ہندوستان میں فرنگیوں کی حکومت کے خلاف مزاحمت کی ایک طویل تاریخ ہے جس میں مسلمانوں ‘سکھوں او رہندوؤں نے مل کر غیر ملکی تسلط کے خلاف آواز بلند کی ۔فرنگی حکومت نے تاجِ برطانیہ کے خلاف اٹھنے والی ہر آواز کو دبانے کے لیے ظلم اور جبر کے سارے ہتھکنڈے استعمال کیے ۔1857ء کا سال انگریزوں کے خلاف عوامی مزاحمت کا نقطہ عروج تھاجس نے ایسٹ انڈیا کمپنی کی حکومت کی بنیادیں ہلا دی تھیں ۔جنگ ِآزادی میں ناکامی کے بعد ہندوستان کے باشندوں کو فرنگی انتقام کا سامنا کرنا پڑاجس میں حریت پسندوں کو چُن چُن کر نشانِ عبرت بنایا گیاتاکہ آئندہ کسی کے دل میں مزاحمت کا خیال نہ آئے لیکن آزادی تو ایک آدرش‘ایک خیال اور ایک جذبے کا نام ہے ۔یہ وہ چنگاری ہے جو دلوں میں دھیرے دھیرے سلگتی رہتی ہے اور پھر ہوا کا ایک جھونکا یک لخت اسے شعلے میں تبدیل کر دیتا ہے ۔1914ء میں پہلی جنگِ عظیم کا آغاز ہو چکا تھا‘ یہ جنگ جہاں دنیا کے مختلف حصوں کا جغرافیہ بدل رہی تھی وہیں برصغیر پاک وہند کی تاریخ پر بھی اثر انداز ہو رہی تھی۔ اس جنگ میں برطانیہ کو ہندوستان سے مالی اور افرادی مدد کی ضرورت تھی ۔کہتے ہیں بارہ لاکھ ہندوستانی فوجیوں اور مزدوروں نے یورپ‘افریقہ ‘اور مشرقِ وسطیٰ میں جنگ کے دنوں میں برطانوی حکومت کا ساتھ دیا اس کے علاوہ مقامی راجاؤں اور رؤسانے مالی مدد کی ۔دوسری طرف برطانوی حکومت کے خلاف عوامی سطح پر مزاحمت اور تحریکوں کا سلسلہ جاری تھا‘ ان تحریکوں کو دبانے کے لیے 1915ء میں ڈیفنس آف انڈیا ایکٹ کا اجرا کیا گیااس ظالمانہ ایکٹ کی منظوری میں اس وقت کے پنجاب کے لیفٹیننٹ گورنر مائیکل اوڈ وائر کا اہم کردار تھا۔بعد میںRowlatt کی سربراہی میں ایک کمیٹی قائم کی گئی‘ بعد میں رولٹ ایکٹ کو امپیریل لیجسلیٹوکونسل سے منظور کر کے نافذ کر دیا گیا۔اس ایکٹ کے مطابق حکومت کسی بھی شخص کو بغیر کسی مقدمے کے غیر معینہ مدت تک حراست میں رکھ سکتی تھی اور اس کا یہ اقدام کسی بھی عدالت میں چیلنج نہیں ہو سکتا تھا ۔یہ ہندوستان میں شخصی آزادی پر ایک اورشب خون تھا ۔ہندوستان کے باشندے جو سیاسی اصلاحات کی توقع کر رہے تھے رولٹ ایکٹ کے نفاذ سے سخت مایوس ہوئے ۔قائد اعظم محمد علی جناح نے اسے کالا قانون قرار دیا اور بطور ِاحتجاج لیجسلیٹو کونسل سے استعفیٰ دے دیا ۔کانگریس نے بھی رولٹ ایکٹ کی مخالفت کی اورگاندھی نے اس ایکٹ کے خلاف ستیہ گرہ کا اعلان کر دیا اور ملک بھر میں ہڑتال کی کال دی گئی ‘ جس پرپنجاب کے مختلف شہروں میں لوگوں نے احتجاج شروع کر دیا۔اس احتجاج میں مسلمان‘ ہندو‘سکھ اور عیسائی رولٹ قانون کے خلاف یک زبان ہو گئے۔
1919ء کا سال تحریک آزادی کا اہم سنگِ میل ہے رولٹ ایکٹ کے نفاذ کے بعد پورے ملک میں احتجاج شروع ہو گیا‘دوسری طرف تیسری افغان جنگ کا آغازہو گیا ۔پنجاب میں احتجاج سب سے نمایاں تھا ۔تاجِ برطانیہ کے لیے صورت حال تیزی سے خراب ہو رہی تھی۔ذرائع مواصلات معطل ہو چکے تھے ۔ اپریل کے آغاز میں احتجاج میں شدت آ گئی تھی۔ لاہور میں انارکلی کے مقام پر ہزاروں افراد کا احتجاج ہوا جس میں رولٹ ایکٹ اور برطانوی حکومت کی مذمت کی گئی ۔یہ صورتحال انگریز حکمرانوں کے لیے غیر متوقع اور ناقابلِ برداشت تھی۔ان کے ذہنوں میں ایک خدشہ ابھر رہا تھا کہ کیا 1857ء کی تاریخ خود کو دہرانے جا رہی ہے ؟کیا لوگوں کے احتجاج کی آخری منزل برصغیر سے انگریزوں کی رخصتی ہو گی ؟
9 اپریل 1919 ء کو ہندوؤں کا ایک تہوار تھا جس میں عام طور پر ہندو شریک ہوتے تھے لیکن اس بار تہوار میں ہندوؤں کے ساتھ مسلمان‘سکھ ‘اور عیسائی بھی مل گئے تھے۔9اپریل کا یہ بہت بڑا اجتماع انگریز حکمرانوں کے لیے خطرے کی گھنٹی تھا۔وہ تو ہمیشہ سے Divide and Ruleکی پالیسی کے تحت حکومت کرتے آئے تھے۔احتجاج میں شریک لوگوں کے جذبات قابو سے باہر ہو رہے تھے۔اب فرنگی حکومت کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا تھا۔اگلے ہی روز جلوس کے رہنماؤں ڈاکٹر سیف الدین کچلو اور ڈاکٹر ستیہ پال کو امرتسر کے ڈپٹی کمشنر ارونگ نے مذاکرات کے لیے بلالیا۔ارونگ کی تعیناتی انہی دنوں میں امرتسر میں ہوئی تھی اور اتنے بڑے احتجاج کو دیکھ کر وہ پریشان ہو گیا تھا۔سیف الدین کچلو اور ستیہ پال مذاکرات کے لیے ڈپٹی کمشنر کے گھر پہنچے تو انہیں گرفتار کر لیا گیااور خفیہ طور پر دھرم شالہ میں منتقل کر دیا گیا۔جب یہ خبر شہر میں پھیلی تو لوگ ڈپٹی کمشنر کے پاس پہنچے اور قائدین کی رہائی کا مطالبہ کیا ‘لیکن ان کی درخواست کسی نے نہ سنی۔ اچانک مظاہرین پر گولی چلی جس میں کئی لوگ مارے گئے اور پھر پورا شہر تشدد کی لپیٹ میں آ گیا۔اس دن بے قابو مظاہرین نے ٹاؤن ہال‘ ریلوے سٹیشن اور کئی بینکوں کو نذرآتش کر دیا ۔مظاہرین پر فائرنگ سے متعدد لوگ ہلاک ہو گئے تھے۔جوابی حملوں میں پانچ یورپی باشندے بھی مارے گئے۔11اپریل کو مشتعل ہجوم نے ایک انگریز مشنری عورت جوایک مقامی سکول میں پڑھاتی تھی‘ پر تشدد کیا ‘جسے ایک طالبِ علم کے والد نے محفوظ مقام پر پہنچا دیا۔یہ واقعہ فرنگی حکمرانوں کے لیے ناقابلِ برداشت تھا۔امرتسر کے مقامی کمانڈر جنرل ڈائر نے حکم دیا کہ جس گلی میں انگریز مشنری عورت پر تشدد کیا گیا وہاں سے سب ہندوستانی باشندے ہاتھوں اور پیٹ کے بل رینگ کر گزریں گے۔حکم پر عمل نہ کرنے کی سزا کوڑوں کی شکل میں دی جاتی۔اس بات کو سو سال گزر چکے ہیں آج بھی وہ گلی Crawling Streetکہلاتی ہے اور اس کے نام کا بورڈ ہمیں ظالمانہ فرنگی راج کی یاد دلاتا ہے۔اس واقعے سے امرتسر میں عارضی طور پر احتجاج میں کمی آگئی ‘لیکن پنجاب کے دوسرے شہروں میں لوگ سول نافرمانی کے راستے پر چل نکلے اور بجلی کے کھمبے اورر یلوے لائنوں کو کئی جگہ سے اکھاڑ دیا گیا۔اب معاملات فرنگی حکومت کے ہاتھوں سے نکلتے جا رہے تھے۔13 اپریل کو پنجاب کے مختلف حصوں میں مارشل لا ء نافذ کر دیا گیا ۔ہر قسم کے اجتماعات اور جلسے جلوسوں پر پابندی لگا دی گئی۔چار سے زیادہ افراد کا اکٹھے ہونا غیر قانونی قرار دے دیا گیا‘لیکن آزادی کے متوالے ان رکاوٹوں سے ڈرنے والے نہ تھے‘ وہ ایک مقام پر جمع ہوئے اور یہ فیصلہ کیا گیا کہ اگلے روز عوامی مظاہرہ کیا جائے گا ۔مظاہرے کے انتظامات کے لیے ڈاکٹر محمد بشیر اور صدارت کے لیے کانگریس کے رہنما کنہیا لال بھاٹیا کا نام تجویز کیا گیا۔13اپریل کے دن کی ایک اور اہمیت بھی تھی اس دن پنجاب کا تہوار بیساکھی بھی تھا۔یہ تہوار فصلوں کی کٹائی کے موقع پر اکثر میلوں کی شکل میں ہوتا ہے۔ اسی طرح جلیانوالہ باغ کا انتخاب بھی سوچ سمجھ کر کیا گیا تھا۔یہ 6سے 7ایکڑ پر پھیلا ہوا ایک وسیع وعریض باغ تھاجس کے پانچ دروازے تھے۔باغ کے وسط میں ایک سمادھی تھی۔باغ کے ایک کونے میں 20فٹ گہرا پانی کاکنواں تھا۔باغ کے اطراف تقریباً دس فٹ اونچی چار دیواری تھی۔باغ کے ارد گرد اونچے مکانوں کی بالکونیوں سے باغ کا منظر صاف نظر آتا تھا۔اکثرلوگ یہاں سیر کے لیے آتے‘ نوجوانوں کے لیے یہ کھیل کود کا مرکز تھا۔اکثر سیاسی اجتماع اسی باغ میں ہوتے۔ جلیانوالہ باغ میں ہزاروں افراد جو بیساکھی کے میلے میںشرکت کے لیے آئے تھے‘ اس پابندی کے بارے میں لاعلم تھے۔اس کے علاوہ شہر میں میلہ مویشیاں کا اجتماع بھی تھاجس میں کسان اور تاجر بڑی تعداد میں شریک تھے۔ اس میلے کو پولیس نے دو بجے بند کرادیاتولوگوں کی بڑی تعداد کا رخ جلیانوالہ باغ کی طرف ہو گیا۔اسی طرح بہت سے سکھ یاتری کچھ ہی دوری پر واقع گولڈن ٹیمپل سے عبادت کے بعد واپسی پر جلیانوالہ باغ آگئے تھے یوں اس روز جلیانوالہ باغ میں پندرہ سے بیس ہزار لوگ موجود تھے جن میں مرد‘ عورتیں‘ بچے‘ اور بچیاں شامل تھیں۔وہیں احتجاجی جلسہ کے لیے بھی لوگ شامل تھے‘ اس روز صبح ڈائر نے پورے شہر کا گشت کیا تھا۔شہر میں داخلے پر پابندی لگا دی گئی تھی اور یہ اعلان بھی کرایا گیاتھا کہ چار یا چار سے زیادہ افراد کے اجتماع پر پابندی ہے۔ 12 بج کر چالیس منٹ پر ڈائر کو اطلاع ملی کہ جلیانوالہ باغ میں ہزاروں لوگ جمع ہو چکے ہیں۔ یہ انگریز انتظامیہ کے احکامات کی کھلم کھلا خلاف ورزی تھی۔ ڈائردو آرمرڈ گاڑیوں اور 90 مسلح گورکھا سپاہیوں کے ہمراہ جلیانوالہ باغ پہنچا۔اس نے غصے سے چیختے ہوئے گورکھا سپاہیوں کو پوزیشن لینے کو کہا۔چشمِ زدن میں تھری ناٹ تھری رائفلوں کا رخ نہتے لوگوں کی طرف تھا۔(جاری)