آج ایک طویل عرصے کے بعد میں راولپنڈی کی مری روڈ سے گزر رہا تھا۔ سڑک کے دونوں طرف بہت کچھ بدل گیا تھا۔ میں حیرت سے بدلتے منظر دیکھ رہا تھا۔ پھر اچانک میری نظر اپنے دائیں طرف لیاقت باغ پر پڑی اور میں ٹھٹھک کر رہ گیا۔ اس ایک منظر نے کتنی ہی یادوں کے در کھول دیے تھے۔ لیاقت باغ کبھی کمپنی باغ کہلاتا تھا۔ یہ نام ایسٹ انڈیا کمپنی کی مناسبت سے رکھا گیا تھا۔ اس زمانے میں کمپنی باغ سیاسی جلسوں کے لیے بھی استعمال ہوتا تھا۔ بہت سے قومی رہنماؤں نے کمپنی باغ میں جلسوں سے خطاب کیا جن میں گاندھی، جواہر لعل نہرو، مولانا ابوالکلام آزاد اور مولانا ظفر علی خان بھی شامل ہیں۔ کہتے ہیں قائدِ اعظم محمد علی جناح بھی لیاقت باغ کے سامنے واقع اسلامیہ سکول میں تشریف لائے تھے اور وسیع میدان میں جلسے سے خطاب کیا تھا۔
پھر کمپنی باغ کی تاریخ میں ایک ایسا دن آیا جس نے سب کچھ بدل دیا یہ 16اکتوبر 1951ء کا دن تھا۔ اس دن وزیرِ اعظم لیاقت علی خان نے ایک جلسے سے خطاب کرنا تھا۔ وہ ٹھیک چار بجے کمپنی باغ کے پنڈال میں پہنچ گئے تھے جہاں تقریباً 10 ہزار کا مجمع ان کا انتظار کر رہا تھا۔ اس روز وہ اپنی بیگم رعنا لیاقت علی خان کو یہ کہہ کر آئے تھے کہ وہ اپنی زندگی کی اہم ترین تقریر کرنے جا رہے ہیں۔ لیاقت علی خان ڈائس پر آئے اور تقریر کا آغاز کیا۔ ابھی وہ ''برادرانِ ملت‘‘ ہی کہہ پائے تھے کہ دو فائر ہوئے۔ لیاقت علی خان تیورا کر پیچھے گرے۔ مجمع پر سکتہ طاری ہو گیا۔ پھر ایک اور فائر ہوا اور ہجوم میں افراتفری مچ گئی۔ ایک شخص سید اکبر کو پکڑ لیا گیا اور اس پر اتنا تشدد کیا گیا کہ اس کی موت واقع ہو گئی۔ کہتے ہیں سید اکبر نے اپنے پستول سے لیاقت علی خان پر گولیاں چلائی تھیں۔ لیاقت علی کو سی ایم ایچ لے جایا گیا۔ ان کے جسم میں دو گولیاں لگی تھیں اور ایک گولی جسم کے پار ہو گئی تھی۔ سی ایم ایچ میں ڈاکٹرز نے 4:50 پر اعلان کیا گیا کہ لیاقت علی خان دم توڑ گئے ہیں۔ ابھی تک اس قتل پر پُراسراریت کے سائے ہیں۔ سید اکبر اس روز اپنے گیارہ سالہ بیٹے کے ہمراہ جلسے میں شرکت کے لیے آیا تھا۔ اگر وہ قتل کے ارادے سے آتا تو بیٹے کو ساتھ لانے کی وجہ سمجھ سے باہر ہے۔ کچھ لوگ اس قتل کو ایک بڑی سازش کا حصہ قرار دیتے ہیں‘ جس کی وجہ لیاقت علی خان کی خارجہ پالیسی کا رُخ امریکہ کے بجائے روس کی طرف ہونا تھا۔ لیاقت علی خان کے قتل کے بعد ان کی یاد میں کمپنی باغ کا نام بدل کر لیاقت باغ رکھ دیا گیا۔
میرا لیاقت باغ سے پہلا تعارف اس وقت ہوا جب ہم مریڑ حسن میں رہتے تھے۔ وہاں سے لیاقت باغ تک کا فاصلہ کچھ زیادہ نہیں تھا۔ لیاقت باغ میں ہر سال ایک میلہ لگتا تھا۔ ہم بڑے شوق سے میلہ دیکھنے آتے تھے۔ کھانے پینے کی اشیاء کے سٹالوں کی قطار ہوتی۔ گرم گرم جلیبیاں بن رہی ہوتیں۔ اسی طرح کھلونوں کی دکانوں پر ہجوم ہوتا۔ پھر ایک جگہ پر مچھلی والے دھڑ کی ایک لڑکی ہوتی جہاں ٹکٹ کے لیے بہت رش ہوتا۔ سرکس اور جھولے بھی ہم بچوں کے لیے کشش کا باعث ہوتے۔ یوں لیاقت باغ کا میرا پہلا تصور ایک میلے سے جُڑا ہوا ہے۔
لیاقت باغ سے میرا دوسرا تعلق گوالمنڈی میں میرے ماموں کا گھر تھا جہاں سے نکل کر ہم نالہ لئی میں رکھے بڑے پتھروں پر قدم رکھتے اور لیاقت باغ میں داخل ہو جاتے۔ اس تین منزلہ گھر کی چھت پر کھڑے ہوتے تو لیاقت باغ ہمیں اپنے قدموں میں نظر آتا۔ اس زمانے میں یہاں بسوں کا اڈہ ہوا کرتا تھا۔ لیاقت باغ سے میرے تعلق کا ایک اور حوالہ گورڈن کالج تھا‘ جو لیاقت باغ کے نواح میں واقع تھا اور جہاں میں ایم اے کا طالبعلم تھا یوں آتے جاتے لیاقت باغ میری گزرگاہ ہوتا۔
لیاقت باغ میں مجھے کئی جلسوں میں شرکت کا موقع ملا۔ جب بھی لیاقت باغ میں کسی جلسے کا اعلان ہوتا پورے شہر میں ہلچل پیدا ہو جاتی۔ یہ شاید 1971ء کی بات ہے مشرقی پاکستان ہم سے علیحدہ ہو چکا تھا‘ ذوالفقار علی بھٹو ملک کے حکمران تھے اور وہ عوامی حلقوں سے خطاب کرتے ہوئے بنگلہ دیش کو منظور کرنے کے حق میں دلائل دیتے تھے۔ ایسا ہی ایک جلسہ لیاقت باغ میں بھی تھا جس میں ہزاروں لوگ شریک تھے۔ بھٹو بلا کے مقرر تھے۔ وہ سامعین کے جذبات کو مٹھی میں لینے کا فن جانتے تھے۔ انہوں نے تقریر کا آغاز عوامی انداز میں دونوں ہاتھ بلند کرکے تالیاں بجاتے ہوئے کیا۔ تقریرکے دوران جونہی انہوں نے بنگلہ دیش کو منظور کرنے کی بات کی جلسے کے اندر موجود نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد نے بنگلہ دیش نامنظور کے نعرے لگانے شروع کر دیے‘ اور جلسہ افراتفری کا شکار ہو گیا۔
پھر لیاقت باغ کی تاریخ میں ایک سیاہ دن آیا‘ جب 22 مارچ 1973ء کو نیشنل عوامی پارٹی کے جلسے کا اعلان ہوا۔ یہ سخت سیاسی تناؤ کا دور تھا۔ جلسے سے ایک روز پہلے ہماری گلی میں رہنے والا عبدالرحمن الیکٹریشن‘ جو پیپلزگارڈ میں شامل تھا‘ ہمارے گھر آیا اور کہنے لگا: آپ کل لیاقت باغ کے جلسے میں نہ جائیں۔ یہ ایک مختصر سا پیغام تھا جس کی اہمیت کا اندازہ ہمیں تب ہوا جب اگلے روز نیشنل عوامی پارٹی کے جلسے میں شریک لوگوں پر اندھا دھند فائرنگ کی گئی۔ یہ فائرنگ لیاقت باغ کے بالکل سامنے الحیات ہوٹل سے ہو رہی تھی۔ لیاقت باغ میں کہرام مچ گیا۔ دس لوگ جاں بحق اور متعدد زخمی ہوئے۔ ایسے میں ولی خان اور نیشنل عوامی پارٹی کے رہنماؤں کے تدبر نے حالات کو قابو میں رکھنے میں مدد دی اور ممکنہ سول وار کا خطرہ ٹل گیا۔
لیکن ابھی لیاقت باغ کے دروبام نے ایک اور خونیں منظر دیکھنا تھا۔ وہ راولپنڈی کے جاڑوں کی ایک سرد سہ پہر تھی۔ پیپلز پارٹی نے 27دسمبر 2007ء کو لیاقت باغ میں جلسے کا اعلان کر رکھا تھا۔ ملک میں پرویز مشرف کی حکومت تھی۔ ایک روز پہلے ہی حکومت کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے بے نظیر سے اسلام آباد میں ان کے گھر F-8/2 میں ملاقات کرکے انہیں بتایا تھاکہ ان کی جان کو خطرہ ہے اور وہ کل لیاقت باغ میں جلسہ نہ کریں‘ لیکن بے نظیر اپنے ارادے پر قائم رہیں۔ اگلے روز لیاقت باغ اپنے کناروں سے چھلک رہا تھا۔ جہاں تک نظر جاتی لوگوں کے سر نظر آتے تھے۔ اس روز بے نظیر نے دہشتگردوں کو للکارا اور کہا: ہم ڈرنے والے نہیں اور اپنے ملک کی حفاظت کرنا جانتے ہیں۔ اس دوران سٹیج پر کھڑے خالد شہنشاہ کی حرکتیں انتہائی پُراسرار تھیں۔ کبھی وہ بیٹھ جاتا کبھی کھڑا ہو جاتا۔ ایک بار اس نے اپنے گلے پر گلا کاٹنے کے انداز میں ہاتھ پھیرا۔ خالد شہنشاہ کے ان اشاروں کا کیا مطلب تھا؟ یہ اشارے کس کے لیے پیغام تھے؟ ان سوالوں کا جواب کبھی نہ مل سکا کیونکہ بعد میں خالد شہنشاہ کو کراچی میں قتل کر دیا گیا۔ جلسہ ختم ہونے پر بے نظیر اپنی گاڑی میں بیٹھ گئیں۔ ان کے ایک طرف دو افراد بیٹھے تھے‘ امین فہیم اور ناہید خان۔ بے نظیر کی واپسی کا طے شدہ روٹ اچانک بدل دیا گیا۔ لوگ گاڑی کے سامنے آکر نعرے لگا رہے تھے۔ بے نظیر سن روف کھول کر کھڑی ہو گئیں اور ہاتھ لہرا کر لوگوں کے نعروں کا جواب دینے لگیں‘ تب تین فائر ہوئے اور بے نظیر زخمی ہوکر ناہید خان کی گود میں گِر گئیں۔ گاڑی کے ٹائر بھی برسٹ ہو چکے تھے۔ بے نظیر کی بیک اپ کار وہاں موجود نہیں تھی کیونکہ اس میں سوار لوگ پہلے ہی اسلام آباد روانہ ہو چکے تھے۔ یوں ہسپتال پہنچنے سے پہلے ہی بے نظیر دم توڑ چکی تھیں اور ایک عہدِ جنوں ختم ہو گیا تھا۔
آج ایک طویل عرصے کے بعد میں راولپنڈی کی مری روڈ سے گزر رہا تھا۔ سڑک کے دونوں طرف بہت کچھ بدل گیا تھا۔ میں حیرت سے بدلتے منظر دیکھ رہا تھا۔ پھر اچانک میری نظر اپنے دائیں طرف لیاقت باغ پر پڑی تھی اور میں ٹھٹھک کر رہ گیا تھا۔ اس ایک منظر نے کتنی ہی یادوں کے در کھول دیے تھے۔