وقت اور موسم بھی کیسے بدلتے ہیں کبھی بہار، کبھی خزاں، ابھی صبح، ابھی شام اور زندگی یوں ہی تمام ہو جاتی ہے‘ لیکن یہ ان دنوں کی بات ہے جب مجھے لگتا تھا یہ سب کچھ ایسا ہی رہے گا۔ ان دنوں میں راولپنڈی کے گورنمنٹ کالج میں پڑھاتا تھا۔ گرمیوں کی چھٹیاں تھیں۔ ایک روز میں یونہی گھومتا ہوا کالج جا پہنچا۔ سٹاف روم میں اکا دُکا اساتذہ چھٹیوں میں بھی آجایا کرتے تھے۔ اس روز میں سٹاف روم گیا توایک صوفے پر بیٹھ گیا اور سامنے میز پر پڑے اخبار کو اُٹھا کر پڑھنے لگا۔ اچانک مجھے اخبار میں علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی میں ملازمت کے لیے ایک اشتہار نظر آیا۔ یہ انگلش ڈیپارٹمنٹ میں لیکچرر کی اسامی کا اشتہار تھا۔ میں نے وہیں بیٹھے بیٹھے ارادہ کیا کہ مجھے اپلائی کرنا چاہیے۔ درخواست دینے کے بعد انٹرویو کال آئی انٹرویو ہوا اور میں انگلش ڈیپارٹمنٹ کے لیے منتخب ہو گیا۔ وہ 1983ء کا سال تھا۔ انہی دنوں ڈاکٹر غلام علی الانا وائس چانسلر کے طور پر علامہ اقبال یونیورسٹی آئے تھے اور ان کے آتے ہی یونیورسٹی کے ٹھہرے ہوئے پانیوں میں جیسے تلاطم آگیا تھا۔ وہ انتہائی متحرک، محنتی اور سخت گیر منظم تھے۔ اونچا لمبا قد، سرخ و سفید رنگت اور آنکھوں میں تیز گہری چمک۔ الانا صاحب کا معمول تھا کہ وہ یونیورسٹی کے وقت سے پہلے یونیورسٹی پہنچ جاتے تھے۔ وہ بہت جلدی بیدار ہوتے، علی الصبح جاگنگ کرتے اور پھر ناشتے کے بعد یونیورسٹی پہنچ جاتے۔ یونیورسٹی کی بسیں جب ملازمین کو لے کر کیمپس پہنچتیں تو اس سے بہت پہلے الانا صاحب کیمپس کا ایک راؤنڈ لگا کر باغیچوں میں پھولو ں اور پودوں کا معائنہ کر کے اپنے دفتر پہنچ چکے ہوتے تھے۔ ان دنوں وائس چانسلر آفس بلاک ون میں ٹاپ فلور پر ہوا کرتا تھا۔ الانا صاحب نے آتے ہی Attendance کا ایک مؤثر نظام شروع کیا‘ جس کے مطابق حاضری کا رجسٹر یونیورسٹی ٹائم شروع ہونے کے تقریباً آدھا گھنٹہ بعد رجسٹرار آفس پہنچ جاتا۔ الانا صاحب نے مانیٹرنگ اور فالواپ کا ایک نیا طریقہ اپنایا تھا۔ اگر کوئی شکایت یا سرزنش کرنا ہوتی تو زرد لفافے میں ایک خط علی الصبح ہماری میز پر پہنچ جاتا۔ یوں کچھ ہی دنوں میں سب کو پتہ چل گیا کہ الانا صاحب کی یونیورسٹی کے ہر پہلو پر کتنی گہری نظر ہے۔ وہ راتوں کو اٹھ کر دیکھتے کہ چوکیدار مستعدی سے اپنا کام کر رہے ہیں یا نہیں؟
یہ علامہ اقبال یونیورسٹی کے اوائلِ عمری کے دن تھے۔ الانا صاحب نے کئی نئے تعلیمی پروگرامزکا آغاز کیا اور ان کی کامیابی کے لیے انتھک محنت کی۔ وہ باقاعدگی سے یونیورسٹی کے ریجنل کیمپسز کے دورے بھی کرتے۔ حقیقت یہ ہے کہ انہوں نے یونیورسٹی کو صیح معنوں میں متحرک کر دیا تھا۔ انہوں نے تعلیمی پروگرامز کے علاوہ کئی نئے اقدامات کیے جن سے یونیورسٹی کاامیج بہتر ہوا۔ ان کی توجہ کا خاص مرکز یونیورسٹی کے طلبا تھے۔ وہ براہِ راست طلبا کی شکایات سنتے۔ انہوں نے آتے ہی طلبا کے لیے غیر نصابی سرگرمیوں پر بھرپور توجہ دینا شروع کردی۔ ان سرگرمیوں میں سپورٹس، تقریری اور تحریری مقابلے شامل تھے۔ وہ جب ریجنز کے دوروں پر جاتے تو وہاں کے طلبا سے خطاب بھی کرتے اور کُھلے عام ان کی شکایات سنتے۔ الانا صاحب کا نام علمی حلقوں کے لیے اجنبی نہ تھا۔ لسانیات کے شعبے میں ان کا نام نمایاں تھا۔ انہوں نے برطانیہ کے معروف تعلیمی ادارے SOAS سے لسانیات میں ایم اے کیا اور پھر سندھ یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی‘ جہاں غلام مصطفی قاسمی ان کے نگران تھے۔ وہ سندھ یونیورسٹی میں پڑھاتے رہے اور ساتھ ہی اِن کا گہرا تعلق انسٹیٹیوٹ آف سندھالوجی سے بھی رہا۔ اِن کی سندھی اور انگریزی کتابوں میں تحقیق کے کئی رُخ نظر آتے ہیں۔ یہ علم و فضل کا تعارف تھا‘ لیکن ہمارے لیے وہ ایک سخت گیر منتظم تھے۔ ہمیں اس بات کا اندازہ نہیں تھا کہ اس ظاہری خول کے اندر ایک محبت کرنے والی روح پوشیدہ ہے۔
ایک روز میں یونیورسٹی میں اپنے آفس بیٹھا تھاکہ پیغام ملا الانا صاحب بلا رہے ہیں۔ ان دنوں الانا صاحب کا یوں بلانا خالی از خطرہ نہ ہوتا تھا۔ میں سہما ہوا وائس چانسلر آفس پہنچا اور ڈرا ڈرا اندر داخل ہوا۔ الانا صاحب کِسی فائل پر کچھ لکھ رہے تھے۔ انہوں نے آنکھ اٹھا کر مجھے دیکھا وہی گہری، چمکتی اور جسم میں اُتری نگاہیں۔ انہوں نے مجھے بیٹھنے اور پھر اپنا تعارف کرانے کو کہا۔ اب آہستہ آہستہ میرا خوف کم ہورہا تھا۔ گفتگو کے دوران مجھ پر الانا صاحب کی نئی شخصیت منکشف ہورہی تھی۔ مجھے یوں لگا‘ سخت گیر لبادے کے اندر کا اِنسان تو بہت مختلف ہے‘ نفیس، خوش گفتار اور گرم جوش۔ اس ساری گفتگو کا حاصل یہ تھا طلبا کی غیرنصابی سرگرمیوں کے فروغ کیلئے ایک کمیٹی بنائی جائے۔ اس کمیٹی کیلئے انہوں نے میرا اور شگفتہ فاروقی کا انتخاب کیا تھا۔ اس ملاقات کے بعد میرا الانا صاحب سے قربت کا ایک نیا سفر شروع ہوا۔ انہیں تاریخی مقامات اور تاریخی عمارات دیکھنے کا شوق تھا۔ مجھے یاد ہے‘ ان کے ساتھ میں نے ٹیکسلا، روہتاس، فورٹ، کلیام، لاہور، جہلم اور کئی علاقوں کے سفر کیے۔ کہتے ہیں‘ اگر کسی کو جاننا ہو تو اس کے ساتھ سفرکریں۔ میں نے الانا صاحب کے ساتھ بے شمار سفر کیے۔ اِن کے اندر ایک عجیب سی بیقراری تھی۔ وہ عام سی چیز کو دیکھتے تو اس کے سارے پہلوؤں کو جاننے کی کوشش کرتے اور پھر جب اس کے بارے میں بیان کرتے تو وہ خاص چیز بن جاتی۔ بہت کم لوگوں کو معلوم ہے‘ الانا صاحب نے لکھنے کا آغازافسانہ نگاری سے کیا تھا۔ ان کے افسانوں کا مجموعہ ''چور‘‘ اوائل عمری میں ہی شائع ہوگیا تھا۔ موسیقی سے ان کو جنون کی حد تک شغف تھا۔ موسیقی کے حوالے سے ان کی معلومات قابلِ رشک تھیں۔ ان کے دور میں دو بار عابدہ پروین یونیورسٹی آئیں اور اپنے فن کا مظاہرہ کیا۔ بظاہر سخت گیر منتظم الانا صاحب مزاح کو پسند کرتے اور لطف اندوز ہوتے تھے۔ ایک بار شعبہ اقبالیات کے ڈاکٹر رحیم بخش شاہین ان کے دفتر میں بیٹھے تھے۔ الانا صاحب کا Tenureختم ہونے کے قریب تھا۔ الانا صاحب کہنے لگے: شاہین صاحب دیکھیں وقت کیسے گزر گیا، پتہ ہی نہیں چلا؟ شاہین صاحب شرارت سے بولے''سر پتہ تو ہمیں چلا ہے‘‘۔ اس پر الانا صاحب نے قہقہہ لگایا اور دیر تک اس جملے کا لطف اٹھاتے رہے۔ اسی دوران میں برٹش کونسل کے سکالرشپ پر یونیورسٹی آف مانچسٹر چلا گیا۔ واپس آیا توکچھ عرصے بعد الانا صاحب کا Tenure ختم ہوگیا اور واپس انسٹی ٹیوٹ آف سندھالوجی چلے گئے۔ یہ عرصہ علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کی تاریخ میں اسلئے یادگار رہے گاکہ اس دوران ہم نے الانا صاحب کی قیادت میں یونیورسٹی کے ہر شعبے میں ترقی کی۔ پھر میں بھی ملازمت کیلئے کراچی میں آغا خان یونیورسٹی سے وابستہ ہوگیا۔ الانا صاحب سے ملے کتنے ہی برس بیت گئے۔ پھر قدرت ایک بار پھر مجھے اوپن یونیورسٹی لے آئی۔ مُجھے پہلا فون الانا صاحب کا آیا۔ مُبارک باد کے بعد نیک تمناؤں کااظہار کیا۔ مجھے جیسے ایک نیا حوصلہ مل گیا۔ الانا صاحب رشتوں کو یاد رکھنے والے لوگوں میں سے تھے۔ ہرسال گرمیوں میں ان کی طرف آموں کا تحفہ ملتا تو الانا صاحب کے ساتھ گزارے ہوئے دنوں کی مہک جاگ اُٹھتی۔ اب الانا صاحب بیمار رہنے لگے تھے۔ 28 نومبر اسلام آباد کا ایک سرد دن تھا جب مجھے علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے ہمارے پُرانے رفیق کار حسنین صاحب نے اطلاع دی کہ الانا صاحب اب اس دُنیا میں نہیں رہے۔ رہے نام اللہ کا۔ اسلام آباد کی سرد، ٹھٹھرتی رات میں مجھے گرمیوں کا وہ گرم خُو دن یاد آ گیا‘ جب میں علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی سے منسلک ہوا تھا اور الانا صاحب سے شناسائی ہوئی تھی۔ میں سوچنے لگا: وقت اور موسم بھی کیسے بدلتے ہیں کبھی بہار، کبھی خزاں، ابھی صبح ابھی شام، اور زندگی یونہی تمام ہو جاتی ہے۔