کہتے ہیں ہر نام کی ایک تاثیر ہوتی ہے جس کا عکس شخصیت میں نظر آتا ہے۔ برصغیر کی نامور اداکارہ اور گلوکارہ ثریا کے ساتھ بھی یہی معاملہ تھا۔ اپنے نام کی تاثیر سے وہ بھی اوج ثریا تک پہنچی تھی۔ ایک ایسی بلندی جس کا صرف تصور کیا جا سکتا ہے۔ 15جون 1929ء کو اس سفر کا آغاز پنجاب کے شہر گوجرانولہ سے ہوا جو قیامِ پاکستان سے پہلے ایک خاموش قصبہ تھا۔ یہیں جمال شیخ اور ممتاز کے گھر ایک بچی پیدا ہوئی تو ان کی خوشی کا ٹھکانہ نہیں رہا۔ وہ ان کی اکلوتی اولاد تھی۔ بچی کا نام ثریا جمال شیخ رکھا گیا۔ اس زمانے میں لاہور کاروباری‘ ثقافتی اور ادبی سرگرمیوں کا مرکز ہوتا تھا۔ ثریا کے والد جمال شیخ فرنیچر کا چھوٹا موٹا کاروبار کرتے تھے۔ آگے بڑھنے کی خواہش انہیں لاہور لے آئی جہاں انہوں نے فرنیچر کی دکان کا آغاز کیا۔ یوں ننھی ثریا گوجرانولہ کے قصبے سے نکل کر لاہور جیسے بڑے شہر میں آگئی۔ لیکن قدرت نے اس کی زندگی میں ایک اور سفر بھی لکھ رکھا تھا۔ اس کی زندگی کو یکسر بدل دینے والا سفر۔ اس کے والدین نے فیصلہ کیا کہ لاہور سے بمبئی جا کر قسمت آزمائی کی جائے۔ ان کے ہمراہ ثریا کی نانی اور ماموں بھی تھے۔ اس وقت تک کسی کے وہم وگمان میں بھی نہ تھا کہ یہ سفر ان سب کی زندگیوں میں کیا انقلاب لانے والا ہے۔ بمبئی میں ثریا کو JB Petit ہائی سکول میں داخل کرادیا گیا۔ اسی زمانے میں ثریا کی دو اور بچوں سے دوستی ہوئی جنہوں نے بڑے ہو کر ثریا کی طرح فلمی دنیا میں نام کمایا۔ ایک نام راج کمار کا تھا جو بعد میں معروف اداکار اور فلمساز بنا اور دوسرے بچے کا نام مدن موہن تھا جس نے موسیقی کی دنیا میں نام کمایا۔ ثریا کی آواز شروع ہی سے منفرد تھی۔ راج کمار اور مدن موہن نے اس کو مشورہ دیا کہ آل انڈیا ریڈیو سے بچوں کے پروگرام میں گایا کرو۔ ثریا کو اپنے جوہر دکھانے کا موقع مل رہا تھا۔ قدرت ثریا کی انگلی پکڑ کر ایک نئے راستے پر لے جا رہی تھی۔
کیسا اتفاق ہے کہ ایک دن نامورموسیقار نوشاد نے ریڈیو پر ثریا کی آواز سنی۔ وہ یہ آواز سن کر چونک گئے۔ انہوں نے پتا کرایا کہ کس کی آواز ہے۔ یہ 1942ء کا ذکر ہے۔ ان دنوں نوشاد اے آر کاردار کی فلم ''نئی دنیا‘‘ کے لیے موسیقی دے رہے تھے۔ فلم میں ایک کردار بوٹ پالش کرنے والے بچے کا تھا‘ جس پر ایک گانا بھی فلمایا جانا تھا۔ نوشاد نے کاردار سے کہا کہ یہ گانا ثریا سے گوایا جائے۔ یوں ثریا کا پہلا گانا ''بوٹ کروں میں پالش بابو‘‘ تھا۔ پہلے دن ہی سے نوشاد نے ثریا کی صلاحیتوں کا اندازہ لگا لیا تھا۔ اسی سال کاردار کی ایک اور فلم ''شاردا‘‘ میں نوشاد نے ایک بار پھر ثریا کو گیت گانے کا موقع دیا۔ وہ اتنی چھوٹی تھی کہ اسے ایک سٹول پر کھڑے ہو کر گانا پڑا‘ اور یہ گانا اس سے بڑی عمر کی اداکارہ مہتاب پر فلمایا گیا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ فلموں سے ثریا کا تعارف 1936ء میں ہو چکا تھا جب بطور چائلڈ سٹار اس نے ایک فلم میں کام کیا۔ اس تعارف میں اس کے ماموں ظہور کا ہاتھ تھا۔ ظہور لاہور سے بمبئی آکر فلموں میں کام کرنے لگا تھا‘ اور ولن کے کردار کرنے کے لیے جانا جاتا تھا۔ جلد ہی اسے ایک فلم ''تاج محل‘‘ میں ممتاز محل کا کردار مل گیا۔ یوں ثریا بیک وقت ایک اداکارہ اور گلوکارہ کے طور پر بمبئی کی فلمی دنیا میں داخل ہوئی اور آناًفاناً اسے تسخیر کر لیا۔ اسے ملکۂ حسن‘ ملکۂ موسیقی اور ملکۂ ترنم جیسے خطاب ملے۔ کہتے ہیں 1940ء سے 1950ء تک وہ فلموں میں سب سے زیادہ معاوضہ لینے والی اداکارہ تھی۔ راج کمار‘ دیوآنند اور دلیپ کمار کا معاوضہ اس سے کہیں کم تھا۔ اس کے پاس ایک کیڈلک گاڑی تھی جس پر وہ سفر کرتی تھی۔ وہ کرشنا محل ‘میرین ڈرائیو میں رہتی تھی۔ اکثر ایسا ہوتا کہ اس کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے لوگوں کی بھیڑ لگ جاتی اور ٹریفک جام ہو جاتی۔
ثریا کو گلوکاری کے میدان میں نوشاد نے متعارف کرایا تھا۔ ''انمول گھڑی‘‘ اور ''دل لگی‘‘ فلموں کے گیت نوشاد کی موسیقی اور ثریا کی آواز میں امر ہو گئے تھے۔ ''انمول گھڑی‘‘ کا گیت ''کیا مل گیا بھگوان مرے دل کو دکھا کے‘‘ اور فلم دل لگی کے گیت ''مرلی والے مرلی بجا‘‘ اور ''تو مرا چاند میں تری چاندنی‘‘ آج بھی پہلے دن کی طرح تروتازہ ہیں۔ ثریا نے نوشاد کے لیے 51 گیت گائے‘ لیکن اس سے بھی زیادہ گیت ثریا نے بھگت رام کے لیے گائے۔ ان گیتوں کی تعداد 58 ہے۔ ایس ڈی برمن کی موسیقی میں ثریا نے تین فلموں میں گیت گائے اور خورشید انور کی موسیقی میں 13 گیت گائے۔ یوں ثریا نے 67 فلموں میں کام کیا اور 338 گانے گائے۔ ثریا نے اپنی فلم زندگی میں زیادہ تر گیت وہ گائے جو اس پر فلمائے گئے۔ پھر اس کی ملاقات اس وقت کے ابھرتے ہوئے اداکار دیوآنند سے ہوئی۔ دونوں نے کئی فلموں میں ایک ساتھ کام بھی کیا۔ دونوں ایک دوسرے کی شخصیت کے طلسم میں گرفتار ہو گئے تھے اور پھرایک دن دیو آنند نے ثریا کو باقاعدہ پروپوز کیا اور اسے ہیرے کی انگوٹھی پہنا دی۔ ثریا کے لیے یہ ایک خاص دن تھا۔ اس نے بخوشی انگوٹھی قبول کر لی لیکن کہانی میں ابھی اور موڑ آنا تھا۔ ثریا کی نانی بادشاہ بیگم‘ جو اس کی ساری فلمی سرگرمیوں کی نگرانی کرتی تھی‘ کے لیے یہ شادی ناقابلِ قبول تھی۔ کہتے ہیں اُس نے وہ انگوٹھی ثریا کی انگلی سے اُتاری اور لہراکر سمندر میں پھینک دی۔ نانی اور ماموں نے دھمکی دی تھی کہ اگر اس نے آئندہ دیوآنند کے ساتھ فلموں میں کام کیا یا اس سے شادی کے بارے میں سوچا تو وہ دیوآنند کو مار دیں گے۔ ثریا اس دھمکی سے ڈر گئی اور یوں محبت کی اس کہانی کا دردناک انجام ہوا۔ دیوآنند نے کچھ برس بعد کلپنا سے شادی کرلی لیکن ثریا نے مرتے دم تک شادی نہیں کی۔ دیوآنند سے راہیں جدا ہونے کے بعد اس کے اندر کوئی چیز ٹوٹ گئی تھی۔ وہ فلموں میں کام تو کر رہی تھی لیکن وہ جوش اور جذبہ باقی نہ رہا تھا۔ تب اس کی زندگی میں پھر ایک نیا موڑ آیا۔ 1954ء میں سہراب مودی نے فلم ''مرزا غالب‘‘ بنائی۔ اس فلم میں ثریا نے اداکاری اور گلوکاری کے جوہر دکھائے۔ اس کی موسیقی غلام محمد نے دی تھی اور ثریا نے غالب کی غزلیں اس طرح گائیں کہ آج بھی ان کی تازگی برقرار ہے۔ ثریا ایک بار پھر لوگوں کی توجہ کا مرکز بن گئی تھی۔
یہ شاید 1963ء کی بات ہے جب اچانک کہانی میں ایک اور غیر متوقع موڑ آیا۔ ہوا یوں کہ فلم ''جانور‘‘ میں ثریا دلیپ کمار کے ساتھ کام کر رہی تھیں۔ ایک دن شوٹنگ کے دوران کوئی ایسی بات ہوگئی کہ ثریا نے دلیپ کمار کے ساتھ کام کرنے سے انکار کر دیا‘ اور فلم سیٹ چھوڑ کر فلمی دنیا سے ایسی نکلی کہ پھر لوٹ کر واپس نہیں آئی۔ ہر دم اپنے شیدائیوں کی مرکزِ نگاہ رہنے والی نے اب دنیا کے دروازے اپنے لیے بند کر لیے تھے۔ ماں باپ کا انتقال ہو گیا تھا‘ نانی اور ماموں پاکستان چلے گئے تھے۔ اب وہ تھی اور اس کی تنہائی اور پھر یادوں کا ایک بے انت خزانہ۔ زندگی کی چکا چوند نے جہاں اسے مسرت کے لمحے دیے تھے‘ وہیں اس تلخ حقیقت سے بھی آشنا کیا تھا کہ وقت ایک جیسا نہیں رہتا۔ اس کی اولین یادوں میں اس کے گوجرانولہ کا گھر‘ لاہور شہر اور بمبئی سکول کی یادیں شامل تھیں۔ پھر وہ آنکھیں بند کرتی تو اسے فلمی دنیا میں اپنی اداکاری اور گلوکاری کے دن یاد آجاتے اور بلندی کے سفر کی وہ ساری منزلیں جو اس نے چشمِ زدن میں طے کیں تھیں۔ وہ چاہتی تھی کہ اس کی آنکھیں یونہی بند رہیں اور یہ خواب کبھی ختم نہ ہو۔ کہتے ہیں ہر نام کی ایک تاثیر ہوتی ہے۔ اپنے نام کی تاثیر سے وہ بھی اوج ثریا تک پہنچی تھی ایک ایسی بلندی جس کا صرف تصور کیا جا سکتا ہے۔