بارہ سال نیو یارک میں رہنے اور ہر روز راولپنڈی میں اپنی گوالمنڈی کو یاد کرنے کے بعد آخر وہ دن آہی گیا جب اسد نے نیو یارک چھوڑنے اور مستقل پاکستان واپس آنے کا فیصلہ کر لیا۔ اس دوران اسد کی والدہ کا انتقال ہو گیا تھا اور وہ جانتا تھا کہ اس کے والد حاجی مبارک صاحب کو سہارے کی ضرورت ہے۔ گوالمنڈی واپس آکر اُسے یوں لگا جیسے نیویارک کے ہنگامے تو گوالمنڈی کی رونقوں کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں۔ پاکستان آ کر اس نے فیصلہ کیا کہ ایک معیاری بیکری کھولنی چاہیے۔ اُس زمانے میں صدر میں دو‘ تین بہت اچھی بیکریاں تھیں‘ یہ آج سے پچیس برس پہلے کا ذکر ہے۔ راولپنڈی میں معیاری سموسوں کے پرانے مراکز میں صدرمیں کریم ہوٹل‘ کالج روڈ پر لاہوری سموسے اور گوالمنڈی میں گولڈن سموسے تھے ۔گولڈن سموسے کا مالک سرکاری ملازم تھا اور اسے ایک بڑے خاندان کی پرورش کیلئے کسی معاشی سرگرمی کی ضرورت تھی۔ اس کیلئے پہلے گھر میںسموسے بنا کر بیچنا شروع کیے‘پھر گھر سے باہر ایک دکان بنا لی۔ محنت اور دیانت سے اس کا کاروبار پھلنے پھولنے لگا اور دیکھتے ہی دیکھتے اللہ تعالیٰ نے اس گھرانے کے دن پھیر دیے۔
سموسوں کی دکان کے بالکل سامنے ایک تین منزلہ عمارت تھی جہاں ڈاکٹر اسحاق صاحب کا کلینک تھا۔ اُس کے اوپر والی منزل پر میرے ماموں زاد بھائی شوکت صدیقی کا دفتر تھاجو اُن دنوں ہائی کورٹ میں پریکٹس کر رہے تھے۔ اسی سڑک پر آگے چلتے جائیں تو آپ کمہار روڈ پر پہنچ جاتے ہیں جہاں سڑک کے دونوں طرف مٹی کے دیدہ زیب برتن گھڑے‘ صراحیاں اور تنور نظر آتے ہیں۔ اس سے اور آگے نمکو کی دکانیں ہیں جہاں نمکو بنانے کا کارخانہ ہے ۔ نمکو تو نیا نام ہے‘ ہمارے زمانے میں نمکو کودال سویاں کہتے تھے۔
اس علاقے کا نام گوالمنڈی کیوں تھا‘ اس کی بھی ایک دلچسپ کہانی ہے۔ کہتے ہیں کبھی یہاں دو گوالے رہتے تھے‘ ہرایک کے پاس سو سو بھینسیں تو ہو ں گی‘ لوگ خالص دودھ لینے ان کے پاس جاتے تھے‘ اپنی محنت اور ایمانداری سے انہوں نے خوب ترقی کی ۔ وقت نے بہت سے پرانے نقوش مٹا دیے لیکن پرانے وقتوں کی ایک نشانی ابھی تک باقی ہے یہ گوالمنڈی کی عید گاہ کے سامنے ایک سویٹ ہاؤس ہے۔مٹھائی کی یہ دکان قیامِ پاکستان سے پہلے کی ہے اور کئی نسلوں کے تسلسل کے باوجود یہ تاریخی دکان اپنی جگہ پر موجود ہے۔ گوالمنڈی کے ساتھ بہت سے ایسے نام جڑے ہیں جنہوں نے قومی سطح پرشہرت پائی۔ ایگل چوک کے قریب ڈاکٹر اسرار کا ایک چھوٹا سا امانت آئی ہسپتال تھاجو بعد میں راولپنڈی کچہری کے پاس ایک بڑی عمارت میں منتقل ہو گیا۔
پاک فوج میں بہت سے نمایاں نام گوالمنڈی سے ہیں جن میں چند نام جو مجھے یاد آرہے ہیں‘ان میں جنرل پیٹر ‘جنرل جمشید گلزار کیانی‘جنرل پاشا‘اور جنرل حفیظ شامل ہیں۔فلم انڈسٹری کے معروف اداکار جاوید شیخ کا تعلق بھی راولپنڈی کی گوالمنڈی سے تھا ۔اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس شوکت عزیز صدیقی بھی گوالمنڈی کے انہی گلی کوچوں میں پلے بڑھے اور اپنی محنت سے عدلیہ کے بڑے منصب پر فائز ہوئے ۔اُن دنوں جنگ اخبار کا دفتر بھی گوالمنڈی میں ہوا کرتا تھاجہاں معروف شاعر مضطراکبر آبادی کام کرتے تھے اور گوالمنڈی ہی میں رہتے تھے۔ایک اور اہم ادبی نام جمیلہ شاہین کا ہے ۔پروفیسر رزمی صدیقی کی رہائش گاہ نالہ لئی کے بالکل قریب تھی۔اب نالہ لئی صاف اور شفاف پانیوں والا نالہ نہیں تھابلکہ اس میں راولپنڈی اور اسلام آباد کی آلائشیں شامل ہو گئی تھیں۔ پروفیسر رزمی صاحب نے اپنے گھر کے باہر جلی حروف میں' ــفن کدہ‘ لکھوایا ہوا تھا۔ہمارے گورڈن کالج کے استاد اور معروف شاعر جناب توصیف تبسم بتاتے ہیں کہ ایک روز کسی من چلے نے ''ت‘‘ اور ''عین ‘‘ کا اضافہ کر دیا ۔کہتے ہیںپروفیسر صاحب نے بھی اس تبدیلی کا خوب لطف لیا اور شرارت کرنے والے کی تخلیقی صلاحیت کی داد دی۔
گوالمنڈی میں بہت سے مشن سکول تھے۔اسی طرح کینٹ بورڈ کے لڑکوں اور لڑکیوں کے سکول تھے جو اُس زمانے میں سی بی اور آج کل ایف جی سکول کہلاتے ہیں۔سی بی گرلز ہائی سکول جو گوالمنڈی کی مین روڈ پر واقع ہے وہاں میری بڑی بہن پڑھایا کرتی تھیں۔عام سہولتوں میں تعلیم کے علاوہ گوالمنڈی میں میڈیکل کی سہولتیں بھی تھیں۔ پرائیویٹ کلینکس کے علاوہ کنٹونمنٹ بورڈ کی فری ڈسپنسری بھی تھی۔پانی کی لگاتار فراہمی کیلئے یہاں راولپنڈی کی سب سے بڑی ٹینکی تھی جس میں چوبیس گھنٹے پانی رہتا تھا۔اسی طرح یہاں راولپنڈی کا سب سے بڑا فائر بریگیڈ سٹیشن بھی تھا۔بچوں کی تفریح کیلئے ایک چلڈرن پارک تھا‘خواتین کیلئے الگ پارک تھا جسے ''پردہ باغ‘‘ کہا جاتا تھا۔چلڈرن پارک تو اب بھی موجود ہے لیکن خواتین کے پارک کی جگہ کالج بن چکا ہے۔کبھی گوالمنڈی میں مسلمان‘ عیسائی‘سکھ اور ہندو رہتے تھے۔ہندوؤں کے تقریباً پانچ مندر ہوا کرتے تھے جن میں سے تین اب بھی موجود ہیں۔قیامِ پاکستان سے پہلے کی چار مساجد اب بھی موجو د ہیں‘ان میں جامع مسجد ‘میلاد مسجد‘سپلائی والی مسجد اور قصائیوں والی مسجد شامل ہیں۔سکھوں کا ایک گوردوارہ اب بھی موجود ہے۔گوالمنڈی میں ہندوؤں کی لاشوں کو جلانے کے لیے مرگھٹ بھی تھا ‘ اب وہاں اکبر مارکیٹ بن چکی ہے۔کپڑوں کی دھلائی کیلئے دھوبی گھاٹ تھاجہاں رنگ برنگ کپڑے تاروں پر لٹکے نظر آتے۔
اب تو پُرانی گوالمنڈی کے نشان معدوم ہو رہے ہیںاور وقت کی پیشانی سے نئے منظر ابھر رہے ہیں لیکن ایک کردار جو مجھے کبھی نہیں بھولے گا اور جس کے دم سے گوالمنڈی کے ایگل چوک کی رونق تھی وہ''زندہ بھوت‘‘ تھا۔اس کا اصل نام مجھے آج تک معلوم نہیں ہو سکالیکن ہم سب اسے زندہ بھوت کے نام سے جانتے تھے۔اس کی وجہ اس کا حلیہ اور پُراسرار شخصیت تھی۔اس کے بال لمبے اورداڑھی بے ترتیب تھی۔سر ہمیشہ ٹوپی سے ڈھکا ہوتا تھا ۔ اس کا ٹھکانہ ایک ویران مندر تھا۔اس کے بارے طرح طرح کی کہانیاں مشہور تھیں‘ان میں سے ایک یہ تھی کہ اس کے پاس ایک بڑا خزانہ ہے جس کو اس نے کہیں چھپا رکھاہے‘ لیکن یہ سب قیاس آرائیاں تھیں۔اس کی ظاہری حالت خستہ تھی لیکن ہم نے اسے کبھی بھیک مانگتے نہیں دیکھا تھا۔''زندہ بھوت ‘‘ ہر شام کو گوالمنڈی کے ایگل چوک سے گزرتا تو اِدھراُدھر کھڑے لڑکے زور سے''زندہ بھوت‘‘ کا نعرہ لگاتے۔اس پر وہ رُک جاتا اور پیچھے مڑ کر سب کو مغلظات سناتا۔ان گالیوں کا بُرا منانے کے بجائے لڑکے بالے ہنس ہنس کر دہرے ہو جاتے‘یہ ہر روز کی تفریح تھی۔ایک روز سب نے پروگرام بنایا کہ آج ''زندہ بھوت ‘‘ گزرے گا تو کوئی لڑکا کچھ نہیں بولے گا‘ سب خاموش رہیں گے ‘دیکھیں کیا ہوتا ہے ۔اُس شام ہم سب ایگل ہوٹل کے گرد ونواح میں چھپ کر اس کا انتظار کرنے لگے۔ ہم یہ دیکھنے کیلئے بے چین تھے کہ اس کا ردعمل کیا ہوگا۔مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ وہ سردیوں کی ایک ٹھٹھرتی ہوئی شام تھی‘ آسمان پر سیاہ بادل تھے اور بارش سے پہلے کی ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی۔ہمارے دانت بج رہے تھے اور ہم زندہ بھوت کا انتظار کر رہے تھے ۔ہمیں زیادہ دیر انتظار نہیں کرنا پڑا۔ دیوار کی اوٹ سے ہم نے دیکھا کہ ''زندہ بھوت ‘‘ خراماں خراماں ہماری طرف آرہا تھا۔ تیز ہوا سے اس کے بال اس کے شانوں پر لہرا رہے تھے۔ میں تو ڈر ہی گیا ‘اس روز وہ سچ مچ بھوت لگ رہا تھا۔ جوں جوں وہ ایگل چوک کے قریب آرہا تھا ہمارے دلوں کی دھڑکنیں تیز ہو رہی تھیں۔ (جاری)