"SSC" (space) message & send to 7575

صحرائے تھل کا منکیرہ

میرے چاروں طرف تھل کا صحرا ہے اور میں سرکتی ہوئی ریت کے ایک ٹیلے پر بیٹھا ہوں۔ میرے ایک ہاتھ میں درخت کی کاٹی ہوئی ایک خشک ٹہنی ہے جس کے سہارے اونچی نیچی راہوں پہ چلتا ہوا میں اس ٹیلے تک پہنچا ہوں۔ توازن برقرار رکھنے کے لیے میرے پائوں نرم ریت میں دھنسے ہوئے ہیں۔ چاروں طرف سکوت ہے۔ سورج اپنا سفر طے کر کے آہستہ آہستہ مغرب کی وادی کی طرف آ رہا ہے۔ وقت جیسے رک گیا ہو۔ یہ منکیرہ ہے‘ صحرائے تھل کے وسط میں واقع ایک تاریخی قصبہ۔ مقامی زبان میں منکیرہ کا مطلب ریت کا سرکتا ہوا ٹیلہ ہے۔ میں یہاں کل رات ہی پہنچا تھا۔ اسلام آباد کی ہلچل سے دور‘ بہت دور صحرائے تھل کے قصبے منکیرہ میں جعفر صاحب کا ڈیرہ ہے۔ ان کی دعوت پر میں ''اٹھارہ ہزاری‘‘ سے حیدر آباد تھل اور پھر منکیرہ کے راستے پر جا رہا تھا۔ یہ جنوری کا مہینہ تھا اور سڑک کے دائیں بائیں چنے کی فصل کی سبز چادر بچھی تھی۔ مارچ تک یہ چادر سبز مخمل کا دبیز قالین بن جائے گی۔ریتلے ٹیلوں پر تھوڑے تھوڑے فاصلے پر کھگل کے درخت لگے ہوئے تھے۔ پوٹھوہار میں ہم انہیں رُکھ کہتے ہیں۔ بے آب و گیاہ صحرا میں یہی درخت ہے جو سخت گرمی اور ریتلی زمین میں بھی پھلتا پھولتا ہے اور یہاں کے لوگوں کی معیشت کا سہارا بنا ہے۔ چنا بھی یہاں کی مقبول فصل ہے اور پھر یہاں کے خربوزے اور تربوز تو ملک بھر میں مشہور ہیں۔ منکیرہ کی حدود میں داخل ہوتے ہوئے شام رات میں ڈھل چکی تھی اور دور دور تک اندھیرے کا سمندر تھا۔
جعفر صاحب نے شہر کے ہنگاموں سے دور اپنی ایک الگ دنیا آباد کی ہوئی ہے‘ جہاں انواع و اقسام کے درخت، پرندے اور پھل ہیں۔ ڈیرے پر پہنچ کر میں نے دیکھاکہ صحن میں لکڑیوں کا الائو دہک رہا تھا۔ کھانا کھا کر ہم الاؤ کے گرد کرسیوں پر بیٹھ گئے۔ جعفر صاحب نے کہاکہ آج ہی ماجد لکڑیاں چیر کر لایا ہے خاص طور پر اس بون فائر کے لیے۔ اب اس الائو کی تپش ہم تک پہنچ رہی تھی۔ لکڑیوں کی آگ کو تیز کرنے کے لیے ہم وقفے وقفے سے اس میں شرینہہ کی سوکھی ہوئی ٹہنیاں ڈالتے جاتے۔ ان ٹہنیوں کے ساتھ سوکھی ہوئی پھلیاں تھیں جنہیں آگ میں ڈالا جاتا تو رات کی خاموشی میں تڑ تڑ کی آواز دور تک جاتی۔ جعفر صاحب بتا رہے تھے کہ جب انہوں نے یہاں زمین لی تو دور تک ریت کے بنجر چٹیل ٹیلے تھے‘ چار سال کی محنت سے اب یہاں سرسبز درختوں کے جھنڈ نظر آتے ہیں اور خوش نوا پرندوں کی چہکار سنائی دیتی ہے۔ ٹیوب ویل کا پانی پکے ''کھالوں‘‘ سے ہوتا ہوا کھیتوں کو سیراب کرتا ہے۔
گفتگو کے دوران وقفے وقفے سے ہم دہکتی ہوئی آگ میں لکڑیاں ڈالتے جاتے اور ساتھ ہی شرینہہ کی خشک ٹہنیوں کی تڑ تڑ ماحول کی یکسانیت کو بدل دیتی۔ جوں جوں رات گزر رہی تھی دھند کا غبار گہرا ہوتا جا رہا تھا۔ شاید گیارہ بجے کا وقت ہو گا جب میں سونے کیلئے اپنے کمرے میں گیا۔ اس روز مجھے خوب نیند آئی۔ شاید میں دیر تک سوتا لیکن کھڑکی پر دستک سے میری آنکھ کھل گئی۔ میں نے کھڑکی کا پردہ ہٹا کر دیکھا باہر کوئی نہیں تھا۔ میں پھر لحاف لپیٹ کر لیٹ گیا۔ کچھ دیر بعد پھر وہی دستک۔ میں نے پھر پردہ ہٹا کر دیکھا‘ باہر کوئی نہیں تھا۔ خوف کی ایک لہر نے مجھے اپنی لپیٹ میں لے لیا‘ شاید اس کمرے میں کوئی آسیب تھا جسے اپنی جگہ میں کسی کی مداخلت برداشت نہ تھی۔
صبح بیدار ہوا۔ ناشتے کے دوران جعفرصاحب نے پوچھا: آپ کو نیند توٹھیک طرح سے آئی نا؟ اس سے پیشتر کہ میں کوئی جواب دیتا‘ وہ بولے: صبح صبح کھڑکی پر دستک کی آواز تو نہیں آئی؟ پھر خود ہی ہنس کر کہنے لگے: میں آپ کو بتانا بھول گیا تھا‘ صبح سویرے ایک لمبی چونچ والا پرندہ یہاں آتا ہے اور کھڑکی پر اپنی چونچ مارتا ہے‘ یہ اس کا ہر روز کا معمول ہے۔ مجھے رات کے آسیب کا معمہ حل ہو جانے پر اطمینان ہوا۔
اب میرا دل چاہ رہا تھاکہ دھند چَھٹے اور میں گھوم پھر کر اس علاقے کو دیکھوں۔ برآمدے میں چارپائیاں ڈال کر آگ کا الاؤ پھر سے روشن کیا گیا۔ دور دور تک سارا منظر دھند میں لپٹا ہوا تھا۔ گیارہ بجے کے قریب دھند میں کمی آنا شروع ہوئی تو میں نے درخت کی ایک توانا ٹہنی کو لاٹھی بنایا اور چنوں کے کھیتوں اور مالٹوں کے باغوں کے ساتھ بنے راستوں پر چلنے لگا۔ میرے ارد گرد کھگل کے درخت دورویہ چل رہے تھے۔ اب دھوپ نکل آئی تھی اور شبنم کے قطرے درختوں کی ٹہنیوں اور پتوں پر ہیرے موتیوں کی طرح چمک رہے تھے۔ میں دیر تک اس منظر کے سحر میں گرفتار رہا۔ میرے دائیں طرف چنے کے کھیت میں چند عورتیں بُوٹیاں چن رہی تھیں۔ پگڈنڈی کے بائیں طرف ان کی گدھا گاڑی کھڑی تھی اور ایک کتا اس کی نگرانی کررہا تھا۔ وہ عورتیں بُوٹیاں چُن کر اسی گدھا گاڑی پر اپنے گھروں کولے کر جائیں گی اورکتا ان کی حفاظت کے لیے ان کے ہمراہ ہوگا۔ مجھے گاؤں میں اپنے بچپن کے دن یاد آگئے۔ جب بکریوں اور بھیڑوں کے ریوڑ کے پیچھے پیچھے کتا چل رہا ہوتا تھا۔
پگڈنڈی پر چلتے چلتے اچانک مجھے ایک دلکش رنگوں والی تتلی نظر آئی جو ایک درخت کے پتوں پر بیٹھی تھی۔ جنوری کی رُوپہلی دھوپ میں اس کے پروں کے خوش نُما رنگ چمک رہے تھے۔ کھیتوں کے اردگرد پگڈنڈی نما راستوں پر چلتے ہوئے میرے جوتے نرم ریت میں دھنس رہے تھے۔ یہ رستے ہموار نہیں اونچے نیچے تھے۔ ایسے میں میرے ہاتھ میں درخت کی خشک ٹہنی سے بنی لاٹھی نے خوب کام دیا‘ خاص طور پر ریتلے ٹیلوں پر چڑھتے ہوئے۔ جنوری کی نرم دلربا دھوپ میرے ہمراہ تھی اور میں ٹیڑھے میڑھے راستوں پر چل رہا تھا۔ پھر میں نے پیچھے مڑکر اپنے اطراف نظر دوڑائی۔ دور دور تک ایک خاموش وسعت پھیلی ہوئی تھی۔ سب کچھ ایک خواب کا منظر لگتا تھا۔ ایسا ہی خواب اقبال کی ایک نظم میں ملتا ہے۔ جب وہ شہر کے ہنگاموں سے دور سکون کی تلاش کے خواہش مند ہیں۔ 
شورش سے بھاگتا ہوں دِل ڈھونڈتا ہے میرا
ایسا سکوت جس پر تقریر بھی فدا ہو
اچانک اس خاموشی میں مجھے پانی کا جلترنگ سنائی دیتا ہے۔ میں نے بائیں طرف نگاہ کی تو بلندی سے ٹیوب ویل کا پانی ایک پختہ ''کھالے‘‘ سے نیچے بہہ رہا تھا۔ میں اس مختصر سے حوض کے قریب بیٹھ گیا‘ جہاں بلندی سے آتا ہوا پانی زور سے گِرتا تو یوں لگتا چاندی کے چھینٹے ہر طرف بِکھر رہے ہوں۔ اس حوض سے پانی ایک اور پُختہ ''کھالے‘‘ سے دوسری سمت جا رہا تھا۔ میں نے بہتے ہوئے پانی کو دیکھا جو اتنا صاف اور شفاف تھاکہ اس میں میرا چہرہ صاف نظر آرہا تھا۔ مجھے جرمن ناول نگار ہرمن ہیسے (Hermann Hesse) کا ناول سدارتھا(Siddhartha) یاد آ گیا جس کا بنیادی کردار حقیقت کی تلاش میں دنیاوی آسائش چھوڑ کر جنگلوں اور بیلوں میں گھومتا ہے اور آخر میں ایک ندی کے پانی میں اپنا عکس دیکھتا ہے تو اس پر انکشاف ہوتا ہے کہ حقیقت تو اس کے اندر تھی جسے وہ باہر ڈھونڈ رہا تھا۔ پھر مجھے انگریزی کے معروف شاعر ورڈزورتھ (Wordsworth) کا خیال آتا ہے‘ جس نے اپنی ماں کو بچپن میں کھو دیا تھا اور جو اکثر کہا کرتا تھاکہ فطرت کے یہ مظاہر آسمان، بادل، ندیاں، سرسبز میدان، گہری وادیاں اور بلندوبالا پہاڑ میرے لیے ماں، دوست اور مسیحا کا درجہ رکھتے ہیں۔ میں ایک ٹیلے سے ٹیک لگا کر بیٹھ جاتا ہوں اور بہتے پانی کا جلترنگ سنتا ہوں۔ پھر میں بلندی سے نشیب کی طرف دیکھتا ہوں۔ دور دور تک سناٹے کا راج ہے۔ صرف بہتے پانی کی ٹھنڈی میٹھی آواز ہے۔ سرما کی کومل دھوپ میرے چاروں طرف پھیلی ہوئی ہے اور میں جاگتی آنکھوں سے یہ دلرُبا خواب دیکھ رہا ہوں۔ (جاری)

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں