وہ مارچ کے مہینے کا ایک مہکتا ہوا دن تھا اور میں اسلام آباد سے راولپنڈی کی طرف جا رہا تھا‘ مری روڈ سے گزرتے ہوئے جب لیاقت باغ سے آگے مریڑ حسن کا پُل آیا تو میں نے اچانک گاڑی بائیںہاتھ موڑ کر کھڑی کر دی۔اس پُل سے میری بہت سی یادیں جڑی ہوئی تھیں۔اُن دنوں کی یادیں جب ہم مریڑ حسن میں ایک کرائے کے مکان میں رہا کرتے تھے اور ہمارے گھر کے پچھواڑے میں ریل کی پٹری تھی جہاں سے ریل گزرنے کی آواز آیا کرتی تھی۔یہ پٹر ی اس پُل سے بھی گزرتی تھی۔ان دنوں میری عمر چھ سات برس کی ہوگی۔گرمیوں کی شاموں میں لوگوں کے لیے ایک تفریح پُل سے آنے جانے والی گاڑیوں کو دیکھنا تھا ‘یوں یہ پُل صرف گزرگاہ ہی نہیں بلکہ سیر گاہ میں بدل جاتا تھا۔مریڑ حسن میں ہمارے گھر کا نمبر CL4Aتھا ‘یہ نمبر اتنا منفرد تھا کہ مجھے آج تک یاد ہے۔دلچسپ بات یہ کہ اس کے بعد ہم کرائے کے کئی مکانوں میں رہے لیکن کسی کا نمبر مجھے یاد نہیں ۔شاید یاد کا پہلا تعارف زیادہ روشن ہوتا ہے۔اس گھر کا نقشہ بھی میری نگاہوں میں مدہم نہیں ہوا‘لیکن بہتر ہوگا کہ میں سڑک سے آغاز کروں جو مریڑ پُل سے بائیں مڑ کر سول لائنز اور کچہری کی طرف جاتی ہے۔ اس سڑک پر سفر کرتے ہوئے بائیں طرف ایک سکول کی عمارت آتی ہے جو اُس زمانے میں مڈل سکول تھا‘ شاید اب درجہ بڑھ گیا ہو۔ اس سکول کا ایک بڑا گیٹ سڑک کی طرف تھا۔سکول کی عمارت کے ساتھ ہی ایک ذیلی سڑک بائیں ہاتھ مڑتی ہے۔ ذرا آگے جائیں تو بائیں ہاتھ ایک خالی قطعہ اراضی تھا اور ساتھ ہی ملت سیکنڈری سکول ‘جہاں میری بڑی بہن پڑھتی تھی۔سڑک کے دائیں طرف ایک بڑا میدان تھا‘اور اس کیساتھ ایک بہت بڑی کوٹھی‘ جہاں ہمارے سکول میں پڑھنے والا ایک لڑکا ٹونی رہا کرتا تھا۔
سڑک پر ذرا آگے دائیں ہاتھ ایک طویل چبوترہ تھا جہاں تین چار گھر ایک قطار میں واقع تھے ‘انہی میں ایک ہمار ا گھر تھا۔ایک تو مرکزی دروازہ تھا اور دوسرا دروازہ ڈرائنگ روم کا تھا جسے ان دنوں بیٹھک کہا جاتا تھا۔مرکزی دروازے سے اندر جائیں تو ایک بڑا صحن تھا اور سامنے ہال نما ایک بڑا کمرہ۔ ایک سٹور تھا ‘ایک کچن اور ایک واش روم ۔اوپر کی منزل پر ایک کمرہ تھا جس کی چھت پر جانے کے لیے لکڑی کی ایک بڑی سیڑھی تھی۔ سردیوں میں اس کی چھت پر دھوپ آتی تھی اور سب دریاں بچھا کر بیٹھا کرتے تھے۔فصیل کی دیوار پر ڈیزائن کے طور پر ایک پیٹرن میں سوراخ تھے۔ان سوراخوں میں پاؤں جما کر کبھی کبھی دیوار کے اوپر سے دیکھتا تو مریڑ سے کچہری تک جانے والی بڑی سڑک نظر آتی جس پر تانگے سائیکلیں اور اِکا دُکا گاڑیاں چلتی نظر آتیں۔یہیں سے ایک دن میں نے کشمیری لیڈر شیخ عبداللہ کا جلوس دیکھا تھا۔ہمارے گھر کے بالکل سامنے ایک وسیع میدان تھا‘ گھر کے سامنے چبوترے سے اتر کر ہم میدان میں آجاتے ‘چبوترے کے ساتھ ایک پُرانا ٹرک کھڑا تھا ۔ٹرک کیا تھا اب اس کا ڈھانچہ ہی باقی تھا‘ ایک بار میں نے اندر جھانکاتو دیکھا کہ وہاں ایک بلی اپنے بچوں کے ساتھ رہ رہی تھی ۔
ہمارے گھر کے قریب ہی ایک احاطے میں بھینسیں رکھی تھیں‘ جن کا مالک شیرو تھا ۔وہیں سے ہم خالص دودھ لے کر آتے تھے۔ہمارے گھر کے آس پاس دو کرکٹ کلب تھے‘ایک کا نام خان کرکٹ کلب تھا اور ایک بابو کرکٹ ۔میرے ماموں خان کرکٹ کلب اور بھائی بابو کرکٹ کلب میں کھیلتے تھے۔پہلی جماعت میں مجھے مریڑ حسن کے سکول میں داخل کرا دیا گیا ۔مجھے پہلی جماعت میں اپنے ٹیچر کا چہرہ ابھی تک یاد ہے ۔وہ چشمہ پہنتے تھے۔کلاس میں دریاں بچھی ہوتیں۔ ہمارے سکول میں بستہ بہت ہلکا ہوتا تھا‘ایک سلیٹ‘قاعدہ اور روشنائی کی دوات ۔سکول کا آغاز اسمبلی سے ہوتا تھا ‘اسمبلی میں طالب علموں کو بھی موقع ملتا ‘مجھے یادہے ایک بار میں نے ''چندا ماموں دور کے ‘ بڑے پکائیں بور کے‘‘ والی نظم سنائی تھی ۔اُن دنوں پڑھائی کا معیار جانچنے کے لیے سکول انسپکٹر سکولوں کے معائنے کے لیے آتے تھے۔اس دن کے لیے خوب اہتمام کیا جاتا تھا۔ مجھے ایسا ہی ایک دورہ یاد ہے جب ہمارے سکول میں ایک سکول انسپکٹر صاحب ہماری کلاس میں آئے ۔ماسٹر صاحب کی میز پر پہلی جماعت کی کتاب تھی جس میں ایک کہانی ''چین کا سوداگر ‘‘ تھی۔ انسپکٹر صاحب نے کہا :کون یہ کہانی پڑھ کر سنائے گا؟ مجھے یاد ہے ‘میں نے ہاتھ کھڑا کیا اور کہانی پڑھنا شروع کی‘ تین چار سطروں کے بعد ہی انسپکٹر صاحب نے مجھے روک کر شاباش دی‘ یہ دراصل ہمارے ماسٹر صاحب کے لیے شاباش تھی۔ وہ دن اور اس دن کی مسرت کا ذائقہ مجھے ہمیشہ یاد رہے گا۔ سکول کے ساتھ سڑک کے اس طرف ایک گھر کے سامنے شہتوت کا درخت تھا۔ جہاں لڑکے درخت پر چڑھ کر میٹھے رسیلے شہتوت توڑ کر کھاتے‘ اس شہتوت کے درخت کی خاص بات یہ تھی کہ یہ جس گھر کے سامنے تھا وہ اردو کے معروف ادیب اور مزاح نگار شوکت تھانوی صاحب کا گھر تھا۔ ہمارے گھر کے بالکل پیچھے ریل کی پٹری تھی جہاں سے ہم کبھی کبھار جھنڈا چیچی جاتے جہاں ایک ٹیلر کے پاس ہمارے کپڑے سلتے تھے۔ہمارے گھر کے کچھ فاصلے پر بجلی کمپنی تھی جہاں چودہ اگست کو چراغاں ہوتا تھا۔ ایسے میں ہم سب بہن بھائی یہ چراغاں دیکھنے جاتے ۔ اب میں ان دنوں کو یاد کرتا ہوں تو خیال آتا ہے کہ ہماری خوشیاں کتنی سادہ ‘ کتنی معصوم اور کتنی ارزاں تھیں ۔ ہر سال جب لیاقت باغ میں میلہ لگتا تو ہم بڑے اہتمام سے یہ میلہ دیکھنے جاتے۔
سبزی بیچنے والا ریڑھی پر سبزیاں سجا کر لاتا ۔اسی طرح ایک پکوڑے بیچنے والا ہمارے محلے میں آتا‘ پکوڑوں کا تھال اس کے سر پر ہوتا جب کوئی اس سے پکوڑے لیتا تو وہ بغل میں دبائے سٹینڈ کو فرش پر رکھتا اور ایک کاغذ پر پکوڑے ڈال کر اس پر ہری چٹنی ڈال دیتا۔ ہمارے گھر سے ایک گھر چھوڑ کر دائیں ہاتھ ایک اور چبوترا تھا جہاں انگور کی ایک بیل لگی تھی ۔ ہم اس کے پتے توڑ کر نمک لگا کر خوب چٹخارے لگا کر کھاتے تھے۔
ستمبر 1965ء کی جنگ سے ذرا پہلے ہم اس گھر کو چھوڑ کر ٹینچ بھاٹہ میں ایک اور کرائے کے مکان میں آگئے‘ پھر کتنی ہی دہائیاں بیت گئیں‘اس دوران میں راولپنڈی سے دور چلا گیا اور پھر ایک طویل مدت کے بعد مارچ کے مہینے کا وہ مہکتا ہوا دن جب میں مریڑ پُل کو دیکھ کر رک گیا تھا ۔اس لمحے میرے دل میں شدت سے خواہش پیدا ہوئی کہ اپنا پرانا گھر دیکھوں ۔میں سکول کی عمارت سے بائیں سڑک مڑ کر آگے گیا تو سارا منظر بدل چکا تھا۔ سڑک کے دونوں طرف کے میدانوں میں اب گھر تعمیر ہو چکے تھے ۔ میں آگے بڑھتا گیا اور پھر اس جگہ جا پہنچا جہاں ہمارا گھر ہوا کرتا تھا۔لیکن اب ان گھروں کے سامنے بھی گھر بن چکے تھے اور گھروں کے اس ہجوم میں اپنے گھر کو پہچاننا مشکل تھا‘ لیکن مجھے اپنے گھر کا نمبر ابھی تک یاد تھا۔ میں گھروں کے نمبر دیکھتے ہوئے آگے بڑھ رہا تھا کہ اچانک ایک گھر کے دروازے پر وہی مانوس نمبر CL4A نظر آیا ۔ میرے دل کی دھڑکنیں رک گئیں۔میرے قدم جیسے مٹی نے پکڑ لیے ہوں ۔میں بُت بن کر گھر کے دروازے کو دیکھنے لگا۔اتنی دیر میں گلی کے کسی گھر سے ایک ادھیڑ عمر آدمی برآمد ہوا ۔ اس نے مجھے دیکھا تو قریب آکر پوچھا:آپ کو کس کی تلاش ہے؟ میں نے نظریں اُٹھا کر انہیں دیکھا اور بے بسی سے کہا :مجھے اپنی تلاش تھی۔ یہ کہہ کرمیں پلٹ کر واپس چلنے لگا۔ گلی کی نکڑ پر جا کر میں نے پیچھے مڑکر دیکھا تو وہ ادھیڑ عمر آدمی ابھی تک حیرت کے عالم میں وہیں کھڑا تھا ۔