کچھ لوگ ہماری آنکھوں سے اوجھل ہو جاتے ہیں لیکن ان کی شخصیت کے ان مٹ رنگ ہمیں ان کے وجود کا احساس دلاتے رہتے ہیں۔ پوٹھوہار کے خطے میں تاریخ کے آثار یہاں وہاں بکھرے ملتے ہیں‘ انہیں میں ایک قلعہ روہتاس ہے۔ یہ جہلم سے تقریباً 16کلومیٹر اور دینہ سے 6کلومیٹر کی دوری پر ہے۔ آج میں مدتوں بعد یہاں آیا ہوں‘ تقریباً تین دہائیوں کے بعد۔ اس قلعے کی کہانی عجیب ہے اور اس کو تعمیر کرنے والے کی کہانی عجیب تر۔ اب تو یہاں تک پہنچنے کا راستہ کافی بہتر ہو چکا ہے۔ مجھے یاد ہے جب میں پہلی بار یہاں آیا تھا تو راستے میں پانی کی رکاوٹ تھی جس میں ہماری گاڑی پھنس گئی تھی۔ 1997ء میں قلعہ روہتاس کو ورلڈ ہیریٹیج سنٹر قرار دے دیا گیا تھا‘ جس کے نتیجے میں اس تاریخی ورثے کو محفوظ بنانے کے اقدامات کیے گئے ہیں۔ قلعے کی چوڑی دیوار پر کھڑے ہوں تو دور کے مناظر دکھائی دیتے ہیں۔ اب تو درمیان میں آبادیاں آ گئی ہیں‘ لیکن سولہویں صدی میں جب یہ قلعہ بنا تھا تو اس کو تعمیر کرنے والوں نے جگہ کا سوچ سمجھ کر انتخاب کیا تھا۔ قلعہ جس جگہ تعمیر کیا گیا وہ سطح سمندر سے کافی بلندی پر واقع تھی‘ جس کے قریب ہی پانی کی فراوانی تھی۔ قلعے کی دیوار سے کشمیر سے آنے والا راستہ بالکل نگاہوں کے سامنے آتا ہو گا۔ یہ قلعہ شیر شاہ سوری نے 1541ء میں تعمیر کرنے کا حکم دیا تھا تاکہ ایک طرف مغلوں کے وفادار گکھڑ قبائل پر نظر رکھی جا سکے جہاں سے اس کا حریف ہمایوں کسی وقت بھی واپس آ سکتا تھا۔ وہی ہمایوں جو کبھی ہندوستان میں سلطنتِ مغلیہ کا طاقتور بادشاہ تھا اور شیر شاہ سوری کے ہاتھوں شکست کھا کر ایران بھاگ گیا تھا۔
قلعے کی دیواروں پر موسم سرما کی اجلی دھوپ پھیلی ہوئی ہے اور میں ایک پتھر سے ٹیک لگا کر بیٹھ جاتا ہوں۔ آنکھیں بند کر کے شیر شاہ سوری کا تصور کرتا ہوں جس نے تن تنہا مغلوں کی مضبوط حکومت کو شکست دی تھی۔ اس حیران کن کہانی کی ابتدا 1486ء میں ہوتی ہے جب حسین خان کے گھر ایک بیٹا پیدا ہوا جس کا نام فرید خان رکھا گیا۔ جب ابراہیم سور اپنے بیٹے حسین کے ہمراہ پنجاب آئے تو یہ بہلول لودھی کا دور تھا اور انہیں پنجاب میں جلال خان کے پاس ملازمت حاصل کرنے میں کوئی مشکل پیش نہ آئی۔ حسین کی محنت اور وفاداری نے جلال خان کا دل جیت لیا اور اس نے سہسرام، کان پور ٹانڈا، حاجی پور اور خواص پور کی وسیع و عریض جاگیریں حسین کے نام کر دیں۔ یہ حسین کی محنت اور وفاداری کا انعام اور اعتراف تھا۔
یہیں حسین کے گھر فرید خان پیدا ہوا۔ حسین کی اولاد میں سب سے بڑا ہونے کی وجہ سے وہ حسین کا وارث تھا لیکن سوتیلی ماں باپ بیٹے کے درمیان دیواریں کھڑی کرنے میں مصروف رہتی تھی۔ فرید خان اس سارے ماحول سے تنگ آ کر گھر سے چلا گیا۔ ان کی منزل جون پور تھی۔ جون پور اس زمانے میں ثقافت اور علم کا ایک مرکز تھا۔ یہاں فرید خان نے تین سال گزارے اور اس دوران علم و ادب اور عربی و فارسی زبانوں پر دسترس حاصل کی۔ اس کا اگلا پڑائو بہار تھا‘ جہاں بہار شاہ لوہانی کی حکمرانی تھی۔ جلد ہی بہار شاہ کو معلوم ہو گیا کہ فرید خان غیر معمولی صلاحیتوں کا مالک ہے۔ ایک بار جب بہار شاہ شکار پر تھا تو اچانک ایک شیر اس پر حملہ آور ہوا۔ اس سے پہلے کہ شیر اس کو کوئی گزند پہنچاتا فرید خان بجلی کی سی تیزی سے شیر کی طرف لپکا اور اپنی تلوار سے اس کا کام تمام کر دیا۔ موت بہار شاہ کو چھو کر گزر گئی۔ اس واقعے سے بہار شاہ کی نگاہوں میں فرید خان کا رتبہ اور بلند ہو گیا اور اس نے فرید خان کو شیر خان کا خطاب دیا۔ یہ خطاب فرید خان کے لیے خوش قسمتی کا سامان لایا اور پھر تاریخ نے فرید خان کو شیر شاہ سوری کے نام سے یاد رکھا۔ اس کے خواب اب نئی دنیاؤں کے متلاشی تھے۔ اسے اس کا موقع جلد ہی مل گیا۔ ظہیرالدین بابر ایک طوفان کی طرح آیا اور پانی پت کے میدان میں ابراہیم لودھی کو شکست دے کر ہندوستان کا حکمران بن گیا۔ یہ ہندوستان میں مغلیہ سلطنت کی ابتدا تھی۔ یہ 1526ء کا سال تھا۔ اگلے ہی برس شیر شاہ نے مغلیہ دربار میں اپنی قسمت آزمائی‘ اپنی ذہانت، دلیری اور شجاعت سے مغل فوج میں اپنا مقام بنا لیا‘ بہار پر حملے میں بابر کے ہمراہ حصہ لیا‘ اور اپنی غیر معمولی جنگی مہارت کے جوہر دکھائے۔ شیر شاہ کا مغلیہ فوج میں قیام 1527ء سے 1528ء تک رہا۔ اس دوران اسے مغلوں کے نظامِ سیاست، نظامِ معیشت، عسکری نظام کو بغور پرکھنے کا موقع ملا۔ اس کی دوربین نگاہیں، مستقبل کا وہ منظر دیکھ رہی تھیں جس کا کسی کو اندازہ نہیں تھا‘ سوائے ایک شخص کے جس کا نام ظہیرالدین بابر تھا‘ جو ہندوستان کا حکمران تھا اور جس کے دربار سے شیر شاہ وابستہ تھا۔
ظہیرالدین بابر نے ایک دنیا دیکھی تھی۔ اس نے اپنی فوج کے جنگجو شیر شاہ کی آنکھوں میں وہ سب کچھ دیکھ لیا تھا جو شیر شاہ کے دل کا منظر تھا۔ بابر نے اپنے قریبی رفقا سے کہا کہ شیر شاہ کی کڑی نگرانی کی جائے۔ شیر شاہ بھانپ گیا کہ وہ بابر کا اعتماد کھو چکا ہے۔ ایک دن وہ اچانک واپس بہار پہنچ گیا اور اپنی طاقت میں اضافہ کرنے لگا۔ بہار شاہ لوہانی کا انتقال ہو چکا تھا۔ بہار شاہ کا بیٹا جلال ابھی چھوٹا تھا۔ عملاً شیر شاہ وہاں کا حکمران بن گیا تھا۔ بنگال کے حکمران سلطان محمود نے شیر شاہ پر حملہ کیا لیکن اسے عبرتناک شکست ہوئی۔ ادھر ظہیرالدین بابر کا 1530ء میں انتقال ہو گیا۔ بابر کے بعد اس کا بیٹا ہمایوں تخت پر بیٹھا۔ ادھر شیر شاہ سوری اپنی طاقت میں مسلسل اضافہ کر رہا تھا‘ حتیٰ کہ 1537ء تک شیر شاہ بہار، بنگال اور آسام کا حکمران بن چکا تھا۔ اب ایک بڑی جست لگانے کا وقت آ گیا تھا۔ شیر شاہ نے سلطنتِ مغلیہ سے ٹکر لینے کی ٹھان لی تھی۔ ادھر ہمایوں نے 1532ء میں ہونے والی جنگ میں محمود لودھی کو شکست دی‘ اور اس کے حوصلے بلند تھے۔ 1539ء میں ہمایوں نے آگرہ کی طرف بڑھتے ہوئے دریائے گنگا کو عبور کیا اور چوسہ کے مقام پر اپنا کیمپ لگایا۔ شیر شاہ کو اسی موقع کی تلاش تھی۔ شیر شاہ کی فوج نے ہمایوں کے لشکر پر حملہ کر دیا‘ اور مغلیہ فوج پسپا ہو گئی۔ چوسہ کی جنگ نے شیر شاہ کی برتری ثابت کر دی تھی‘ لیکن فیصلہ کن جنگ اگلے سال قنوج کے مقام پر ہوئی‘ جہاں شیر شاہ کی فوج نے ہمایوں کے لشکر کو عبرتناک شکست دی اور ہمایوں ہندوستان چھوڑ کر ایران کی طرف پسپا ہو گیا۔ یہ 1540ء کا سال تھا جب شیر شاہ سوری پورے ہندوستان کا حکمران بن گیا۔ اسے معلوم تھا کہ مغل اپنی شکست پر خاموش نہیں بیٹھیں گے‘ اسی لیے اگلے سال ہی اس نے قلعہ روہتاس کی تعمیر کا حکم دیا۔ ایک ایسا قلعہ جو کشمیر کے آنے والے راستوں کا نگران ہو۔ شیر شاہ سوری کی حکومت کا دورانیہ صرف 5 برس تھا۔ 1540ء سے 1545ء تک لیکن یہ پانچ سال ہندوستان کی تاریخ میں بہت سے اقدامات کے حوالے سے یاد رکھے جائیں گے‘ جن کے ثمرات ہم آج تک سمیٹ رہے ہیں۔ ان میں سرِفہرست ہندوستان کے مختلف علاقوں میں سڑکوں کی تعمیر تھی۔ ان میں ایک جرنیلی سڑک‘ جسے ہم جی ٹی روڈ کہتے ہیں‘ اسی دور کی یادگار ہے۔ سڑکوں کے کنارے سرائے خانوں کی تعمیر، ہر سرائے کے ساتھ ایک مسجد اور کنواں۔ اسی طرح روپیہ کا آغاز بھی شیر شاہ سوری کے دور میں ہوا۔ شیر شاہ کے زمانے میں امن وامان کا نظام بہتر ہوا، جرائم میں کمی آئی، ڈاک کا نظام متعارف ہوا، مالیہ کے نظام کا اجرا ہوا، تجارت میں ترقی، پیمائش کے پیمانے شروع ہوئے۔ ان سارے کارناموں کو دیکھیں اور پھر یہ دیکھیں کہ یہ سب کچھ محض پانچ سالوں میں کیا گیا تو یقین آ جاتا ہے کہ شیر شاہ ایک غیر معمولی شخصیت کا عسکری علوم کا ماہر اور انتہائی موثر ایڈمنسٹریٹر تھا‘ جس کی پوری زندگی حرکت سے عبارت تھی۔ اس کی موت بھی اس وقت ہوئی جب وہ کالنجر قلعے کا محاصرہ کیے ہوئے تھا اور قلعے کی مضبوط دیواروں کو توڑنے کے لیے بارود کا استعمال کیا جا رہا تھا۔ اپنے ہی بارود کے ایک گولے نے اسے گھائل کر دیا اور وہ جانبر نہ ہو سکا۔ اور آج روہتاس قلعے کی دیوار پہ بیٹھے میں سوچ رہا تھا‘ واقعی کچھ لوگ ہماری آنکھوں سے اوجھل ہو جاتے ہیں لیکن ان کی شخصیت کے ان مٹ رنگ ہمیں ان کے وجود کا احساس دلاتے رہتے ہیں۔