یہ چار دہائیاں پہلے کی بات ہے۔ گورڈن کالج سے ایم اے انگلش کرنے کے بعد میری عملی زندگی کا آغاز ہو رہا تھا۔ ابھی ڈگریوں کی بہتات اور ارزانی نہیں ہوئی تھی۔ اس زمانے میں ایم اے انگلش کے بعد طالبِ علموں کا پہلا انتخاب سی ایس ایس ہوتا۔ میری گورڈن کالج میں پہلی پوزیشن تھی لیکن میں نے اپنی مرضی سے تدریس کے شعبے کا انتخاب کیا اور طویل عرصہ گزر جانے کے بعد بھی مجھے اپنے انتخاب پر خوشی ہے۔ ایم کا نتیجہ آنے کے کچھ دن بعد ہی ڈائریکٹوریٹ آف ایجوکیشن کی طرف سے لیکچررشِپ کا اشتہار آیا۔ میں بھی انٹرویو میں شریک ہوا۔ دو ہفتے بعد اطلاع ملی کہ میری سلیکشن ہو گئی ہے‘ اور میری تقرری گورنمنٹ ڈگری کالج منڈی بہاؤالدین میں کی گئی ہے۔ منڈی بہاؤالدین میں میرا قیام چند ماہ رہا کیونکہ اسی دوران پبلک سروس پبلک سروس کمیشن کے تحت میری سلیکشن ہو گئی اور مجھے راولپنڈی کے ایک انٹر کالج میں تعینات کردیا گیا۔ یہاں صرف دو کلاسوں کو پڑھانا ہوتا۔ بظاہر زندگی بہت آسان تھی۔ میری اپوائنٹمنٹ میرے شہر میں تھی اور ورک لوڈ بہت کم تھا۔ اصولی طور پر مجھے مطمئن ہو جانا چاہیے تھا‘ لیکن میں چند ماہ میں ہی یکسانیت سے اکتا گیا۔ مجھے اس کام میں کوئی چیلنج نظر نہیں آرہا تھا۔ انہی دنوں کی بات ہے کہ بشیر قریشی مرحوم‘ جو گورنمنٹ کالج اصغر مال میں انگریزی کے شعبے سے وابستہ تھے‘ کا پیغام ملا کہ شعبے میں ایک ویکنسی ہے‘ اگر چاہو تو شعبے کے سربراہ سے ملاقات کر لو۔ قریشی صاحب کا پیغام سُن کر مجھے یوں لگا‘ جیسے میں اسی کا منتظر تھا۔ اس زمانے میں اصغر مال کالج میں شعبہ انگریزی کے سربراہ محترم سعیدالحسن صاحب تھے۔ وہ علی گڑھ سے فارغ التحصیل تھے۔ باغ وبہارشخصیت تھے۔ اونچا لمبا قد، سر کے بال سفید‘ ہونٹوں پر پان کی سُرخی اور دبی دبی مسکراہٹ۔ میں ملاقات کا وقت لے کر ان کے آفس پہنچ گیا۔ سعیدالحسن صاحب نے چائے منگوائی اور عام گفتگو کرنے لگے۔ میرا خیال تھا یہ ایک روایتی انٹرویو ہوگا۔ جب چائے پی چکے اور تقریباً آدھا گھنٹہ گزر گیا تو سعید صاحب رُکے اور کہنے لگے: آپ سے مل کر مجھے خوشی ہوئی لیکن ایک مسئلہ ہے۔ مجھے لگا میرے اندر کوئی دیوار گِر گئی ہے۔ ڈرتے ڈرتے پوچھا: سرکیا مسئلہ ہے؟ اس پر سعید صاحب کہنے لگے: پہلے بھی دو امیدوار آئے تھے‘ لیکن جب انہیں بتایا کہ ایم اے کی کلاسز کو بھی پڑھانا ہوگا تو وہ واپس نہیں آئے۔ میں ان کا جواب سُن کر ہنس پڑا اور کہا: ایم اے انگلش پڑھانے کی ذمہ داری میری خوش بختی ہو گی۔ سعید صاحب کے چہرے پر اطمینان کی لہر آئی اور وہ کہنے لگے: ہماری طرف سے ایک سرکاری خط ڈائریکٹوریٹ چلا جائے گا‘ جس میں آپ کی سروسز گورنمنٹ کالج اصغر مال کو دینے کی درخواست ہوگی۔ یہ مرحلہ بھی طے ہو گیا۔ اور پھر وہ دن آگیا جب میں گورنمنٹ کالج اصغر مال کے شعبہ انگریزی سے منسلک ہو گیا۔
قیامِ پاکستان سے بہت پہلے 1904ء میں یہاں ایک سکول کی بنیاد رکھی گئی تھی جس کا نام سناتن دھرم سکول تھا۔ کہتے ہیں‘ یہ اس زمانے میں ایک وسیع وعریض جگہ تھی۔ ایک طرف ہری مندر تھا‘ لہلہاتے کھیت تھے اور ساتھ ہی سکول۔ اس زمانے میں ڈی اے وی کے نام سے کئی تعلیمی ادارے اور سڑکیں تھیں۔آج بھی کچھ سڑکیں اسی نام سے پہچانی جاتی ہیں۔ یوں تعلیمی اداروں کی اکثریت ہندوؤں، سکھوں اور عیسائیوں کے قبضے میں تھی اور مسلمانوں کے تعلیمی ادارے تعداد میں بہت کم تھے۔
وہ کالج میں میرا پہلا دن تھا۔ سائیکل سٹینڈ پر میں نے اپنی موٹر سائیکل کھڑی کی۔ سٹینڈ کے انچارج کا نام ممتاز خان تھا۔ فربہ اندام، سانولا چہرہ ،چمکتی آنکھیں، ہونٹوں پر مسکراہٹ۔ اس کی یادداشت بلا کی تھی۔ پہلے دن مجھے ٹائم ٹیبل ملا۔ چونکہ انگلش ڈیپارٹمنٹ کی فیکلٹی میں سب سے جونیئر تھا‘ لہٰذا مجھے سب سے زیادہ ورک لوڈ دیا گیا۔ ٹائم ٹیبل کے مطابق مجھے ہر روز پانچ کلاسز کو پڑھانا ہوتا۔ ایم اے فائنل، ایم اے پریویس، بی ایس سی، ایف ایس سی اور بی اے۔ کلاسوں کی تعداد کے ساتھ دوسرا چیلنج Intellectual Jumps کا تھا۔ ابھی ایم اے کی کلاس، پھر ایف اے، اس کے بعد بی اے۔ ہر درجے کے طالبِ علموں کی ذہنی سطح مختلف تھی اور مجھے اس کے ساتھ ایڈجسٹ کرنا ہوتا تھا۔ یہ آسان نہ تھا۔ ایک اور چیلنج یہ تھا کہ یہ کلاسیں کسی ایک بلاک میں نہیں تھیں۔ ایم اے کی کلاسز کیلئے فیصل بلاک، بی اے اور ایف اے کیلئے مین بلاک اور بی ایس سی کیلئے مجھے سائنس بلاک جانا پڑتا‘ اور تینوں بلاکس کے درمیان خاصا فاصلہ تھا۔ اس زمانے میں انگلش ڈیپارٹمنٹ میں سعیدالحسن صاحب کے علاوہ پروفیسر نذیر، ظفر زیدی، رؤف جمال، شوکت علی، اظہر جاوید، بلال سبحانی، بشیر قریشی اور اشرف صاحب پڑھاتے تھے۔ آہستہ آہستہ کالج کے دوسرے فیکلٹی ممبرز سے شناسائی ہونے لگی۔ پروفیسر وثیق بھی باغ وبہار شخصیت تھے۔ کالج کی ایک مقبول شخصیت پروفیسر اشتیاق شاہ تھے۔ وہ کالج کی کرکٹ ٹیم کے انچارج تھے۔ اُن کے عہد میں کالج کی کرکٹ ٹیم شہرت کی بلندیوں کو پہنچی اور ہمارے کچھ طالبِ علم قومی کرکٹ ٹیم میں بھی کھیلے‘ مسعود انور نے پاکستان کی طرف سے بطور اوپنر کئی میچز کھیلے اور شعیب اختر جنہیں راولپنڈی ایکسپریس کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔
کلاسوں کے درمیان کچھ وقت ملتا تو میں لائبریری چلا جاتا اور لائبریرین صدیقی صاحب کے کمرے میں بیٹھتا۔ وہیں میری ملاقات اردو ڈیپارٹمنٹ کے پروفیسر اور معروف شاعر یوسف حسن سے ہوئی جو بعد میں مستقل دوستی میں بدل گئی۔ لائبریری کے علاوہ ہمارا ٹھکانا چائے کا ایک ڈھابہ تھا‘ جو کالج کے مین گیٹ کے بالکل سامنے سڑک کے اس طرف تھا۔ وہاں سے کالج کی مین بلاک کی عمارت صاف نظر آتی۔ یہ فنِ تعمیر کا دلکش نمونہ تھی۔ اس کے مینار، وسیع راہداریاں، اس پر نقش نگاری، بارش میں ہم اسے دیکھتے تو نجانے کیوں مجھے کہانیوں کا وہ قلعہ نما محل یاد آجاتا جس پر جادو کر دیا گیا ہے اور جہاں ایک شہزادی اپنے راجکمار کے انتظار میں بیٹھی ہے۔ یہ کالج کا سب سے پُرانا بلاک تھا جس میں ہال، پرنسپل آفس اور سٹاف روم ہوا کرتا تھا۔
اصغر مال کالج کی پُرشکوہ عمارت اپنی جگہ اس کی پہچان کا ایک اور واسطہ یہاں مختلف ادوار میں پڑھنے اور پڑھانے والی شخصیات ہیں جنہوں نے شعروادب کے میدان میں نام پیدا کیا۔ ان میں جیلانی کامران، اشفاق علی خان، ظہیر فتح پوری، آفتاب اقبال شمیم، کنیز فاطمہ، جمیل آذر، ماجد صدیقی، سرور کامران، سعادت سعید، فتح محمد ملک، اظہارالحق، احمد جاوید، نوازش علی، روش ندیم اور سعید احمدکے نام مجھے یاد آ رہے ہیں۔ اس وقت کے نمایاں طالبِ علموں میں بابر اعوان اور صدیق الفاروق شامل تھے۔ اب مجھے اصغر مال چھوڑے ایک طویل عرصہ ہو چکا ہے۔ پچھلے دنوں کالج کے شعبہ انگریزی کے پروفیسر ندیم اکرام کا فون آیا۔ وہ اپنی ریٹائرمنٹ کا بتا رہے تھے۔ میرا دل دھک سے رہ گیا۔ وقت کتنی تیزی سے گزر گیا تھا۔ یوں لگتا ہے جیسے کل کی بات ہو۔ وہ اصغر مال کالج میں ایم اے انگلش کی کلاس میں میرا پہلا دن تھا۔ سامنے بیٹھے طالبِ علموں میں ندیم اکرام بھی تھا‘ جس کی آنکھیں روشن اور متجسس تھیں اور جو آج مجھے اپنی ریٹائرمنٹ کی خبر دے رہا تھا۔ وقت جیسے پر لگا کر اُڑ گیا ہو۔ سُنا ہے اس عرصے میں اصغر مال کالج میں بہت سی تبدیلیاں آ گئی ہیں۔ بہت سے نئے اُستاد آگئے ہیں۔ بہت سے پُرانے لوگ چلے گئے۔ کبھی کبھی جی میں آتا ہے اپنے پُرانے کالج جاؤں۔ ان عمارتوں کو دیکھوں، ان میدانوں سے گزروں اور پھر فیصل بلاک کی ان سیڑھیوں پر جا بیٹھوں جہاں سے ساری دنیا خوب صورت نظر آتی تھی۔ لیکن پھر یہ سوچ کر ارادہ بدل دیتا ہوں کہ اتنی مدت بعد مجھے وہاں کون پہچانے گا۔ مجھے فیصل بلاک کی سیڑھیوں پر کون بیٹھنے دے گا۔