"SSC" (space) message & send to 7575

دریائے سندھ، ہنڈ اور تاریخ کا سفر

پرانی جگہوں کا ایک جادو ہوتا ہے جو ہر دم ہمیں اپنی طرف بلاتا رہتا ہے۔ اس روز بھی ہنڈ کے طلسم کی کشش مجھے اپنی طرف کھینچ رہی تھی۔ ہنڈ‘ جو کسی زمانے میں گندھارا کا دارالحکومت تھا جس کے حسن و خوبی کے چرچے ہر طرف تھے۔ کیسی عجیب بات ہے‘ میں چار سال اس کے ہمسائے میں رہا اور اس کے وجود سے بے خبر رہا۔ ان دنوں میں غلام اسحٰق خان انسٹیٹیوٹ آف انجینئرنگ سائنسز میں پڑھا رہا تھا‘ جہاں سے ہنڈ کا فاصلہ تقریباً 15 کلومیٹر تھا۔ اس روز میں، میجر عامر اور رؤف کلاسرا جب ہنڈ کے تاریخی گاؤں کی طرف جا رہے تھے‘ تو مجھے یوں لگ رہا تھا ایک دیرینہ خواب کی تکمیل ہو رہی ہے۔ پرانی جگہوں میں تاریخ کے نیلم اور مرجان تلاش کرنے کی خواہش بھی عجیب خواہش ہے جو ہمیں معدوم شہروں کے اجڑے گلی کوچوں میں دوڑائے پھرتی ہے۔ یہی خواہش مجھے ایک بار موہنجو داڑو لے گئی تھی جہاں ایک گمشدہ تہذیب کے آثار اب بھی ماضی کی کہانیاں سُنا رہے تھے۔ پھر ایک دن عزیز دوست اور ماہرِ آثارِ قدیمہ حسن کی دعوت پر ہڑپہ گیا۔ ان دنوں حسن اس میوزیم کا کیوریٹر تھا۔ اس شہرِ برباد کا بھی اپنا افسوں تھا۔ پھرکٹاس راج کا مندر، بدھا اور دھن راج کی لال حویلی، مانکیالہ کا قدیم سٹوپا۔ میرا شوق مجھے قدیم راستوں پر لیے پھرتا رہا۔ یوں لگتا ہے ان راستوں کی زمین، پتھروں اور ہواؤں میں جیسے وقت تھم گیا ہو‘ اور آج ہنڈ کے تاریخی مقام کا سفر۔ اسلام آباد سے پشاور جانے والی موٹروے پر سفر کریں تو صوابی انٹرچینج سے نکل کر انبار گاؤں آتا ہے۔ وہاں سے ہنڈ تقریباً تین کلومیٹر دور ہے۔ ہماری گاڑی ہنڈ گاؤں کی طرف جا رہی تھی۔ اِردگِرد کھیتوں میں تمباکو کی چوڑے پتوں والی فصل لہلہا رہی تھی۔ مکئی اور گنے کے علاوہ تمباکو یہاں کی اہم پیداوار ہے۔ دونوں طرف سے گھاس اور جھاڑیوں سے اٹے ہوئے راستے پر چلتے ہوئے اچانک ہمیں دائیں طرف ایک پُرانے قلعے کے آثار نظر آئے‘ اور پھر اس کا بڑا دروازہ جس کی محراب زمانے کی دست برد کی نذر ہو چکی تھی۔ قلعے کے اندر لوگوں نے اپنے گھر بنا لئے تھے۔ میں نے سوچا‘ کوئی زمانہ ہو گا جب اس قلعے کے آس پاس پرندہ بھی پَر نہیں مار سکتاہو گا‘ اور اب یہ عوامی گزرگاہ ہے۔ یہی تاریخ کا سبق ہے طاقت کے مراکز بدلتے رہتے ہیں‘ لیکن تاریخ کے اس سبق کو زورآور کم ہی سمجھتے ہیں۔ ہمیں بتایا گیا تھا کہ یہاں پر ہنڈ کا عجائب گھر بھی ہے‘ جہاں پُرانی تہذیب کے مختلف ادوارکے آثار رکھے ہیں۔ اب ہم تنگ گلی میں تھے۔ ہمارے دائیں ہاتھ ایک سیاہ رنگ کا گیٹ تھا جو بند تھا۔ اس وقت شام کے چھ بج رہے تھے میں مایوس ہو گیا کہ شاید میوزیم کا وقت ختم ہو چکا ہے‘ لیکن پھر اچانک گیٹ کھل گیا۔ گیٹ کے اندر کی دُنیا ہی اور تھی۔ یہ ایک وسیع وعریض جگہ تھی جہاں پر سرسبز لان تھے‘ میوزیم کی عمارت تھی اور سامنے دریائے سندھ۔ میوزیم کے کیئرٹیکر سجاد خان نے ہمیں میوزیم کے مختلف حصوں کی سیر کرائی‘ جہاں ہنڈ کی تاریخ وثقافت کے حوالے سے مختلف چیزیں رکھی گئی تھیں‘ جیسے برتن، زیورات، سکے اور عام استعمال کی اشیا۔ یہ جان کر اطمینان ہواکہ میوزیم کی دیکھ بھال اچھے طریقے سے کی جارہی ہے۔ کیئرٹیکر سجاد خان کا تعلق بھی ہنڈ گاؤں سے ہے‘ اس لیے بھی اسے اس میوزیم اور اس میں رکھی ہر چیز سے محبت ہے۔ ہنڈ کی تاریخ کے مختلف ادوار کے بارے میں بتاتے ہوئے اس کے چہرے پر مسرت اور افتخار کے رنگ تھے۔ میوزیم کی عمارت سے نکل کر ہم وسیع لان میں آ گئے۔ ایک طرف ریلنگ تھی اور اس طرف دریائے سندھ تھا۔ ہم ریلنگ کو تھام کر دریائے سندھ کے پار کی بستیوں کو دیکھ رہے تھے‘جہاں چھچھ کا علاقہ تھا۔ یہ وہی مقام ہے جہاں سے 326 قبل مسیح میں سکندراعظم نے دریائے سندھ کو عبور کیا تھا اور پھر ہرو کے مقام پر ایک ماہ قیام کیا تھا۔ وہیں ٹیکسلا کے راجہ امبی نے اسے اپنی وفاداری کا یقین دلایا تھا اور بغیر مزاحمت کئے اس کے سامنے ہتھیار ڈال دئیے تھے لیکن گجرات کے راجہ پورس نے ہتھیار ڈالنے کے بجائے جنگ کو ترجیح دی تھی۔ اب ہماری پشت پر سورج غروب کے سفرپر تھا۔ ایسی ہی ایک شام تھی جب چنگیز خان جلال الدین خوارزمی کا تعاقب کرتے ہوئے ہنڈ کے علاقے میں پہنچا تھا۔ جلال الدین خوارزم خاندان کا آخری شہزادہ تھا‘ بہادری اور شجاعت کا مرقع۔ اس نے چنگیز خان کے لشکر کا بھرپور مقابلہ کیا۔ چنگیز خان نے اپنے لشکر کو سختی سے ہدایت کی تھی کہ جلال الدین کو زندہ گرفتار کرنا ہے۔ جلال الدین خوارزم کے پیچھے چنگیز خان کا خوں آشام لشکر تھا‘ اور دوسری طرف دریائے سندھ کا ٹھاٹھیں مارتا پانی۔ تو کیا چنگیز خان کے سپاہی اسے زندہ گرفتار کر لیں گے۔ یہ اس کی غیرت کے خلاف تھا۔ پھر جیسے کوئی بجلی چمکی کوئی کوندا لپکا۔ چنگیز خان کے سپاہیوں نے دیکھاکہ جلال الدین نے گھوڑے کو دریائے سندھ کے تندوتیز پانی کے حوالے کر دیا۔ چنگیز خان نے اپنے سپاہیوں کو تعاقب سے روک دیا۔ اس نے اپنی زندگی میں اتنا جری جنگجو نہیں دیکھا تھا جس نے گرفتار ہونے کے بجائے دریائے سندھ کی لہروں سے لڑنے کو ترجیح دی تھی۔ چنگیز خان کو یقین تھاکہ جلال الدین دریائے سندھ کی پُرشور لہروں کا لُقمہ بن جائے گا لیکن قسمت بہادروں پر مہربان ہوتی ہے۔ جلال الدین دریائے سندھ کی لہروں سے لڑتا دریا کے دوسرے کنارے پر سلامت پہنچ گیا تھا۔ کہتے ہیں ہندو شاہی حکمرانوں کے دور میں ہنڈ گندھارا کا دارالحکومت تھا۔ دور دور تک اس کی خوبصورتی کے چرچے تھے۔ اس کے اطراف کیسے کیسے خوش رنگ باغات تھے۔ بادام، اخروٹ، کھجور اور کیلے کے پھل دار درختوں کے جھنڈ تھے۔ خوش حالی کا دور دورہ تھا۔ یہی وہ زمانہ تھا جب محمود غزنوی نے ہنڈ پر حملہ کیا۔ اس وقت یہاں کا حکمران آنند پال تھا‘ جس کے پاس منظم فوج تھی۔ گھمسان کا رن پڑا‘ جس میں آخری فتح محمود غزنوی کے حصے میں آئی‘ یوں ہنڈ کی تاریخ میں مُسلم دور کا آغاز ہوا۔ پھر ہنڈ کی سرزمین نے مغل بادشاہ بابر کو دیکھا جس کا لشکر یہاں آیا تھا۔ یہیں پر بابر نے یوسف زئی قبیلے کے ایک سردار کی بیٹی مبارکہ بی بی سے شادی کی تھی۔ اس شاہی نسبت سے یہ گاؤں اب بھی شاہ منصور کے نام سے جانا جاتا ہے۔ یوں یہ شادی مغلوں اور یوسف زئی قبیلے میں صلح کا پُل بن گئی‘ لیکن یہ صلح عارضی تھی۔ شہنشاہ اکبر کے دور میں سلطنت کے خلاف یوسف زئی قبائل نے بغاوت کا علم بلند کردیا‘ جس کے بعد شہنشاہ اکبر نے ہنڈ کا قلعہ تعمیر کرایا تاکہ مغل سلطنت کے خلاف بغاوت کرنے والوں پر نظر رکھی جا سکے۔ اکبر نے اسی دور میں اٹک کے مقام پر ایک اورقلعہ تعمیر کیا تھا۔ اٹک قلعے کی تعمیر سے ہنڈ کی رونق ماند پڑ گئی تھی کیونکہ اب سفر کے لیے بھی متبادل سڑک بنا دی گئی تھی۔ یوں ہنڈ جو کبھی تجارتی سرگرمیوں کا مرکز ہوا کرتا تھا‘ جہاں مختلف گزرگاہیں آ کرملتی تھیں‘ اب مرکز سے ہٹ گیا تھا‘ لیکن ہنڈ کی سرزمین نے ابھی ایک اور شجاع سید احمد شہید کو دیکھنا تھا۔ ایک روایت کے مطابق سید احمد شہید نے ہنڈ کے قلعے میں قیام بھی کیا تھا۔ یہاں سے ان کے پیروکار بالاکوٹ گئے تھے‘ جہاں سکھوں کے خلاف فیصلہ کن معرکے میں سید احمد نے جامِ شہادت نوش کیا تھا۔
اب ہنڈ کے غروب ہوتے نارنجی سورج کا رنگ سرخ ہوگیا تھا۔ اس شفق کی سرخی دریائے سندھ کے پانیوں میں نظر آ رہی تھی اور میں سوچ رہاتھا کہ دریائے سندھ کے ان پانیوں میں کتنے ہی گُمنام لوگوں کا خون شامل ہوگا۔ وہ عام لوگ جو اپنے بیوی بچوں کواپنے گھروں میں انتظار کی چوکھٹ پر بٹھاکر بہت دور اجنبی راستوں پرچلے آئے تھے۔ وہ جو پھرکبھی اپنے گھروں کو واپس نہ جاسکے اور وہ جن کا لہو اپنے آقاؤں کے خوابوں میں تو رنگ بھرگیا تھا لیکن جن کے اپنے آنگن کے خواب ادھورے رہ گئے تھے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں