ہے کہ اس میں ذہنوں کو شکار کیا جاتا ہے اور مغلوب و مفتوح گروپ اپنی مرضی سے اس تسخیر کو قبول کرتا ہے‘ گرامچی اسے spontaneous consent کا نام دیتا ہے۔ اس کتاب کے مطالعے نے میرے لیے باقی کتابوں کو سمجھنا آسان بنا دیا ۔پروفیسرJoeکی دی ہوئی فہرست میں ایک کتاب پالو فریرے (PauloFreire) کی Pedagogy of the Oppressed تھی۔پالو فریرے برازیل کا رہنے والا تھا ‘اس نے تعلیم کو محض ایک تھیوری کی بجائے ایک عملی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا۔ کتاب کا انگریزی ترجمہ 1970ء میں سامنے آیا یوں اس کتاب کو شائع ہوئے نصف صدی کا عرصہ گزر گیا ہے‘ لیکن آج بھی یہ کتاب استاد‘شاگرد اور معاشرے کے ربط کو سمجھنے میں مدد گار ثابت ہوتی ہے ۔کتاب معاشرے کو حکمرانوں اور محکوم طبقوں میں تقسیم کرتی ہے۔معاشرے کے زور آور طبقے کمزور طبقوں کے راستے میں استحصال‘ ناانصافی ‘ اور جبر کی دیواریں کھڑی کرتے ہیں اور تعلیم کے مراکز یعنی سکول بھی ان نا انصافیوں کو بڑھاوا دیتے ہیں ۔پالو فریرے سکولوں میںدی جانے والی روایتی تعلیم کو Banking model of education قرار دیتا ہے ۔اس ماڈل میں طالب علموں کو خالی برتن سمجھ کر ان کے ذہنوں میں ایک خاص طبقے کا علم بھر دیا جاتا ہے ۔تعلیم کے اس ماڈل میں طالب علم دیے گئے علمی مواد کو بغیر سوچے سمجھے امتحانی پرچوں میں لکھ آتے ہیں اور کامیاب بھی ہو جاتے ہیں‘لیکن ان پر سوچ اور تفکر کے دریچے بند کر دیے جاتے ہیں۔پالو فریرے کے نزدیک تعلیم کا محور طالبِ علموں میں Critical consciousnessپیدا کرنا ہے۔یہ اسی صورت میں ممکن ہے جب تعلیم یک طرفہ نہ ہو بلکہ طالب علموں کو برابر موقع دیا جائے تاکہ وہ ایک باہمی مکالمے میں شریک ہو سکیں اور اپنی گم گشتہ پہچان اور آزادی کو حاصل کر سکیں۔یہ کتاب پڑھنے کے بعد مجھے اندازہ ہوا کہ تعلیم ‘ طاقت اور سیاست کا آپس میں کتنا گہرا تعلق ہے اور تعلیم کا مقصد محض Official Knowledgeکو ایک نسل سے دوسری نسل تک منتقل کرنا نہیں بلکہ طالب علموں میں وہ Critical consciousnessپیدا کرنا ہے‘ جس سے وہ اپنے آپ کو پہچان سکیں اور معاشرے میں ان آزادیوں کو پا سکیں جن سے انہیں محروم کر دیا گیا ہے۔
پروفیسرJoe کی فہرست میں ایک اور کتاب Deschooling Societyتھی جس کا مصنف Ivan Illich تھا۔ یہ کتاب 1971ء کے لگ بھگ شائع ہوئی اور فوراً تعلیمی حلقوں میں بحث کا موضوع بن گئی ۔کتاب اس طرز ِتعلیم پر کڑی تنقید تھی جس میں طالب علموں کے ذہنوں کی تشکیل ایک بنے بنائے سانچے میں کی جاتی ہے اور معاشرے میں انفرادی سوچ رکھنے والے افراد کے بجائے یکساں طرز پر سوچنے والے روبوٹس تیار ہوتے ہیں۔اس کتاب میں Ivan Illich غیر رسمی تعلیم کی کی اہمیت کو اجاگر کرتا ہے‘ جس کا کوئی وقت مقرر نہیں اور جس کا حصول ساری زندگی پر محیط ہے ۔پروفیسرJoe کی فہرست میں ایک کتاب Henry Giroux کی Theory and Resistance in Education تھی۔اس کتاب میں مختلف ثقافتی دائروں میں طریقۂ تدریس ‘ علم ‘ مزاحمت اور طاقت کا تجزیہ کیا گیا تھا ۔مصنف کے بقول موجودہ سرمایہ دارانہ نظام کی انفرادی آزادی کی جگہ مارکیٹ کی منطق نے لے لی ہے ۔پروفیسرJoe کی دی گئی کتابوں کی فہرست میں Peter McLaren کی کتاب Life in Schoolsبھی شامل تھی‘ جس میں پیٹر تعلیم کے نیو لبرل ماڈل پر سخت تنقید کرتا ہے جس کا واحد مقصد زیادہ سے زیادہ منافع کا حصول ہے ۔اس ماڈل میں تعلیم کے پرائیویٹ سیکٹر کو مکمل آزادی حاصل ہوتی ہے اور اس میں ریاست مداخلت نہیں کرتی ۔اس ماڈل میں اساتذہ کو طلبا کی تعداد کے حوالے سے بڑی کلاسیں پڑھاناپڑتی ہیں ‘تدریس کے فرسودہ طریقوں کو بروئے کار لانا پڑتا ہے ‘ مینجمنٹ اساتذہ کی صلاحیتوں پر اعتبار نہیں کرتی اور ٹاپ ڈاؤن مینجمنٹ میں اساتذہ محض کٹھ پتلیاں بن کر رہ جاتے ہیں۔پیٹر میک لیرن کے مطابق اس صورتحال میں اساتذہ کو جبر کے اس نظام کی مزاحمت کرنی چاہیے اور یہ اسی صورت ممکن ہے کہ وہ اپنی تدریس کو محض علم اور مہارتوں کی منتقلی تک محدود نہ رکھیں‘ بلکہ طلبا میں سوچ وبچار (Reflection)اور تنقیدی سوچ (Critical Thinking) اجاگر کریں۔
پروفیسر Joeکی فہرست میں ایک اور کتاب Michal Appleکی Ideology and Curriculumتھی ۔ مائیکل ایپل نے سکولوں کے حوالے سے چند بنیادی سوال اُٹھائے‘ مثلاً :کیسے تعلیم معاشرے کے مختلف گروہوں سے امتیازی سلوک کرتی ہے ‘ کیسے سکول نا صرف لوگوں کو کنٹرول کرتے ہیں ‘بلکہ معنی (Meaning) کو بھی کنٹرول کرتے ہیں‘کیسے سکول Legitimate Knowledgeکو تقسیم کرتے ہیں ‘ کیسے زورآوروں کے گروہ کا علم ایک معیاری علم کا درجہ حاصل کر لیتا ہے۔ 
یہ پروفیسرJoeکی Curriculumکی کلاس میں دی گئی کتابوں کی طویل فہرست میں سے صرف چند کتابوں کا تذکرہ ہے۔پروفیسر Joeسے ملنے سے پہلے میں اکثر سوچتا تھاکیسے ایک استاد غیر محسوس طریقے سے اپنے شاگردوں کی شخصیت سازی میں اپنا کردار ادا کر سکتا ہے‘ کیسے انہیں کتابوں کے سحر میں مبتلا کر کے مطالعے کا عادی بناسکتا ہے‘ کیسے ان کے ذہن کے دریچے کھول کر اُفق پار کے منظر دکھا سکتا ہے‘ کیسے اپنے شاگردوں کو باور کروا سکتا ہے کہ تعلیم محض علم‘ مہارتوں اور اقدار کو ایک نسل سے دوسری نسل تک منتقل کرنے کا نام نہیں‘ بلکہ یہ تو طلبا کی انفرادی زندگیوں اور پھر معاشرے میں تبدیلی کا نام ہے؟ پروفیسر Joeکی کلاس میں مجھے ان سب سوا لات کے جواب مل گئے ۔اب اس بات کو تقریباً تین دہائیاں گزر گئی ہیں لیکن اب بھی کبھی کبھی یوں لگتا ہے کہ میں پروفیسرJoeکی کلاس میں بیٹھا ہوں ‘ابھی دروازہ کھلے گا اور وہ مسکراتے ہوئے کلاس میں داخل ہوں گے۔ ان کے ایک ہاتھ میں کتاب ہو گی اور دوسرے ہاتھ میں کافی کا کپ۔کبھی کبھی میں سوچتا ہوں زندگی کے سفر میں کچھ لوگ ہمیں خوش رنگ منظروں کی طرح ملتے ہیں اور اوجھل ہو جاتے ہیں‘ لیکن ان کا تصور ہمیں تادیر شاداب رکھتا ہے ۔ پروفیسر Joe کے ساتھ بھی یہی معاملہ تھا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں