کبھی کبھی میں سوچتا ہوں کیسے کچھ کتابیں پڑھنے والوں کی زندگیاں بدل دیتی ہیں اور بعض کتابیں لکھنے والوں کی زندگیوںمیں انقلاب لے آتی ہیں۔آج یوں ہی میں اپنی سٹڈی میں کتابوں کو ترتیب سے رکھ رہا تھا کہ اچانک میری نظر ایک کتاب پر پڑی‘ میں نے کتاب کو ریک سے نکال کر میز پر رکھا تو اس کا سرورق دیکھ کر خود ہی مسکرانے لگااور مجھے اس کتاب سے جڑے بہت سے واقعات یاد آنے لگے۔ یہ پیٹر رائیٹ (Peter Wright)کی کتاب SpyCatcher تھی۔ میں نے کرسی پر ٹیک لگا کر آنکھیں بند کیں تو وہ سارے منظر روشن ہونے لگے‘ جب آج سے تین دہائیاں پہلے میرا اس کتاب سے تعارف ہوا تھا‘جس نے برطانوی اقتدار کے ایوانوں میں زلزلہ برپا کر دیا تھا۔دراصل یہ کتاب برطانوی سیکرٹ ایجنسی MI5کی اندرونی کہانی تھی جسے MI5کے ایک سابق اسسٹنٹ ڈائریکٹر پیٹر رائیٹ نے تحریر کیا تھا جس میں ایسی تفصیلات شامل تھیں جو برطانوی حکومت کیلئے حد درجہ خفت کا باعث بنی تھیں ۔یہ 1987ء کی بات ہے جب میں نے اس کتاب کے اقتباسات The Independentاخبار میں پڑھے‘ اُن دنوں میں مانچسٹر یو نیورسٹی میں پڑھتا تھا‘ اُس روز ہاسٹل کے ٹی وی روم میں ہماری گفتگو کا ایک ہی موضوع تھا‘ پیٹر رائیٹ کے MI5کے بارے میں ہوشربا انکشافات ۔اگلے ہی روز اخبارات پر پابندی لگا دی گئی کہ وہ کتاب کا کوئی بھی اقتباس شائع نہیں کر سکتے ۔اس سے پیشتر کہ کتاب کے مندرجات پر گفتگو کی جائے ہمیں کتاب کے مصنف پیٹررائیٹ کے بارے میں جاننا ہوگاکہ اس کا پس منظر کیا تھا اور وہ MI5میں ملازمت حاصل کرنے میں کیسے کامیاب ہوا ۔پیٹررائیٹ 9اگست 1916ء میں برطانیہ کے علاقے ڈربی شائرمیں پیدا ہوا۔اُس کے والد مارکونی کمپنی میں سائنٹیفک آفیسر تھے ‘وہ وا ئرلیس بنانے کے ماہر تھے اس لیے بچپن ہی سے پیٹرکو وائرلیس بنانے کے عمل سے دلچسپی تھی ۔پیٹر نے سکول کی تعلیم مکمل کی توحالات کچھ ایسے بنے کہ وہ یونیورسٹی نہ جا سکا ‘دوسری جنگِ عظیم کی آمد آمد تھی‘ پیٹرکو بھی مارکونی کمپنی میں ملازمت مل گئی ۔یونیورسٹی کی تعلیم کی کمی اس نے اپنے شوق اور محنت سے پوری کی اور جلد ہی اپنے کام کی وجہ سے سب کی نظروں میں آگیا۔یہ وہ زمانہ تھا جب روس کے ساتھ سرد جنگ جاری تھی‘ دونوں ممالک کے جاسوس سرگرم مل تھے‘ لیکن MI5میں جدید سائنسی آلات کا استعمال بہت کم تھا‘ اس زمانے میں MI5کا سربراہ ڈک وائٹ تھا جس نے پیٹررائیٹ کو MI5میں ملازمت دی ‘یہ 1954ء کا سال تھا۔ پیٹررائیٹ ایک ذہین اور محنتی نوجوان تھا جو جلد ہی اپنے کام کی وجہ سے سینئر سائنٹیفک آفیسر کے عہدے پر جا پہنچا ۔ پیٹرنے MI5میں 22 سال کا طویل عرصہ گزارا۔ اس نے مختلف اسائنمنٹس کیں۔اُسے فائلیں پڑھنے کا جنون کی حد تک شوق تھا یوں وہ MI5کے اُن تمام رازو ںتک رسائی حاصل کر چکا تھا جن کا انکشاف برطانوی حکومت کی بنیادیں ہلا سکتا تھا۔ وہ خود بہت سے ایسے آپریشنز کا حصہ تھا جن کی خبر برطانوی حکومت کو بھی نہیں تھی۔ اس وقت MI5ایک ایسا بدمست ہاتھی تھا جو برطانوی حکومت کو خاطر میں نہیں لاتا تھا ۔جب پیٹررائیٹ 1954ء میں MI5 میں شامل ہو ا تو اسے یقین دہانی کرائی گئی تھی کہ اس کی مارکونی کمپنی والی ملازمت کا عرصہ پینشن کیلئے شامل کیا جائے گا‘ لیکن جب 1976ء میں اس کی ریٹائرمنٹ کا وقت آیا تو اسے بتایا گیا کہ اسے پنشن کے واجبات نہیں ملیں گے ۔وہ کیا حالات تھے جو اس کی پنشن کی راہ میں رکاوٹ بنے‘ ان کا ذکر آگے آئے گا۔پنشن سے محرومی پیٹرکیلئے ایک دھچکا تھا‘ جس ادارے کیلئے اس نے 22سال دیے ‘اُس نے اسے پنشن سے محروم کر دیا تھا ۔ پیٹرکا غصہ دیدنی تھا‘ اُسے یوں لگ رہا تھا کہ اس کی ساری زندگی بے ثمر گزر گئی‘ وہ دل برداشتہ ہو کر آسٹریلیا کے شہر تسمانیہ چلا گیا جہاں وہ گھوڑے پالنے لگا‘لیکن قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا ۔ایک دن اس کے دوست وکٹر ر اتھ شیلڈ نے اُسے فوری لندن پہنچنے کو کہا‘ دراصل راتھ شیلڈ پر کیمو نسٹ رابطوں کا شک کیا جا رہا تھا اور وہ پیٹرکو اپنی بے گناہی ثابت کرنے کیلئے بلا رہا تھا ۔ پیٹر لندن‘ آگیا‘اسی دوران اس کا تعارف Chapman Pincherسے ہوا‘ جس نے پیٹررائیٹ کو راضی کر لیا کہ وہ MI5کے کچھ راز اسے بتائے اور اس کے عوض اسے معقول معاوضہ دینے کی پیش کش کی ۔ پیٹررائیٹ پہلے ہی MI5سے بھرا بیٹھا تھا ‘اُس نے کچھ معلومات Pincherکے حوالے کر دیں اور یوں 1981ء میں Pincherکی کتاب Their trade is treachery شائع ہوئی۔ اس کتاب میں یہ تہلکہ خیز انکشاف تھا کہ برطانوی سیکرٹ سروس MI5کا ڈائریکٹر جنرل Roger Hollisدراصل روسی ایجنٹ تھا اور MI5کی خفیہ ترین معلومات KGBتک پہنچاتا تھا‘ لیکن یہ صرف معلومات کا ایک حصہ تھا ۔معلومات کا بیشتر حصہ پیٹررائیٹ کے سینے میں محفوظ تھا جو آسٹریلیا کے شہر تسمانیہ میں اپنی ریٹائرڈ زندگی کے دن گزار رہا تھا۔ تب ایک صحافی Pual Greengrass نے پیٹررائیٹ کو اپنی یادداشتیں لکھنے پر رضامند کر لیا۔گرین گراس کی برطانوی سراغ رساں ایجنسی کے حوالے سے اپنی تحقیق اور تجربے اور پیٹررائیٹ کے سنسنی خیز انکشافات نے SpyCatcherکی تخلیق میں مدد دی ۔ کتاب کو آسٹریلیا سے شائع کیا گیا۔ اس کتاب میں پیٹررائیٹ نے تفصیل سے بتایا کہ کیسے اُسے اس بات کا مکمل یقین ہے کہ MI5کا سربراہ Roger Hollis خود روسی ایجنٹ تھااور اس نتیجے پر پہنچنے کیلئے پیٹرنے کتنے ہی شواہد اکٹھے کیے تھے‘ لیکن آخر میں پیٹرکو مایوسی ہوئی کہ Roger Hollisپر روسی ایجنٹ ہونے کا الزام ثابت نہ ہو سکا ۔پیٹرنے اپنی کتاب میں انکشاف کیا کہ MI5کی ساری سرگرمیوں کی مانیٹرنگ روسی سراغ رساں ایجنسی کامیابی سے کر رہی تھی‘ کیونکہ ایجنسی کے اندر ان کا کوئی ایجنٹ کام کر رہا تھا۔ کتاب میں یہ انکشاف بھی کیا گیا کہ نہر سویز کا مسئلہ جب عروج پر تھا تومصری سفارت خانے میںMI5 نے جاسوسی کے آلات کیسے نصب کیے تھے‘ کتاب میں یہ انکشاف بھی کیا گیاکہ برطانوی وزیراعظم ہرالڈ ولسن کے روس کے ساتھ خفیہ رابطے تھے اور MI5نے باضابطہ طور پر ولسن کے خلاف مہم چلائی۔یادرہے ہرالڈ ولسن 1964-1970ء تک برطانیہ کا وزیراعظم رہا اور پھر دوبارہ 1974-1976ء میں وہ اقتدار میں آگیا‘یہ وہی سال تھا جب پیٹرریٹائر ہو رہا تھا ۔ولسن کو معلوم تھا کہ اس کے خلاف سازش میں پیٹرکا کردار بھی تھا‘ یہی وجہ ہے کہ پیٹرکو پنشن کی مراعات سے محروم ہونا پڑا۔
1987ء میں جب آسٹریلیا میں SpyCatcherشائع ہوئی تو برطانیہ میں مارگریٹ تھیچر کی حکومت تھی‘ اس نے برطانیہ میں کتاب کی اشاعت پر پابندی لگا دی لیکن کتاب سکاٹ لینڈ اور آسٹریلیا سے سمگل ہو کر دھڑا دھڑ بک رہی تھی۔تھیچر کی حکومت نے آسٹریلیا کی عدالت میں کتاب شائع کرنے پر پابندی کی درخواست دی‘ یہ ایک تاریخی مقدمہ تھا جس میں برطانوی سیکرٹری رابرٹ آرمسٹرانگ خود سڈنی کی عدالت میں گئے جہا ں کتاب کے پبلشر کے وکیل کی جرح کے سامنے برطانو ی سیکرٹری ڈھیر ہو گئے اور عدالت نے پبلشر کے حق میں فیصلہ دیا اور برطانوی حکومت کوحکم دیا کہ وہ مقدمے کے اخراجات پبلشر اور پیٹررائیٹ کو ادا کرے ۔ 1988ء میں برطانیہ میں بھی کتاب کی اشاعت کی اجازت اس بنیاد پر دے دی گئی کہ اب اس کتاب کے راز راز نہیں رہے ‘ لیکن تھیچر کی حکومت نے عدالت کو درخواست دی کہ پیٹرکو کتاب کی رائلٹی بند کی جائے‘ جسے عدالت نے مان لیا۔ایک محتاط اندازے کے مطابق اس کتاب کی بیس لاکھ کاپیاں فروخت ہوئیں‘ یوں پیٹررائیٹ‘ جسے پنشن سے محروم کر دیا گیا تھا‘ یکا یک دنیا کی اہم ترین شخصیت بن گیا۔کتاب سے ملنے والی آمدنی نے اسے کروڑ پتی بنادیا تھا‘ ایک عام سے گھرانے میں جنم لینے والا پیٹر‘جس کی تعلیم واجبی سی تھی ‘نے اپنی محنت اور لگن سے MI5میں اپنا مقام پیدا کیا اور جب وہ 1995ء میں اس دنیا سے رخصت ہوا تو اس کا شمار کروڑ پتی رؤسا میں ہوتا تھا ۔
میں اپنے سامنے رکھی ہوئی کتاب کو دیکھتا ہوں اور سوچتا ہوں کہ کیسے کچھ کتابیں پڑھنے والوں کی زندگیاں بدل دیتی ہیں اور بعض کتابیں لکھنے والوں کی زندگیوںمیں انقلاب لے آتی ہیں۔