کہتے ہیں بچپن کا پُراسراریت اور خوبصورتی سے گہرا تعلق ہوتا ہے۔ شاید زندگی کے ان دیکھے پہلوؤں کا تصور اسے اور بھی حسین بنا دیتا ہے۔ میرے بچپن کے دن رات بھی پراسراریت اور خوبصورتی میں لپٹے ہوئے تھے۔ آج ایک مدت بعد میں اپنے بچوں کے ہمراہ اپنے گاؤں آیا تھا۔ اس حویلی میں ایک رات گزارنے کے لیے جہاں میری نانی اور نانا رہا کرتے تھے، جو میری والدہ کا گھر تھا‘ اور جہاں ہم اکثر گرمیوں کی چھٹیوں میں جا کر رہا کرتے تھے۔ یہ پوٹھوہار کا ایک چھوٹا سا گاؤں ہے جو روات سے تقریبا آٹھ کلومیٹر دور ہے۔ تب گاؤں کی پگڈنڈیاں سرِشام ویران ہو جاتی تھیں۔ گاؤں کی عورتیں دن بھر کے کام سمیٹ کر ہماری نانی کے گھر آجاتی تھیں۔ ہرایک کے ہاتھ میں ایک لالٹین ہوا کرتی تھی۔ پھر باتوں کا سلسلہ شروع ہوجاتا۔ اپنے گھر کی باتیں، دوسروں کے گھروں کی باتیں، اپنے گاؤں کے قصے، اردگرد کے گاؤں کے واقعات۔ میں دن بھر کھیلتا کودتا اور رات کو بستر پر لیٹتا تو نیند سے آنکھیں بند ہونے لگتیں۔ عورتوں کی گفتگو پہلے تو صاف سُنائی دیتی پھر غنودگی کے عالم میں یہ آوازیں ڈوبنے لگتیں اورپھر میں نیند کی آغوش میں چلا جاتا۔ اس زمانے میں ہمیں بھوتوں اور چڑیلوں کے قصوں سے ڈرایا جاتا۔ گاؤں کے کئی مقامات کو 'بھاری‘ کہا جاتا جس کا مطلب یہ تھاکہ وہ آسیب زدہ ہیں۔ گاؤں کے بڑے ہمیں تلقین کرتے کہ ان درختوں کے نیچے سے نہیں گزرنا۔ کئی درختوں پر پرانی بوسیدہ لیریں لٹک رہی ہوتیں‘ جو انہیں اور بھی پراسرار بنا دیتی تھیں۔ خود نانی کی حویلی میں بیری کا ایک درخت ایسا تھا جس کے بارے میں مشہور ہوگیا تھا کہ یہاں جِن رہتا ہے۔ میں دن کواس کی ٹہنیوں اور گھنے پتوں کو دیکھتا اور حیران ہوتاکہ جِن کہاں رہتا ہوگا لیکن یہ داستانیں اتنا زور پکڑ گئیں کہ آخرکار بیری کے اس درخت کو کٹوا دیا گیا۔ اب میں سوچتا ہوں‘ کیسے بھوتوں اور چڑیلوں کے قصوں کا شکار نہ صرف انسان بلکہ درخت بھی بن سکتے ہیں۔ مجھے ہمیشہ اس بیری کے کٹنے کا افسوس رہا۔
میرے نانا مری کے ایک سکول میں استاد تھے۔ مری کے نزدیک ایک جگہ اوسیا ہے۔ وہیں وہ ایک سکول میں ریاضی پڑھاتے تھے۔ پھر ان کا تبادلہ دھمیال ہوگیا۔ یوں وہ ملازمت کے دنوں میں گاؤں سے دور ہی رہے۔ بس چھٹیوں میں گھر آتے۔ ایک باروہ گرمیوں کی چھٹیوں میں گھر آئے تو اپنے ہمراہ سکول کے بچے بھی لے آئے تاکہ انہیں امتحان کی تیاری کرائی جا سکے۔ یہ اس زمانے کا سمر کیمپ تھا‘ جس کی کوئی فیس نہیں تھی۔ بسلسلہ ملازمت ناناکے گھر سے دور ہونے کی وجہ سے عملاً میری نانی اتنی بڑی حویلی میں اکیلی تھیں۔ ان کے بچے ابھی چھوٹے تھے لیکن وہ بہادر خاتون تھیں۔ خطروں سے گھبراتی نہیں تھیں۔ میری والدہ بتاتی ہیں کہ ان دنوں اردگرد کے دیہات میں چوری کی وارداتوں کی خبرملی تو ہم بہن بھائی ڈر گئے لیکن والدہ نے تسلی دی کہ ہمیں ڈرنے کے بجائے ہوشیار رہنا ہوگا۔ حویلی کے دو دروازے تھے ایک مشرق میں اور ایک مغرب میں۔ نانی نے اس زمانے میںکالے رنگ کا ایک کُتا پال رکھا تھا‘ جسے وہ پیار سے موتی کہتی تھیں۔ پھر وہ رات آہی گئی جس کا ڈر تھا۔ جاڑے کا موسم تھا۔ سب لوگ سو رہے تھے کہ کسی نے حویلی کے مغربی دروازے کو کھولنے کی کوشش کی ماں بتایا کرتیں کہ شور سن کرنانی دوڑ کر دروازے پر گئیں۔ ایک بھاری کرسی دروازے کے سامنے رکھی اور کرسی کے اوپر مجھے بٹھا دیا۔ اب باہر دوڑتے قدموں کی آوازیں سُنائی دے رہی تھیں اورپھر حویلی کے مشرقی دروازے کو کھولنے کی کوشش ہونے لگی۔ اب نانی دوڑتی ہوئی مشرقی دروازے کی طرف گئیں۔ اس کے سامنے چکی کا پُڑ (پاٹ) رکھ دیا۔ اس رات کی کہانی ماں کے دل ودماغ میں آخر دم تک رہی۔ اسی طرح ایک روز گرمیوں کے موسم میں ہم سب صحن میں سو رہے تھے کہ اچانک موتی کے بھونکنے کی اور پھر انسانی چیخوں کی آوازیں آئیں۔ گھر کے لوگ جاگے تو پتا چلا کہ موتی نے چوروں کو گھر میں داخل نہیں ہونے دیا‘ اور اس نے ایک چور کی ٹانگ بھی زخمی کردی تھی۔
حویلی کا ایک بہت کشادہ صحن تھا۔ پھر ایک برآمدہ‘ جس میں ستونوں والی محرابیں تھیں۔ ایک ہال نما مستطیل کمرہ تھا جسے ہم اپنی زبان میں (صُفا) کہتے تھے۔ اس کے اندر سے ہی ایک دروازہ ایک اور کمرے میں کھلتا تھا‘ اور پھر اندر ہی اندر ہم تیسرے کمرے میں پہنچ جاتے تھے‘ لیکن اندر کی دونوں کوٹھڑیاں مکمل تاریکی میں ڈوبی ہوتیں۔ وہاں دن کو جاتے ہوئے بھی ہمیں ڈر محسوس ہوتا۔ ایک کوٹھڑی میں ایک بڑے سے مرتبان میں اچار ہوتا جسے روشی اور دھوپ سے بچا کر یہاں رکھا جاتا تھا۔ حویلی میں موتی کے علاوہ دو اور مہمان بھی تھے‘ لیکن یہ بِن بُلائے مہمان تھے۔ ایک تو سیاہ رنگ کا ایک سانپ تھا‘ جو ہمیں کبھی کبھار نظر آتا۔ شاید حویلی اس کا مسکن تھی۔ نانی کا خیال تھاکہ اگر وہ یہاں امن سے رہ رہاہے اور ہمیں نقصان نہیں پہنچا رہاتو ہمیں بھی اسے نقصان نہیں پہنچانا چاہیے۔ حویلی کا ایک اور باشندہ خارپشت تھا جس کا ٹھکانہ ہمیں معلوم تھا۔ وہ جب اپنی شکل بدل کر ایک گیند کی طرح بن جاتا تو اس کے نوکیلے کانٹے صاف نظر آتے۔
یوں سانپ، خارپشت اور موتی اس حویلی کا حصہ تھے‘ لیکن ایک روز عجیب بات ہوئی۔ نانی چارپائی پر بیٹھی ہوئی تھیں کہ انہوں نے دیکھا‘ موتی حویلی کے دروازے سے اندر داخل ہوا۔ اس کی چال میں لڑکھڑاہٹ تھی جیسے اسے اپنے قدموں پر قابو نہ ہو۔ اس نے نانی کے پاس آکر ان کے قدموں پر سررکھ دیا۔ نانی نے پیار سے اس کے سرپر ہاتھ پھیرا تو وہ خاموش رہا۔ نانی نے دیکھا کہ اس کی خوبصورت آنکھیں بند ہو چکی تھیں۔ اس نے اپنی وفاداری کا بھرم رکھا تھااور مالکہ کے قدموں میں دم توڑا تھا۔ یہ صدمہ نانی ساری زندگی نہ بھولیں۔ انہیں پورا یقین تھا کہ موتی کوکسی نے زہر دے دیا ہے۔ انہیں شک تھاکہ زہر انہی لوگوں نے دیا ہے جن کی چوری کی کوشش کو موتی نے ناکام بنا دیا تھا۔ گاؤں کی زندگی میں ایک بڑا موقع گاہ گاہنے کا ہوتا۔ یہ مرحلہ گندم کی فصل کٹنے کے بعد آتا ہے جب گندم کے دانوں کو بھوسے سے علیحدہ کیا جاتا۔ یہ کسان کی سال بھر کی محنت کے ثمر کا دن ہوتا۔ اس عمل کا آغاز گاہ کھولنے سے ہوتا۔ گاؤں کے کسان گاہ کھولنے سے پہلے ہماری نانی کے پاس آتے جو پردے میں ہوتیں‘ اور ان سے دعاکی درخواست کرتے۔ نانی کی دعا کے بعد ان کے یقین میں اضافہ ہو جاتا اور پھر وہ پوری تندہی کے ساتھ کھیتوں میں گاہ گاہنے کا عمل شروع کر دیتے۔ گاؤں کی دوپہریں سخت گرم ہوتیں۔ اس وقت نہ پنکھے تھے نہ ہی ایئرکنڈیشنز۔ ہوتے بھی کیسے‘ گاؤں میں ابھی تک بجلی نہیں آئی تھی۔ ایسے میں بچوں کو سختی سے منع کیا جاتاکہ وہ باہر نہ نکلیں‘ لیکن کبھی کبھار میں چپکے سے گاؤں کے بچوں کے ساتھ کھیلنے نکل جاتا۔ اس وقت گاؤں کی گلیوں کی مٹی دہک رہی ہوتی لیکن وہ ہمارے بچپن کے دن تھے‘ گرم مٹی پر ننگے پاؤں دوڑنے کا مزہ ہی کچھ اور ہوتا۔ اس زمانے میں اکثر گاؤں کے گھروں میں چہار دیواریاں تو ہوتیں لیکن دروازے نہ ہوتے۔ یوں آتے جاتے لوگ ایک دوسرے کے صحنوں سے گزرتے ہوئے ان کا حال چال پوچھتے جاتے۔ اب تو سب کچھ بدل گیا ہے۔ اب ہمارا گاؤں بھی شہر کی ایک بستی بن گیا ہے۔ گھر گھر ٹی وی اور کیبل ہے۔ ہر فرد کے ہاتھ میں موبائل فون ہے۔ گاؤں کی گلیوں میں بجلی کے کھمبے ہیں۔ حویلیوں کے چہاردیواری میں دروازے لگ گئے ہیں۔ میرے بچپن کی کہانیاں کہیں کھو گئی ہیں۔ اب سوچتا ہوں شاید وہ بچپن کے دنوں کا اثر تھا جب ہر چیز پراسرار نظر آتی تھی۔ کہتے ہیں‘ بچپن کا پراسراریت اور خوبصورتی سے گہرا تعلق ہوتا ہے۔ شاید زندگی کے ان دیکھے پہلوؤں کا تصور اسے اور بھی حسین بنا دیتا ہے۔