ہم جیسے کتنے ہی لوگ آئے جنہوں نے ''سب رنگ‘‘ کے احیا کے خواب دیکھے اور ان کی تعبیر کے لیے مقدور بھر کو شش بھی کی۔ یہ سب لوگ ایک گم گشتہ خواب کی بازیافت چاہتے تھے جو انہوں نے ایک بیتے جُگ میں ''سب رنگ‘‘ کی شکل میں دیکھا تھا۔ نیشنل بک فائونڈیشن سے سب رنگ کی منتخب کہانیوں پر مبنی کتابوں کی اشاعت کا منصوبہ ادھورا رہ گیا تھا‘ جس میں شکیل بھائی کے ہاں وقت کی کم یابی کا زیادہ دخل تھا۔ یوں سب رنگ کہانیوں کی اشاعت کی جو کرن جاگی تھی‘دم توڑ گئی‘ لیکن کہتے ہیں دشتِ جنوں دیوانوں سے کبھی خالی نہیں رہتا۔ اب کے اس دشت میں تازہ نووارد نوجوان حسن رضا گوندل تھا ''سب رنگ‘‘ جس کا کل وقتی عشق تھا۔ دلچسپ بات یہ کہ 1980 میں منڈی بہاؤالدین کے جس گورنمنٹ ڈگری کالج سے میں نے انگلش کے لیکچرر کے طور پر ملازمت کا آغاز کیا تھا‘ حسن رضا بھی چھ سال بعد اسی کالج میں فرسٹ ایئر کا طالب علم بنا۔ ''سب رنگ‘‘ سے اس کا تعارف یہیں سے ہوا تھا۔ پھر وقت کا بہاؤ اسے لندن لے گیا لیکن ''سب رنگ‘‘ سے اس کے عشق کی لو کم نہ ہوئی۔ اس نے سب رنگ کے تمام پرانے رسالے نہ صرف تلاش کیے بلکہ ان سب کو ڈیجیٹل صورت میں محفوظ بھی کر لیا۔ یہ ایک فرد کا نہیں ادارے کا کام تھا جو اس نے تنِ تنہا کیا۔ اس کا اگلا خواب ''سب رنگ‘‘ کی کہانیوں کے انتخاب کا تھا۔ اس خواب کی تعبیر اتنی سہل نہ تھی‘ لیکن کہتے ہیں جذبہ صادق ہو تو منزلیں آسان ہو جاتی ہیں۔ ''سب رنگ‘‘ کہانیوں کے انتخاب مرتب ہو گئے تو ان کی اشاعت کا مرحلہ پیش آیا۔ ایسے میں جہلم بک کارنر کے دو سخن فہم بھائیوں گگن شاہد اور امر شاہد نے اشاعت کے لیے اپنی خدمات پیش کیں۔ یوں صحرا کے اس طویل سفر کا پہلا نخلستان ''سب رنگ کہانیاں‘‘ کی صورت میں سامنے آیا۔ یہ انتخاب ان غیر ملکی کہانیوں کے تراجم پر مشتمل ہے‘ جو سب رنگ میں وقتاً فوقتاً چھپتی رہیں۔ ''سب رنگ‘‘ کا یہ امتیاز تھا کہ اس میں اردو اور دیگر زبانوں میں شائع ہونے والے ادب کا کشید کردہ عطر ہوتا۔ سب سے پہلا مرحلہ کہانیوں کے انتخاب کا ہوتا تھا۔ اس کے لیے کڑے معیار متعین تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ان معیارات سے گزر کر منتخب ہونے والی کہانیاں دلچسپ، منفرد اور فکر انگیز ہوتی تھیں۔ کہانی کے انتخاب کے بعد کہانی کا عنوان رکھنے کا مرحلہ آتا۔ یہ مرحلہ اتنا آسان نہ ہوتا۔ یہی خوب سے خوب تر کا سفر تھا۔ اکثر کہانی کے بیسیوں عنوانات تجویز کیے جاتے جن میں سے ایک کا انتخاب ہوتا۔ کہانی کا منتخب کردہ عنوان ایک تو منفرد ہوتا اور پھر کہانی کی روح بھی اس میں دھڑک رہی ہوتی۔ چند کہانیوں کے عنوانات دیکھئے: آشیاں سلامت، سرِ بازار ، ناتراش، زمیں دوز، چور چکور، عامل معلوم، نیم کش، باپتا، ہم عشق، برفاب، دستِ لرزاں، اور برہدف۔ یہ کہانیوں کی فہرست میں سے لیے گئے کچھ نام ہیں۔ دیکھئے کس طرح ہر نام تراشے ہوئے نگینے کی طرح جگمگا رہا ہے اس نگینے کی ڈلک میں کہانی کا ایک مدھم ہیولیٰ تو نظر آتا ہے لیکن اس کا سراپا اوجھل رہتا ہے جو قاری کی تشنگی کو اور بڑھاتا ہے۔ عنوان کے ہمراہ کہانی کار کا مختصر تعارف ہوتا۔ یہ تعارف بذاتِ خود ادب کا شہ پارہ ہوتا جس میں شکیل عادل زادہ کے فن کی جھلک صاف نظر آتی۔ ایک کہانی کار کے بارے میں یہ تعارفی سطریں ملاحظہ کریں ''ماہم کے بیان کی سب سے بڑی خوبی اس کی سلاست ہے۔ شگفتگی، سادگی، ستھرا پن۔ اس کا پیرایۂ اظہار، نکھرا نکھرا، دُھلا دُھلا ہے۔ بے شکن، شفاف اور نازک‘‘۔ کہانی کاروں کے تعارف کے ساتھ ساتھ بعض اوقات ترجمہ نگاروں کے بارے میں بھی معلومات دی جاتیں۔ ان سب تعارفی کلمات کا مقصد کہانی کے حوالے سے قارئین کی اشتہا بڑھانا ہوتا۔ ترجمہ نگار اسمٰعیل مینائی کا تعارف دیکھئے ''قانون دان، ادیب، شاعر اور بہت اچھے منتظم، ہماری ڈھلتی اور بکھرتی ہوئی تہذیب کے نمائندہ، ہمارے ایک بزرگ، خوش فکر اور خوش کلام‘‘ کہانی کے عنوان، کہانی کار/ ترجمہ نگار کے مختصر تعارف کے بعد کہانی کے بارے میں دو تین سطری تعارف ہوتا۔ یہ سطریں کہانی کے تعارف کے ساتھ ساتھ قاری کو اردو زبان کے ان نئے ذائقوں سے آشنا کراتیں‘ جو شکیل عادل زادہ کے چمنستانِ خیال سے کشید کیے جاتے۔ چند مثالیں ''مغرب سے ایک مختصر مختصر، دل نشیں، دل ستاں داستاں‘‘ ''سنگِ میل، صاحبِ طرز ، نادرہ کار، ناقابلِ فراموش‘‘ ایک اور تعارف ''امریکہ سے درآمد کردہ ایک چہکتی مہکتی ، انوکھی، اچھوتی کہانی‘‘۔ یہ سطریں ایک جھلک دکھا کر بہت کچھ چھپاتی بھی تھیں۔ اردو زبان میں ترسانے کے اس عمل کے لیے ''ڈہکانا‘‘ کا لفظ موجود ہے۔ ملاحظہ کریں ''اس کی زلفیں ریشم، آنکھیں غزالی، سراپا ناز، سرتا پا بہار، ہر کسی کے لیے۔ اس میں ایک اور خوبی بھی تھی ان سب پر مستزاد...‘‘ وہ کیا خوبی تھی اس کا ذکر قاری کو تعارف میں نہیں ملتا تھا۔ اس خوبی کی تلاش میں قاری کا پوری کہانی کا پڑھنا ضروری تھا۔ یہ سطریں بعض اوقات قاری کو کہانی پڑھنے کی وجہ براہِ راست بھی بتاتیں‘ مثلاً ''ناراض وقت کو منانے کے لیے ایک فرحت نظر، عبرت اثر تحریر‘‘۔ کہانی کے معیار اور اعتبار کو ثابت کرنے کے لیے کہانی کاروں کے ادبی مرتبے کا ذکر بطورِ خاص ہوتا۔ مثلاً اسے اے سی بی نے لکھا ہے، یہی اس تحریر کی سب سے بڑی سند ہے‘‘ ''سمرسٹ مام کے ستم ایجاد، سحر طراز قلم سے‘‘ ''دنیا کے ایک نادرِ روزگار کہانی کار چیخوف کی تحریر‘‘ ''فرانس کے مایہ ناز داستان کی موپاساں کی زبانی‘‘۔ یوں کہانی کاروں کے اسلوب کی کشش قاری کو کہانی کی عمارت میں داخل ہونے کی ترغیب دیتی تھی۔ ترغیب کا ایک اور طریقہ قاری کے ساتھ ایک تعلق اور رشتہ کا قائم کرنا اور انہیں یہ باور کرانا تھا جیسے یہ سطریں انہیں کے لیے لکھی گئی ہیں۔ مثال کے طور پر ''ستم زدگان کے لیے چین سے ایک چھوئی موئی تحریر‘‘ اس تعلق کی ایک اور مثال دیکھئے ''جو عشق کے مدعی ہیں اور کلیے بناتے ہیں مفروضے قائم کرتے ہیں انہیں بطورِ خاص یہ تحریر پڑھنی چاہیے‘‘۔
ان سب ترغیبی پہلوؤں کے ہمراہ تعارفی سطروں میں زبان کا وہ چٹخارہ ہوتا جو شکیل عادل زادہ کی خاص پہچان ہے۔ ذرا لفظوں کا بانکپن اور در و بست دیکھئے ''ایک شگفتہ و نو دمیدہ تحریر‘‘ ''اپنے عہد کی ایک عبرت ساماں، فرحت نظر داستان‘‘ ''فرانس سے نرم و نازک لفظوں کا آب گینہ‘‘ تعارف، تعلق اور تخلیق کے بعد شکیل عادل زادہ کے پاس ایک ترپ کا پتہ بھی تھا۔ یہ ایک جملہ تھا جس کا استعمال شکیل عادل زادہ فراوانی سے کرتے تھے ''وہ کہانیاں جو مغرب میں لکھی جاتی ہیں‘‘۔ یہ وہ داؤ تھا جس سے قاری چاروں شانے چِت ہو جاتا اور اب ایک طویل عرصے کے بعد ان کہانیوں کا انتخاب ''سب رنگ کہانیاں‘‘کی شکل میں شائع ہوا ہے۔ ''سب رنگ کہانیاں‘‘ دراصل ''سب رنگ‘‘ ڈائجسٹ کا دوسرا جنم ہے۔ وہی رنگ، وہی چمک، وہی دلآویزی، وہی بانکپن۔ ان کہانیوں کا مطالعہ کریں تو اس راز سے پردہ اُٹھتا ہے کہ کیسے شکیل عادل زادہ ایک مشاق معمار کی طرح عمارت کی بنیا د رکھتے ہیں اور پھر کس طرح اس پر ایک خوش نما عمارت کی تعمیر کرتے ہیں۔ کیسے اس کے دروبام پر گُل بوٹے بناتے ہے اور پھر کس طرح رہگزاروں کو اس میں داخل ہونے کی ترغیب دیتے ہیں۔ عمارت کی نیو رکھنے سے اس کی مہورت تک ایک ایک مرحلے میں معمار کے دستِ ہنر اور حسنِ تخلیق کے معجزے نظر آتے ہیں۔ ''سب رنگ کہانیاں‘‘ شکیل عادل زادہ کی دھنک رنگ خواب سرائے ہے جہاں بہت سے مسحور کن منظر اور نشاط انگیز لمحے آپ کے منتظر ہیں۔