کرنل ڈائر نے ایک بار پھر جلیانوالہ باغ میں جمع لوگوں پر نگاہ ڈالی۔ یوں لگتا تھا آج پورا امرتسر جلیانوالہ باغ میں امڈ آیا ہے۔ مرد، عورتیں،بچے،بوڑھے اور جوان۔ وہ سب آنے والے لمحے سے بے خبر اپنی دھن میں مگن تھے ۔اس ایک لمحے میں ڈائر کے ذہن میں کتنے ہی خیال آئے لیکن اسے پنجاب کے گورنر اوڈائر کو یہ باو رکرانا تھا کہ وہ کس حدتک اس کے احکامات کا وفادار ہے۔اگلے ہی لمحے اس نے چِلّا کرگورکھا فوجیوں کو آرڈر دیا ''فائر‘‘۔ چشمِ زدن میں پچاس گورکھا فوجیوں کی بندوقوں سے بیک وقت گولیاں نکلیں اور باغ میں ایک ہڑبونگ مچ گئی۔ وہ قیامت کا سماں تھا۔سنسناتی ہوئی گولیاں تڑ تڑ کرتی کسی طوفانی بارش کی طرح برس رہی تھیں اور لوگ جان بچانے کے لیے ادھر اُدھر بھاگ رہے تھے‘ لیکن باہر جانے کے تمام رستے بند تھے۔ مرکزی داخلی راستے پر ڈائر کے گورکھا فوجیوں کا قبضہ تھا۔ باغ کے چاروں طرف چہار دیواری تھی۔ بیرونی دیوار پھلانگنا اتنا آسان نہیں تھا۔ لوگوں کی بھگدڑ اور متواتر فائرنگ سے دیوار کی منڈیر پر پہنچنے سے پہلے ہی لوگ نیچے گر جاتے ۔ جلیانوالہ باغ میں پانی کا ایک کنواں بھی تھا۔ کچھ لوگ جان بچانے کے لیے کنویں میں کودنے لگے۔ کنویں میں پانی موجود تھا اور لوگ ایک دوسرے پر گِر رہے تھے۔ بعد میں اس کنویں سے ایک سو بیس لاشیں ملیں۔ جہاں جہاں لوگوں کا ہجوم ہوتا فائرنگ کا رُخ ادھر ہوتا جاتا۔ اس روز بغیر کسی وقفے کے گیارہ منٹ تک بندوقیں گولیاں اگلتی رہیں۔ بعد میں جب گولیوں کے خولوں کا شمار کیا گیاتو پتہ چلا نہتے لوگوں پر ایک ہزار چھ سو پچاس گولیاں چلائی گئی تھیں۔ برطانوی حکومت کے ریکارڈ کے مطابق اس روز 379 لوگ مارے گئے تھے‘ اور 1,208 لوگ زخمی ہوئے تھے‘ لیکن یہ اعدادوشمار اصل تعداد سے بہت کم تھے۔ جس رفتار اور جس دورانیے تک فائرنگ ہوتی رہی اس سے اموات کہیں زیادہ ہونے کا اندیشہ تھا۔ انڈین نیشنل کانگریس نے جانی نقصان کا جائزہ لینے کے لیے جو کمیٹی بنائی اس کے مطابق جلیانوالہ باغ میں ایک ہزار سے زائد لوگ ہلاک ‘اور پندرہ سو سے زیادہ زخمی ہوئے ۔جب ڈائر اپنے گورکھا سپاہیوں کے ہمراہ واپس گیا تو جلیانوالہ باغ قیامت کا منظر پیش کر رہا تھا۔ پورا باغ لاشوں اور زخمیوں سے پٹ گیا تھا۔ لوگوں کو مرنے والوں کی لاشیں اٹھانے میں مشکل پیش آرہی تھی۔گولیوں کے نشان چہار دیواری اور باغ کے اردگرد کے مکانوں کی دیواروں میں ثبت ہو گئے تھے۔اب بھی اگر آپ امرتسر جائیں اور جلیانوالہ جانے کا اتفا ق ہو تو آپ دیواروںپر گولیوں کے نشان دیکھ سکتے ہیں۔ان نشانوں کو سفید رنگ کے چوکھٹوں سے محفوظ کر لیا گیا ہے تاکہ فرنگی حکومت کا اصل چہرہ تاریخ میں زندہ رہے۔اس واقعے نے ہندوستان کے طول وعرض میں غم وغصے کی لہر دوڑا دی تھی۔فرنگی حکومت کے خلاف لوگوں کی نفرت نقطہ عروج پر پہنچ گئی۔ اس واقعے کے اگلے روز بھگت سنگھ‘ جو لاہور کے ایک سکول میں پڑھتا تھا‘ سکول جانے کے بجائے امرتسر کے جلیانوالہ باغ پہنچ گیا۔اس نے مٹی کو اپنے ہاتھ میں لیا تو دیکھا کہ وہ لہو میں مِل کر سرخ ہو گئی تھی۔ بھگت سنگھ جلیانوالہ باغ کی خون آلود مٹی ایک بوتل میں ڈال کر اپنے گھر لے آیا تھا ۔ شہیدوں کے خون میں گندھی وہ مٹی ہر روز نوجوان بھگت سنگھ کو اپنا فرض یاد دلاتی تھی۔ فرنگیوں کے تسلط سے وطن کی آزادی کا فرض۔ جلیانوالہ کی اس مٹی کی مہک آخر کار اسے تختہ دار پر لے گئی جہاں اس نے انقلاب زندہ باد کا نعرہ لگایا اور پھر پھا نسی پر جھول گیا تھا ۔اس وقت بھگت کی عمر صرف چوبیس سال تھی۔ جلیانوالہ باغ کے واقعے نے ہندوستان میں رہنے والے سب باشندوں کو یک جا کر دیا تھا۔ اب ان کی زندگی کا ایک ہی محور تھا‘ فرنگیوں کے قبضے سے ہندوستان کی آزادی۔ برصغیر کے معروف شاعر اور ادیب رابندرناتھ ٹیگور نے جلیانوالہ واقعے کی شدید مذمت کی اور کلکتہ میں پابندیوں کے باوجود احتجاجی مظاہرے کی کوشش کی‘ ٹیگور نے اس واقعے کے حوالے سے وائسرائے کو احتجاج کا خط لکھا اور برطانوی حکومت کو 'سر‘ کا خطاب واپس کر دیا۔
ڈائر کے اس بہیمانہ اقدام پر برطانیہ میں دو قسم کے ردِعمل سامنے آئے۔ ایک طبقے نے ڈائر کے اس اقدام کو سراہا اور اسے سلطنتِ برطانیہ کے لیے ایک کارنامہ قرار دیا۔ ڈائر کے چاہنے والوں نے اسے ہیرو کا درجہ دے دیا اور اسے 26ہزار پاؤنڈز چندہ اکٹھا کر کے دیا گیا‘ جو آج سے سوسال پہلے ایک بڑی رقم تھی۔لیکن برطانیہ میں ہی دوسرا گروہ ان لوگوں کا تھا جنہوں نے جلیانوالہ باغ کے واقعے میں ڈائر کے کردارکی بھرپور مذمت کی اور اس واقعے کو برطانیہ کے لیے شرمندگی کا باعث قرار دیا۔ اس زمانے میں ونسٹن چرچل برطانیہ کے سیکرٹری آف سٹیٹ فار وار تھے۔ انہوں نے اور اس وقت کے برطانوی وزیرِاعظم نے ڈائر کے وحشیانہ اقدام کی بھرپور مذمت کی۔ ایوان نمائندگان میں چرچل کی تقریر کے بعد رائے شماری میں ڈائر کے اس اقدام کے خلاف 247اور حق میں صرف 37ووٹ آئے۔ عوامی سطح پر شدید ردِعمل نے حکومتِ برطانیہ کو اس واقعے کی انکوائری پر مجبور کر دیا۔ یوں 14اکتوبر 1919ء میں ہنٹر (Hunter) کمیشن قائم کیا گیا‘ لیکن ڈائر اپنے اقدام پر نادم نہیں تھا بلکہ وہ آخر دم تک اس کا دفاع کرتا رہا۔ ہنٹر کمیشن کے سامنے اپنے بیان میں ڈائر نے لرزہ خیز انکشاف کیا۔ اس نے تسلیم کیا کہ فائرنگ کے بغیر بھی مجمع کو منتشر کیا جا سکتا تھا۔ کمیشن کے ایک ممبر نے جب سوال کیا کہ اگر جلیانوالہ باغ میں آنے کا راستہ تنگ نہ ہوتا تو کیا تم آرمرڈ گاڑیاں اندر لے آتے؟ اور مشین گن سے لوگوں پر فائر کرتے؟ ڈائر نے انتہائی ڈھٹائی سے جواب دیا ''ہاں میں ایسا ہی کرتا‘‘۔ کمیشن کے ممبر نے سوال کیا ''کیا اس سے ہلاکتوں کی تعداد زیادہ نہ ہو جاتی؟‘‘ ڈائر نے اس کا جواب ہاں میں دیا۔ ڈائر نے کمیشن کو بتایا کہ مجمع منتشر ہونا شروع ہو گیا تھالیکن ہم نے فائر کرنا بند نہیں کیا۔ ہم اُس وقت فائرنگ کرتے رہے جب تک ایمونیشن ختم ہونے کے قریب نہیں آگیا۔ اس سوال پر کہ تم نے فائرنگ کے نتیجے میں زخمی ہونے والوں کی مدد نہیں کی؟ ڈائر نے جواب دیا زخمیوں کی مدد کرنا میرا نہیں ڈاکٹروں کا کام تھا۔ ہسپتال کھلے تھے۔ زخمی ہسپتال جا سکتے تھے۔ کمیشن نے اپنی رپورٹ میں لکھا کہ مارشل لاء کا کوئی جواز نہیں تھا‘اور نہ ہی مارشل لاء کی آڑ میں اس ظالمانہ سلوک کا جو ہندوستانی باشندوں سے روا رکھا گیا ۔کمیشن نے ڈائر کو اس وحشیانہ قتلِ عام کی کڑی سزا دینے کے بجائے صرف یہ تجویز کیا‘ اسے عہدے سے ہٹا دیا جائے۔ یوں اسے 23مارچ 1920ء کو اپنے عہدے سے ہٹا دیا گیا۔اسی طرح افغانستان جنگ میں اسے CBEکا اعزاز نہ دینے کا فیصلہ کیا گیا۔اس واقعے کے بعد جلیانوالہ باغ ہندوستانیوں کے لیے آزادی کا نشان بن گیا۔یہ فیصلہ کیا گیا کہ اس کو آزادی کے لیے مزاحمت کی یادگار کے طور پر محفوظ کر لیا جائے۔ 1920ء میں جلیانوالہ باغ کو پانچ لاکھ ساٹھ ہزار اور چار سو بیالیس روپے میں خرید لیا گیا۔ انگریزوں سے آزادی ملنے کے بعد یہاں شہیدوں کی یادگار تعمیر کی گئی۔ یہ 30فٹ اونچی یادگار 1961ء میں مکمل ہوئی اور اس کا افتتاح اس وقت کے بھارت کے صدر ڈاکٹر چندر پرشاد نے کیا تھا ۔آج بھی سیاح امرتسر میں جلیانوالہ باغ جائیں تو انہیں وہاں 13اپریل کی تاریخ مجسم نظر آتی ہے۔وہ کنواں جس میں 120لوگوں نے کود کر جان دے دی تھی۔یادگار کے طور پر محفوظ کر لیا گیا ہے۔اسی طرح دیواروں پر گولیوں کے نشان بھی اس دن کے زخموں کی طرح آج بھی تازہ ہیں ۔ باغ میں ایک بڑے سے پیالے میں ایک شعلہ دکھائی دیتا ہے۔ اسے شعلٔہ آزادی کہتے ہیں۔ جو اس شعلے کا عکس ہے جو دنیا کے تمام انسانوں کے دلوں میں ازل سے روشن ہے اور ابد تک روشن رہے گا۔ اس واقعے کے آٹھ سال بعدڈائر کا 1927ء میں انتقال ہو گیا اوریوں یہ کہانی اپنے انجام کو پہنچی۔لیکن شایداس کہانی نے ایک اور موڑ لیناہے ۔ابھی ایک اور کردار نے اس کہانی میں آنا ہے ۔ وہ جو 13اپریل 1919کے دن جلیانوالہ باغ میں موجود تھا۔جس کی عمر 19 برس تھی۔ جو لہو کی ہولی کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا تھا۔جس کے اردگرد عورتیں، بچے، جوان اور بوڑھے مر رہے تھے ۔جس کی آنکھوں میں لہو بھر گیا تھا۔جس کے ہاتھوںکی مٹھیاں بھنچ گئیں۔جس کے گلے کی رگیں تن گئی تھیں اور جو لڑکھڑاتے ہوئے لاشوں کے ڈھیر میں کھڑا ہو گیا تھا اور جس نے تڑتڑاتی ہوئی گولیوں کے شور میں چیخ کر کہا تھا ''مجھے ان معصوم لوگوں کے لہو کی قسم ایک دن میں اس خونِ ناحق کا بدلہ ضرور لوں گا‘‘ (جاری)