"SSC" (space) message & send to 7575

راولپنڈی کی گوالمنڈی …(آخری قسط)

ہم سب اپنی اپنی جگہوں پر سانس روکے کھڑے تھے اور ''زندہ بھوت‘‘ کی آمد کے منتظر تھے۔ یوں لگ رہا تھا اسے ٹھنڈی، تیز ہوا کی کوئی پروا نہیں ہے۔ وہ اپنی دُھن میں ایگل چوک کی طرف آ رہا تھا۔ آخر وہ مقام آ گیا جہاں سے گزرتے ہوئے اس پر ہر طرف سے ''زندہ بھوت‘‘ کے آوازے کسے جاتے تھے‘ لیکن آج مکمل خاموشی تھی‘ ایک گہری چُپ کا سناٹا تھا یا پھر درختوں سے گزرتی ہوا کا شور۔ ''زندہ بھوت‘‘ اپنی دُھن میں آگے بڑھ گیا۔ پھر ہم نے دیکھا‘ وہ آگے جا کر رُک گیا ہے اور واپس اسی مقام پر آرہا ہے جہاں اس پر آوازے کسے جاتے تھے۔ ہم سب یہ منظر بڑے شوق سے دیکھ رہے تھے۔ عین اس مقام پر پہنچ کر ''زندہ بھوت‘‘ کھڑا ہو گیا اور چاروں طرف دیکھنے لگا۔ جب اسے ہم میں سے کوئی نظر نہیں آیا تو اس کی حالت دیدنی تھی۔ وہ زور زور سے ہمیں پکارنے لگا ''کہاں چلے گئے ہو تم سب؟ تم بولتے کیوں نہیں؟ کیا سب مر گئے ہو؟ یوں لگتا تھا‘ زندہ بھوت پر پاگل پن کا دورہ پڑگیا ہے۔ وہ چاروں طرف ہمیں ڈھونڈ رہا تھا اور ہمیں نہ پاکر اپنی ایجاد کردہ گالیاں دے رہا تھا‘ لیکن اس کے جواب میں مکمل خاموشی تھی یا پھرتیز ہوا کا شور تھا۔ آخر وہ تھک ہارکر لڑکھڑاتے قدموں سے آگے بڑھ گیا۔ وہ دن اور اس دن کا یہ عجیب و غریب تجربہ مجھے اور میرے دوستوں کو ہمیشہ یاد رہے گا۔ 
''زندہ بھوت‘‘ جس اجڑے ہوئے مندر میں رہتا تھا‘ وہیں ایک اور کردار بھی تھا جس کا نام ولی تھا۔ ولی کے خاندان کے سب لوگ قیام پاکستان کے دوران مارے گئے تھے۔ وہ اپنی بسر اوقات کیلئے ٹافیاں بیچتا تھا۔ ولی سے مجھے ایک اور ولی بھائی یاد آگئے‘ جن کی دکان جامع مسجد کے ساتھ تھی۔ گوالمنڈی کی اہم سماجی شخصیت مقبول شاہ صاحب تھے جو ہمیشہ دوسروں کے دُکھ سُکھ میں شریک ہوتے۔ کسی زمانے میں معروف وکٹ کیپر اور پاکستانی کرکٹ ٹیم کے کپتان (سابق) وسیم باری بھی گوالمنڈی میں رہتے تھے۔ گوالمنڈی کی ایک اور ممتاز شخصیت آغا صاحب تھے‘ جو سٹی صدر روڈ پر واقع تاج محل سینما کے مالک تھے۔ حکیم واسطی صاحب بھی گوالمنڈی کی اہم شخصیات میں شامل تھے۔ وہ حکمت و ادب کا خوب صورت امتزاج تھے۔ یاد آنے والوں میں ایک بہت روشن نام بھا جی کا ہے‘ جنہیں کبوتروں کا شوق تھا اور ان کے گھر ہر وقت دوستوں کی محفل رہتی تھی۔ معروف ہومیوپیتھک ڈاکٹر ریاض بھی گوالمنڈی کے مکین تھے۔ پنجاب یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر مجاہد کامران کا گھر بھی گوالمنڈی میں تھا۔ ان کے والد جناب شبیر شاہ صاحب معروف صحافی تھے‘ جو انگریزی اخبار پاکستان ٹائمز میں لکھتے تھے۔
ان دنوں ہم بچے بے دھڑک دور و نزدیک کی دکانوں پر سودا سلف لینے جاتے تھے‘ جس کے لیے ہمیں مختلف گلیوں سے گزرنا پڑتا تھا۔ مجھے یاد ہے ایگل ہوٹل کے بالکل سامنے صدیقی جنرل سٹور تھا جس کے مالک شمیم صاحب تھے۔ اسی طرح اکبر بھائی کی دکان، بُگا اور مُنا‘ دو بھائیوں کی دکان، حاجی صاحب پان والے کی دکان جو خان بیکری کے سامنے واقع تھی، گلزار کی دکان جو حاجی مبارک صاحب کے گھر کے سامنے تھی، ایگل ہیلتھ کلب کے سامنے عالم کی دکان اور شاہ جی کریانہ سٹور جو عید گاہ کی عقبی گلی میں واقع تھا۔ گوالمنڈی میں خلیفہ جی کا گرم حمام خان بیکری کے قریب تھا‘ جہاں گرم پانی سے غسل کی سہولت میسر تھی۔ عمر بھائی کی لائبریری تھی جہاں سے کرائے پر کتابیں ملتی تھیں۔ طالب چائے والے کی دکان پُرانی گوالمنڈی کی پاپڑ گلی میں واقع تھی۔ بھورا حجام کی دکان ہماری گلی کے قریب تھی۔ معیاری گوشت کا ایک مرکز ''کاکا‘‘ قصائی کی دکان تھی۔ اسی طرح چاچا سیدا کے تنور پر بھی خوب رش ہوتا۔ ماسٹر مہردین کی شاہین ٹیلرز کپڑوں کی سلائی کی معیاری دکان ہوتی تھی۔ مشتاق موٹر مکینک کی دکان گوالمنڈی کے گردونواح میں مشہور تھی۔ اس زمانے کے ہوٹلوں میں ایگل ہوٹل کے علاوہ حاجی صاحب کا مسلم ہوٹل بھی تھا جو گوالمنڈی کی مرکزی سڑک پر واقع تھا۔ اسی طرح ایک باؤجی کا ہوٹل تھا جو کرکٹرز کو پروموٹ کرتے تھے۔
آج ایک مدت بعددل میں ایک عجیب سی خواہش نے سراُٹھایا کہ میں سالوں پہلے چھوڑے ہوئے ان گلی کوچوں میں پھر سے جاؤں اور وہاں کی مٹی کی مہک اپنی روح میں محسوس کروں۔ یہ جنوری کی ایک چمکیلی صبح تھی اور میں اس بستی کو جا رہا تھا جسے چھوڑے ہوئے ایک عرصہ ہو گیا تھا۔ کالج روڈ سے آپ گوالمنڈی کو جائیں تو لکڑی کا ایک پُل آتا ہے۔ آج منظر بدلا ہوا تھا۔ پُل سے پہلے دو رویہ موٹر مکینکس کی ورکشاپس تھیں۔ دونوں طرف گاڑیوں کا اتنا رش تھاکہ بمشکل گاڑی کو راستہ مل رہا تھا۔ میں بہت احتیاط سے گاڑی چلا رہا تھا۔ اب میرے سامنے مدن پورہ کا گیٹ تھا‘ جسے 1934ء میں لالہ برکت رام نے تعمیر کیا تھا۔ یہ نام اور تاریخ ابھی تک اس دروازے پر کندہ ہیں۔ دروازے سے اندر داخل ہوکر ایک مندر نظر آتا ہے جو بلندی پر ہے جس کے چاروں طرف اب گھر بن چکے ہیں۔ میں نے گاڑی ایک جگہ پر کھڑی کردی اور کمہارروڈ پر چلنے لگا۔ میرے دائیں ہاتھ ڈاکٹر اسحٰق کا کلینک تھا جہاں اب ان کا بیٹا بیٹھتا ہے۔ کلینک کے بالکل سامنے گولڈن سموسوں کی دکان اپنی جگہ قائم تھی۔ اب اسی دکان کی باگ ڈور نئی نسل کے سپردتھی۔ کمہار روڈ سے گزرتا ہوا میں بائیں ہاتھ ہو گیا جہاں ایک مندر کا کھنڈر تھا اب جس کا مینار باقی تھا۔ باقی حصے پر لوگوں نے اپنے گھر بنا لیے تھے۔
اس دن سردیوں کی دلربا دھوپ میرے ہمراہ تھی اور میں پرانی گوالمنڈی کے گلی کوچوں میں یادوں کی انگلی پکڑ کر چل رہا تھا۔ اب میں کھترانی گلی سے گزر رہا تھا‘ جہاں 1901ء کا ایک پُرانا مندر نظر آیا‘ جس کے ارد گرد ایک وسیع و عریض گھر بن گیا تھا۔ دلکش دھوپ کے ہمراہ میں پاپڑ گلی پہنچا تو اس جھروکے نما کھڑکیوں والے گھر کے سامنے رُک گیا۔ یہ بھا جی کا گھر تھا۔ کبھی ان کی بیٹھک میں محفلوں کا شور ہوتا تھا اب سب کچھ ایک خواب لگتا ہے۔ میں گلیوں میں سے ہوتا ہوا مین روڈ پر آگیا ہوں جہاں گوالمنڈی کا مشہور St. Addrews Church ہے۔ اب میں اس گلی میں ہوں جہاں ہمارے ماموں کا گھر تھا جس گھر میں مَیں ہزاروں بار آیا تھا۔ پتہ نہیں اب اس گھر میں کون لوگ رہ رہے ہوں گے؟ چھٹی کا دن تھا اور گلی میں کوئی بھی نہیں تھا۔ میں نے باہر کھڑے ہوکر اس کمرے کو دیکھا جس کی کھڑکی نظر آرہی تھی۔ کبھی یہاں ہر روز ماموں کی اپنے دوستوں فقیر رشید، علامہ صاحب ، بشیر صاحب اور حکیم ہاشمی صاحب کے ساتھ محفلیں جمتی تھیں۔ آج یہاں ہر طرف خاموشی ہے۔ اس شجر کے پرانے طائر انجانی منزلوں کو پرواز کر چکے تھے۔ گلی کے نُکڑ پر سہگل صاحب کی دکان اب چوہدری کریانہ سٹور میں بدل گئی ہے۔ اب میں خان بیکری پر جاتا ہوں۔ وہاں ایک نوجوان لڑکا بیٹھا ہے۔ اس سے ذرا آگے بائیں ہاتھ صدیقی جنرل سٹورہے شمیم صاحب اللہ کو پیارے ہو گئے ہیں۔ اس کے بالکل سامنے ایگل ہوٹل ہوا کرتا تھا۔ پوچھنے پر پتا چلاکہ ایگل ہوٹل کب کا بند ہو چکا ہے۔ جنوری کی روپہلی سہ پہر اب سرد سُرمئی شام میں ڈھل چکی ہے۔ اچانک مجھے خیال آتا ہے کہ میں ایگل چوک پر تنہا کھڑا ہوں۔ پھر مجھے یاد آتا ہے‘ برسوں پہلے کی بات ہے یہی مقام تھا اور یہی موسم جب ہم ''زندہ بھوت‘‘ سے چھپ کر خاموش کھڑے تھے۔ اُس دن ہماری خاموشی پر وہ کیسے پاگل ہو رہا تھا۔ آج میں اپنے ہی محلے میں اجنبی ہوں۔ ایگل چوک میں کھڑا میں اپنے چاروں طرف دیکھتا ہوں۔ آنے جانے والوں میں کوئی بھی شناسا چہرہ نہیں ہے۔ میں دونوں ہاتھوں سے اپنے چہرے کو ڈھانپ لیتا ہوں اور چیخ چیخ کر پکارتا ہوں ''کہاں چلے گئے ہو تم سب؟ بولتے کیوں نہیں؟ بولو! آج کیوں چُپ لگ گئی ہے تمہیں؟‘‘ لیکن میرے جواب میں ایک گہری چُپ کا سناٹاہے اور سرد ہوا کا شور۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں