"SSC" (space) message & send to 7575

تعلیم اور پائیدار ترقی کا تصور

تعلیم اور ڈویلپمنٹ کا آپس میں چولی دامن کا ساتھ ہے‘ لیکن عام طور پر ڈویلپمنٹ کا تصور صرف معاشی ترقی تک محدود رہتا ہے‘ حا لانکہ ڈویلپمنٹ کے جامع تصور میں معاشرے کی معاشی ترقی کے ساتھ سماجی ترقی بھی شامل ہے۔دوسرے لفظوں میں محض بڑے ڈیم‘ریلوے ٹریکس‘موٹرویز‘ بلند وبالا عمارتیں اور عظیم الشان پلازے کسی ملک کی ترقی کے ضامن نہیں ہوتے۔ اس کے بر عکس ڈویلپمنٹ کا جامع تصور‘ جس میں معاشی اور سماجی دونوں پہلوشامل ہیں‘اس پر نوبل انعام یافتہ ماہرِ معاشیات امرتیاسین اور پاکستان کے ماہر معاشیات ڈاکٹر محبوب الحق نے بہت کام کیا ہے۔ امرتیاسین اپنی کتاب ''Development as Freedom‘‘میں ڈویلپمنٹ کے لیے کچھ آزادیوں (Freedom ) کو اہم اشاریہ قرار دیتے ہیں۔ ان آزادیوں میں سوچ (Thought )‘ اظہار (Expression) اور انتخاب (Choice) کی آزادیاں شامل ہیں۔اس طرح کسی قوم کی ڈویلپمنٹ کا اندازہ صرف وہاں کے مادی وسائل سے نہیں لگایا جا سکتا‘اس کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ دیکھا جائے کہ وہاں لوگوں کو سوچ‘اظہار اور انتخاب کی آزادیاں میسر ہیں یا نہیں۔یوں دیر پا ترقی (Sustainable Development) کا تصور‘جس میں معاشی اور سماجی دونوں پہلو شامل ہوں‘ایک ایسے نظامِ تعلیم کے ساتھ جڑا ہوا ہے جس میں نیچرل سائنسز کے ساتھ ساتھ سوشل سائنسز اورہیومینٹیز کے مضامین بھی شامل ہوں۔ محض نیچرل سائنسز یا محض سوشل سائنسز اور ہیومینٹیز پر توجہ دینے سے دیر پا ترقی کا خواب پورا نہیں ہو سکتا‘اس کے لیے ضروری ہے کہ ہمارا نظام ِ تعلیم سائنسی اور سماجی علوم پر یکساں توجہ دے۔ یوں جب ہم ڈویلپمنٹ کی بات کرتے ہیں تو اس سے مراد ترقی کا وہ تصور ہے جو لمحاتی اور حادثاتی نہ ہو۔اسی طرح کی ترقی کا ایک دور پرویز مشرف کا دور ِ حکومت تھا جب پاکستان کے زرِ مبادلہ کے ذخائر بلندیوں کو چھو رہے تھے اور معاشی اعدادوشمار انتہائی متاثر کن دکھائی دیتے تھے‘لیکن یہ ترقی حقیقی نہیں محض حادثاتی تھی‘کیونکہ نائن الیون کے واقعے کے بعد پاکستان کے لیے امریکی امداد میں یک لخت بے پناہ اضافہ ہو گیا‘اس لیے کہ امریکہ کو پاکستان کا ساتھ چاہیے تھا‘ لیکن جونہی امریکہ کی ضرورت ختم ہوئی تو مصنوعی ترقی کا منظر بکھر گیا اور معاشی ترقی اور رقم کی ریل پیل کا عارضی سفر اپنے اختتام کو پہنچا۔
پائیدار ترقی کا تصور کیاہے ؟عالمی کمیشن برائے ماحول اور ترقی کے مطابق پائیدار ترقی(Sustainable Development) مستقبل کی نسلوں کے مفادات داؤ پر لگائے بغیر ہمارے حال میں بہتری لاتی ہے۔یوں پائیدار ترقی کا تصور ایک تعلیم یافتہ اور پڑھے لکھے معاشرے کے بغیر ادھورا ہے۔یہ تعلیم ہی ہے جو ہمیں نظریات‘اقتدار اور تصورات سے آشنا کرتی ہے۔تعلیم ہی ایک معاشرے کو پڑھے لکھے‘ کارآمد سوچنے والے افراد کا مجموعہ بنا سکتی ہے۔تعلیم ہی کے ذریعے عصرِ حاضر کے چیلنجز کے تخلیقی جوابات تلاش کیے جا سکتے ہیں‘ لیکن اہم سوال یہ ہے کہ وہ کس طرح کی تعلیم ہے جو پائیدار ترقی کا ہدف حاصل کرنے میں مددگار ثابت ہوتی ہے؟ کیا محض شرح خواندگی میں اضافہ ترقی کے خواب کی تعبیر دے سکتا ہے؟ اس سوال کا جواب نفی میں ہے۔صرف شرح خواندگی میں اضافہ نہیں بلکہ تعلیمی معیار معاشرے کی معاشی اورسماجی ترقی میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ اگر ہم پاکستان کے مرکزی دھارے کے سکولوں میں تعلیمی منظر نامے کا جائزہ لیں تو ہمیں پتہ چلتا ہے کہ تدریس کا عمل معلومات کی منتقلی سے اوپر نہیں اُٹھا۔ معروف ماہرِ تعلیم Paulo Freireنے اپنی کتاب ''Pedagogy of the Oppressed‘‘میں اسے Banking Concept of Educationقرار دیا ہے‘ جہاں طلبا کلا س روم میں خاموش سامعین کی طرح بیٹھے رہتے ہیں۔اساتذہ طلبا کے ذہنوں میں معلومات منتقل کرتے ہیں‘طلباان معلومات کو اپنے ذہنوں کی تجوریوں میں محفوظ کر لیتے ہیں اور پھر امتحان میں بازیافت (Recall) کے ذریعے یہ معلومات امتحانی پرچے پر منتقل کر کے اچھے گریڈ ز کے حقدار ٹھہرتے ہیں۔تدریس وتعلیم کا یہ عمل طلبا میں سوچنے سمجھنے‘جائزے اور تخلیقی صلاحیتیں پیدا نہیں کرتا بلکہ ایسے روبوٹس کو جنم دیتا ہے جو تنقیدی سوچ اور تخلیقی مہارتوں سے نا آشنا ہوتے ہیں۔
تعلیم کے جامع تصور میں علم‘ مہارتوں اور رویوں کی نشوونما شامل ہے۔ تعلیم کا ایک اہم مقصد‘جو اس کا رشتہ پائیدارترقی کے ساتھ جوڑتا ہے‘ یہ ہے کہ طلبا میں آزادی ٔ فکر‘تنقیدی سوچ اور تخلیقی صلاحیتوں کو اُبھارا اور نکھارا جائے‘لیکن بدقسمتی سے یہ فکر اور سوچ ہمارے مرکزی دھارے کے سکولوں میں خال خال نظر آتی ہے۔ہونا تو یہ چاہیے کہ تعلیم طلبا کو ذہنی طور پر اس قدر باثروت بنا دے کہ وہ نہ صرف علم کا ادراک کریں بلکہ نئی اور مختلف صورت حال میں اس کا اطلاق بھی کر سکیں اور تعلیمی اداروں سے فارغ ہو کر وہ محض نوکریوں کے حصول میں نہ لگ جائیں اور بعد میں معاشرے سے لاتعلق نہ ہو جائیں بلکہ اپنی تنقیدی سوچ اور جرأتِ فکر کو بروئے کار لاتے ہوئے معاشرے کی فرسودہ رسومات اور ممنوعات (Taboos) کے خلاف آواز بلند کر سکیں۔
تعلیم کے معیار میں یہ تبدیلی کیسے آسکتی ہے؟ اس سوال کے جواب کے لیے ہمیں اُن عوامل پر غور کرنا ہوگا جو مل کر معیارِ تعلیم میں بہتری لا سکتے ہیں اور تعلیم کا تعلق پائیدار ترقی سے جوڑ سکتے ہیں۔ان عوامل میں فنڈز کی فراہمی‘بنیادی ڈھانچہ (Infrastructure)‘ بنیادی سہولتیں‘ نصاب‘ درسی کتب اور امتحانی نظام شامل ہے۔ یہ تمام عوامل بہت اہم ہیں اور تعلیمی معیار کی بہتری میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔ان عوامل میں ایک استاد ہے‘جس کا تعلق یکساں طور پر طلبا‘ نصاب‘ درسی کتب اور امتحانی نظام کے ساتھ ہے‘ اس لیے ضروری ہے کہ اساتذہ کے کردار کو فعال بنایا جائے۔اگر ہم نے اساتذہ کو ایک کمیونٹی کے طور پر مؤثر بنانا ہے تو اس کے لیے اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ انہیں مالی فوائد‘ سماجی شہرت ورتبہ اور پیشہ ورانہ ترقی کے مواقع فراہم کیے جائیں۔
اساتذہ کی پیشہ ورانہ ترقی کے ذرائع میں سے اہم ترین ذریعہ تعلیم ِاساتذہ ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان میں تربیتِ اساتذہ کے بہت سے ادارے بہت ہی قدامت پسندانہ اورروایتی انداز میں تعلیم ِاساتذہ کاکام سرانجام دے رہے ہیں‘جوکہ تخلیقی سوچ اورعملی مہارتوں سے مکمل طورپرعاری ہیں نظریے اورمہارت کے درمیان مکمل لاتعلقی پائی جاتی ہے اورسارے کاسارا زور بس طریقہ تدریس پرہے۔پاکستان میں اس امر کی اشدضرورت ہے کہ تعلیم ِاساتذہ کی تجدید اورتعمیر نوکی جائے تاکہ یہ تدریس اساتذہ کے لیے زیادہ مؤثر ہو اور یہ اسی صورت میں ممکن ہے جب ہم تنقیدی اورتخلیقی سوچ کوباہم مربوط کریں اوریوں تھیوری اورمضمون کی عملیات(Dynamics) کے درمیان ایک مضبوط تعلق قائم کریں۔ ایک اورنکتہ جوبہت اہم ہے وہ یہ کہ ہم دوسرے مضامین سے استفادہ کریں اورسیکھنے کے عمل میں بین الکلیاتی نقطہ نظر (Interdisciplinary Approach) کابھرپور استعمال کریں۔ اساتذہ کوبھی اس کاادراک کرنے کی اشدضرورت ہے کہ وہ رسمی اورغیر رسمی طریقہ ہائے تدریس استعمال کرکے اپنی تدریس میں جدت لائیں‘ کیونکہ مؤثرتعلیم اساتذہ ہی وہ واحد راستہ ہے جس کے ذریعے اساتذہ پیشہ ورانہ اندازمیں بااختیار بن سکتے ہیں اورپھراس اختیار کی بدولت وہ ایسی تعلیم دے پائیں گے جوکہ کلی(Holistic) اورپائیدار ترقی کی ضامن ہوگی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں