یہ ان دنوں کی بات ہے جب میں کالج میں پڑھتا تھا۔ زندگی صرف کتابوں تک محدود نہ تھی۔ وہ ہم نصابی سرگرمیوں کے عروج کا زمانہ تھا۔ کھیلوں کے مقابلے ،ڈرامے ،تقریری مقابلے،مباحثے ،مشاعرے ہر روز شہر میں کچھ نہ کچھ ہو رہا ہوتا۔ اب پیچھے مڑ کر دیکھوں تو یوں لگتا ہے ہمارے پاس وقت کی فراوانی تھی۔گرمیوں کی طویل شاموں کے ہمراہ ہم چلتے رہتے اور شامیں ختم ہی نہ ہوتیں۔ ہم دوستوں کی محفلوں میں نئی کتا بوں کا تذکرہ ہوتا۔شعروشاعری پر بات ہوتی اورجب شام رات میں ڈھلنے لگتی تو گھروں کو جاتے۔انہیں دنوں ہماری محفلوں میں اوّل اوّل افتخار عارف کی شاعری کا ذکر ہونے لگا۔ اس زمانے میں افتخار عارف... ''بارہواں کھلاڑی‘‘ کا بڑا چرچا تھا۔ پھر وہ غزل جس کا مطلع تھا؎
دیارِ نور میں تیرہ شبوں کا ساتھی ہو
کوئی تو ہو جو مری وحشتوں کا ساتھی ہو
یہ شاعری میں ایک نیا لہجہ تھا جس میں زبان کی شائستگی، تہذیب کا رچاؤ اور انسانی نفسیات کے گہرے مشاہدے کا عکس تھا۔ ان کی شاعری کی پہلی کتاب ''مہرِ دونیم‘‘ شاید 1984میں آئی‘ لیکن اس سے پہلے ہی افتخار عارف کی شاعری کا تعارف ہو چکا تھا اور وہ بطور شاعر خواص و عام میں جانے جاتے تھے۔ وہ غزل اور نظم دونوں اضاف میں یکساں روانی سے لکھتے تھے۔ افتخار عارف کی شاعری میں رومان تھا اور زندگی کے دوسرے رنگ بھی۔ ذہنی کشمکش کے معرکے بھی تھے اور ذاتی تجربات و مشاہدات کی گرمی بھی۔موضوعات کی جدت اور زبان کی شائستگی ان کے اسلوب کو منفرد و ممتاز بناتی تھی۔ پھر ایک دن افتخار عارف سے میری پہلی ملاقات لاہور میں کتا بوں کی ایک دکان میں ہوئی۔ اس زمانے میں مَیں لمز میں پڑھاتا تھا اور یونیورسٹی کے کیمپس میں رہتا تھا۔ ان دنوں راولپنڈی سے انعام بھائی آئے ہوئے تھے‘اور ہم لبرٹی مارکیٹ کے قریب کتابوں کی ایک دکان میں کتابیں خرید رہے تھے۔یہ دکان ایک تہہ خانے میں تھی۔ شاید اب بھی ہو گی لیکن وہاں گئے ایک مدت ہو چکی ہے۔ اس زمانے میں یہ کتابوں کا شوق رکھنے والوں کا ٹھکانہ تھا کیونکہ یہاں نئی پرانی کتابوں کا ایک وسیع ذخیرہ تھا۔ہم کتابیں لے کر دکان سے نکل رہے تھے کہ افتخار عارف پر نظر پڑی۔ یہ ایک سرسری لیکن خوشگوار ملاقات تھی۔
شاعری کے کوچے میں پھیلی آوازوں کے ہجوم میں افتخار عارف کا لہجہ سب سے جدا تھا۔ وہ شاعری میں نئے نئے موضوعات متعارف کرا رہے تھے جو حقیقی زندگی اور انسانی تجربوں سے جڑے ہوئے تھے۔ انہیں دنوں ان کا ایک شعر اپنے اچھوتے پن کی وجہ سے بہت مقبول ہوا:
مرے خدا مجھے اتنا تو معتبر کر دے
میں جس مکان میں رہتا ہوں اس کو گھر کر دے
یہاں مکان اور گھر کے مابین فرق کی نشاندہی عصرِ حاضر کے ایک بڑے مسئلے تنہائی کی طرف بلیغ اشارہ ہے۔ جب شعری اظہار پڑھنے والوں کی زندگیوں او ر حقیقتوں سے قریب تر ہو تو وہ ضرب المثل کی شکل اختیار کر جاتا ہے۔ افتخار عارف کے ہاں ایسے اشعار کثیر تعداد میں موجود ہیں مثلاً
یہ وقت کس کی رعونت پہ خاک ڈال گیا
یہ کون بول رہا تھا خدا کے لہجے میں
تجھ سے بچھڑ کر زندہ ہیں
جان بہت شرمندہ ہیں
لاہور سے اسلام آباد آنے پر افتخار عارف سے ملاقاتوں کے مواقع زیادہ ہو گئے۔ ان ملاقاتوں میں ادب کے مختلف پہلوؤں پر گفتگو ہوتی۔ ان محفلوں میں مجھے اندازہ ہوا کہ وہ ایک کثیرالمطالعہ شخص ہیں جو منطق اور تجزیے کی زبان میں گفتگو کرتے ہیں۔ ان کی گفتگو انکی شاعری کی طرح آپ کو اپنے حصار میں لے لیتی ہے ۔ یوں تو ان کی شاعری میں مختلف موضوعات ملتے ہیں لیکن ایک موضوع تکرار سے آیا‘اور وہ ہے ''رزق‘‘ جو ایک مادی خواب کی تجسیم ہے اور جو انسان کے ارفع آدرش اور اس کی صلاحیتوں کے مکمل اظہار کے درمیان دیوار بن جاتا ہے۔ افتخار عارف کی شاعری میں اس رزق کے ساتھ ایک Love/Hateکا رشتہ نظر آتا ہے۔
آسودہ رہنے کی خواہش مار گئی ورنہ
آگے اور بہت آگے تک جا سکتا تھا میں
بس ایک رزق کا منظر نظر میں رکھا جائے
اردگرد کے حالات پر نظر ڈالتے تو اندر سے کوئی آواز اکساتی کہ سیاسی موضوعات اور گردوپیش کے تلخ حالات کو بھی شاعری کا موضوع بنائیں
کبھی کھُل کے لکھ جو گزر رہا ہے زمین پر
کبھی قرض بھی تو اتار اپنی زمین کا
افتخار عارف کی شاعری میں سیاسی حالات پر احتجاج بھی ہے لیکن یہ احتجاج شائستگی کی حدوں کو پھلانگ کر انقلابی نعروں میں نہیں بدلتا۔ سیاسی موضوعات پر ان کے اشعار کا شعری بانکپن متا ثر نہیں ہوتا۔ان کی معروف غزل کے دو اشعار ملاخطہ کریں۔
کہانی آپ اُلجھی ہے کہ اُلجھائی گئی ہے
یہ عقدہ تب کھلے گا جب تماشا ختم ہوگا
تماشا کرنے والوں کو خبر دی جا چکی ہے
کہ پردہ کب گرے گا کب تماشا ختم ہوگا
افتخار عارف کی شاعری میں اپنی تہذیب سے محبت کے رنگ جا بجا نظر آتے ہیں۔ان کے امیجز میں اسی تہذیبی روایت کا رچاؤ ہے۔
مدینہ و نجف و کربلا میں رہتا ہے
دل ایک وضع کی آب و ہوا میں رہتا ہے
لیکن انہیں رزق کے منظر کے اسیر ہونے کی قیمت کا بھی اندازہ ہے کہ کیسے لقمہ ٔہوس لہجے کے بانکپن کو گہنا دیتا ہے۔
ہوسِ لقمۂ تر کھا گئی لہجے کا جلال
اب کسی حرف کو حرمت نہیں ملنے والی
افتخار عارف کی شاعری میں ایک اہم موضوع ہجرت کا ہے جوان کی شاعری میں مختلف پیرائے میں نظر آتا ہے۔ ہندوستان سے پاکستان اور پاکستان سے برطانیہ۔ یوں تین ملکوں میں زندگی کی تقسیم سے انہیں اس کیفیت کا بخوبی اندازہ ہے جو ہجرت کی دین ہے۔
ہر اک سے پوچھتے پھرتے ہیں تیرے خانہ بدوش
عذابِ دربدری کس کے سر پہ رکھا جائے
افتخار عارف دل اور دنیا دونوں کی سیاحت کر چکے ہیں۔ اس کارِ زندگی میں پھولوں کے ساتھ ساتھ کانٹے بھی ملتے ہیں‘لیکن وہ زخمی ہونے پر ہار مان کر بیٹھ نہیں جاتے بلکہ ایک نئے جذبے سے تازہ سفر کا آغاز کرتے ہیں۔
خواب دیکھو اور پھر زخموں کی دلداری کرو
افتخار عارف نئی منزل کی تیاری کرو
کچھ عرصہ پیشتر وہ اکیڈمی آف لیٹرز کی سربراہی سے سبک دوش ہو گئے لیکن وہ ریٹائر ہو کر زیادہ متحرک ہو گئے ہیں۔یوں لگتا ہے کوئی خواب ہے جو ہر دم انہیں نئے سفر پر بلاتا رہتا ہے۔ کوئی امنگ ہے جو انہیں ہر پل متحرک رکھتی ہے ۔یہی نہ ختم ہونیوالی بے قراری افتخار عارف کی پہچان ہے نئے موسموں ،نئے خطوں اورنئے منظروں کو دریافت کرنے کی خواہش اسے تھک کر بیٹھنے نہیں دیتی ۔افتخار عارف کا کہنا ہے:
''جینے اور جیتے رہنے کے بیچ ایک خواب کی دوری ہے
وہ دوری ختم نہیں ہوتی
اور یہ دوری سب خواب دیکھنے والوں کی مجبوری ہے
مجبوری ختم نہیں ہوتی‘‘