میں بہتے پانی کا جلترنگ سنتے ہوئے اس خواب جیسے منظر میں نجانے کتنی دیر محو رہتا کہ موٹر سائیکل کی آواز نے مجھے چونکا دیا۔ مجھے یاد آیا ملک صاحب نے یہاں کے ایک مقامی باشندے کو اپنے ڈیرے پر بلا رکھا تھا۔ شاید وہی ہوگا۔میں نے خشک ٹہنی کی لاٹھی اُٹھائی اور اسے سہارا بنا کر ریت کے ٹیلے پر چڑھنے لگا۔میرا اندازہ ٹھیک نکلا۔ملک صاحب کے دوسرے ڈیرے پر رنگین پایوں والی چارپائیاں بچھی تھیں اور ملک صاحب کے پاس کوئی شخص کرسی پر بیٹھا تھااور پاس ہی اس کی موٹر سائیکل کھڑی تھی۔ریت سے بھرے میرے جوتوں کو دیکھ کر وہ سمجھ گئے کہ میں پہلے ڈیرے سے دوسرے ڈیرے تک گھومتا گھومتا پہنچا ہوں۔ہنس کر کہنے لگے: میرا روز کامعمول ہے کہ ناشتہ ایک ڈیرے پر کرتا ہوں پھر کھیتوں اور باغوں کے آڑے ترچھے راستوں پر چلتا ہوا اس ڈیرے پر آجاتا ہوں اور دوپہر کا کھانا یہاں کھاتا ہوں۔پھر کہنے لگے: یہ امیر لجانہ ہے۔ آپ نے منکیرہ کا قلعہ دیکھنے کی خواہش کی تھی۔امیر لجانہ اس علاقے کے چپے چپے کو جانتا ہے۔یہ آپ کی رہنمائی کرے گا لیکن قلعہ زیادہ دور نہیں اور کھانا تیار ہے۔کھانے کے بعد آپ یہاں سے نکلیں۔کھانے کی میز پر دیسی مرغی ‘سرسوں کا ساگ اور خالص مکھن تھا۔ اس کے ہمراہ تازہ ‘گاڑھی اور فرحت بخش لسی کا جگ تھاجس نے کھانے کا لطف دوبالا کر دیا۔ یہ سب چیزیں خالص تھیں۔ ہر قسم کی آلائش اور ملاوٹ سے پاک‘ بالکل گاؤں کی معصوم فضاؤں کی طرح جنہیں فطرت کا قرب حاصل ہے۔ کھانے کے بعد میں امیر لجانہ کے ہمراہ منکیرہ کا قلعہ دیکھنے نکل کھڑا ہوا۔ راستے میں ہمیں دھواں اگلتی ایک فیکٹری نظر آئی اس فیکٹری میں چِپ بورڈ بنایا جاتا ہے۔ پورے علاقے میں کھگل کے درختوں کی بہتات ہے جس کی لکڑی فرنیچر بنانے کے کام آتی ہے۔اس فیکٹری میں انہی درختوں کی لکڑی سے چپ بورڈ بنائے جاتے ہیں۔
کچھ ہی دیر میں ہم منکیرہ چوک پر پہنچ گئے جہاں پر بلند وبالا اقبال گیٹ ہے جس کے اندر قدیم منکیرہ شہر نظر آتا ہے۔گیٹ سے اندر داخل ہوں تو دائیں بائیں دکانیں نظر آتی ہیں اور پھر کچھ دیر بعد قلعے کی طویل دیوار نظر آنا شروع ہوجاتی ہے۔ہم دیوار کے ساتھ ساتھ چلنے لگے۔ میں سوچ رہا تھا کہ یہی جگہ تھی اور یہی آسمان جب ہر طرف منکیرہ سلطنت کا ڈنکا بجتا تھا اور یہ قلعہ طاقت کا مرکز تھا۔یہ اٹھارہویں صدی کا ہندوستان تھاجس میں مغل اور درانی سلطنتوں کی گرفت کمزور ہو رہی تھی اور مسلمانوں کی چھوٹی چھوٹی ریاستیں آزادی کا اعلان کرنے لگیں‘انہی میں ایک ریاست منکیرہ تھی جس کی بنیاد 1772ء میں ڈیرہ اسمٰعیل خان کے سر بلند خان نے رکھی تھی۔یہ ایک وسیع وعریض ریاست تھی جس کا دارالحکومت منکیرہ تھا اور جس کی سرحدوں میں سندھ دوآب ‘بھکر‘لیہ ‘میانوالی ‘ڈیرہ اسمٰعیل خان اور بنوں کے کچھ علاقے شامل تھے۔اُس زمانے میں یہ قلعہ دورونزدیک رعب و دبدبے کی علامت تھا۔یہ وہ زمانہ تھا جب مشرقی اور وسطی پنجاب سکھوں کے قبضے میں چلا گیا تھااور 1772ء میں احمد شاہ ابدالی کی وفات کے بعد افغانوں کا اقتدار بھی کمزور پڑنے لگاتھا۔ایسے میں سربلند خان کی منکیرہ سلطنت عروج کی منزلیں طے کرنے لگی۔میں قلعے کی وسعت دیکھ کر حیران ہو رہا تھا۔ریتلی زمین پر اتنی مضبوط بنیادوں کے ساتھ تعمیر کردہ یہ قلعہ یقینا اپنے وقت کا عجوبہ ہوگا۔
اٹھارہویں صدی کے ہندوستان میں مغلوں اور درانیوں کے مقابلے میں ایک تیسری قوت سکھوں کی تھی جن کا رہنما رنجیت سنگھ تھا جس نے سکھوں کے مختلف گروہوں کو یکجا کیا اور اِدھر اُدھر کی ریاستوں کو اپنی سلطنت میں شامل کرنے لگا۔ وہ مختلف ریاستوں پر حملہ کرتا اور ان سے خراج وصول کرتا۔ یوں رنجیت سنگھ کی سلطنت معاشی لحاظ سے ایک مستحکم سلطنت تھی یہی وجہ ہے کہ رنجیت سنگھ کی فوج میں غیر ملکیوں کوبھاری معاوضے پر بھرتی کیا گیا تھا۔فوج کی ٹریننگ اور جدید اسلحے کے لیے فنڈز مختص کیے گئے تھے۔یوں پنجاب میں سکھوں کی حکومت اردگرد کی ریاستوں کے لیے مسلسل خطرے کا باعث تھی۔ 1779ء میں رنجیت سنگھ کا پنجاب کے سب سے اہم شہر لاہور پر قبضہ ہو چکا تھا۔پھر ایک کے بعد ایک ریاست رنجیت سنگھ کا نشانہ بننے لگی۔
اب ہم قلعے کے اس حصے میں آگئے تھے جہاں ایک مقبرہ تھا۔یہ مقبرہ سلطنت منکیرہ کے بانی سر بلند خان کا تھاجس کا انتقال 1815ء میں ہوا تھا۔یوں 1772ء سے 1815ء تک وہ بلا شرکتِ غیر ے سلطنتِ منکیرہ کامالک تھا جس کی سلطنت کی حدیں دوردور تک پھیلی ہوئی تھیں۔ سر بلند خان کا مقبرہ کیا ہے عبرت سرائے ہے۔ چند سیڑھیاں چڑھ کر مقبرے میں داخل ہوں تو سر بلند خان کی قبر نظر آتی ہے جس کی لوح پر اس کا نام اور اس کی تاریخ وفات 1230 ہجری درج ہے۔اس مقبرے کی چھت یا تو بنائی نہیں گئی تھی یا شاید شکستہ ہو کر گر گئی تھی۔ یوں وہاں کھڑے ہوں تو آسمان صاف دکھائی دیتا ہے۔
سر بلند خان کی وفات کے بعد 1815ء میں نواب حافظ احمد خان نے منکیرہ سلطنت کی باگ ڈور سنبھالی ۔ادھر رنجیت سنگھ کئی علاقائی ریاستوں کو تہ تیغ کرتا ہوا ان سے خراج وصول کر رہا تھا ۔ رنجیت سنگھ کا اگلا نشانہ منکیرہ کی خوش حال ریاست تھی ۔یہ 1816ء کا سال تھاجب رنجیت سنگھ نے منکیرہ پر پہلا حملہ کیااور خراج لے کر آگے بڑھ گیا۔دوسری بار 1821ء میں رنجیت سنگھ کے لشکر نے ڈیرہ اسمٰعیل خان پر حملہ کیاجو سلطنتِ منکیرہ کا حصہ تھا۔ وہاں کے گورنر کو گرفتار کرنے کے بعد رنجیت سنگھ کے لشکر نے منکیرہ کا رُخ کیا جو سلطنتِ منکیرہ کا دارالحکومت تھا‘جہاں ہر طرف ریت کے ٹیلے تھے اور گرمی سے تپتی ریت پیاس کی شدت کو بڑھا رہی تھی۔ پانی کے فقدان نے رنجیت سنگھ کے لشکر کو پریشان کر دیا ۔آخر انہوں نے کنویں کھودنا شروع کر دیے ۔منکیرہ کے علاقے میں پانی کی سطح بہت اوپر ہے لہٰذا جلد ہی پانی کی فراہمی شروع ہو گئی ۔نواب حافظ احمد خان نے ہتھیار ڈالنے سے انکار کر دیا۔سکھوں نے قلعے کا محاصرہ کیا ہوا تھا اورقلعے کی سپلائی لائن کاٹ دی گئی تھی۔یہ محاصرہ طول کھینچتا گیا‘ ہر گزرنے والا دن قلعے کے مکینوں کی زندگیاں مشکل تر بنا رہا تھا۔اب نواب حافظ احمد خان کے ساتھیوں کے حوصلے ٹوٹ رہے تھے ا ور ان میں سے کچھ نے خفیہ طور پر رنجیت سنگھ کے لشکر کے ساتھ رابطہ کر لیا اور اس کی فوج کے ساتھ جاملے۔گھر کے ان بھیدیوں نے رنجیت سنگھ کے لشکر کو قلعے کے کمزور مقامات کے حوالے سے تمام معلومات فراہم کر دیں۔اب رنجیت سنگھ کے لشکر کے حملے میں شدت آگئی تھی۔ قلعے کے مکینوں نے بھر پور مزاحمت کی لیکن اب محاصرے کو بائیس دن ہو چکے تھے اور نواب کی فوج میں بد دلی پھیل گئی تھی۔ نواب کو اہم فیصلہ کرنا تھا‘اپنی زندگی کا مشکل ترین فیصلہ ۔اسے اپنے اقتدار کی قربانی دے کر قلعے کے مکینوں کو مزید قتل وغارت سے بچانا تھا۔نواب نے رنجیت سنگھ کو پیغام بھیجا کہ وہ قلعے کو چھوڑنے کے لیے تیار ہے بشرطیکہ اسے اپنے ساتھیوں کے ہمراہ ڈیرہ اسمٰعیل خان کی جاگیر پر جانے کی اجازت دی جائے۔رنجیت سنگھ نے یہ شرط مان لی۔ اب رخصت کا وقت آ چکا تھا۔ منکیرہ کی حدود سے نکلتے ہوئے نواب حافظ احمد خان نے پلٹ کر قلعے کی دیواروں پر آخری نگاہ ڈالی۔ غروب ہوتے ہو ئے سورج کی شعاعیں قلعے کی دیواروں کو شفق رنگ بنا رہی تھیں۔اچانک میں حال کے لمحے میں آگیا۔میرے چاروں طرف تھل کا صحرا ہے اور میں سرکتی ہوئی ریت کے ٹیلے پر بیٹھا ہوں۔ سورج کا گلِ سرخ دن بھر کے سفر کے بعد مرجھا کر رات کی جھیل میں گر رہا ہے۔میں سوچتا ہوںسب کچھ کتنا عارضی ہے ‘شایداُس شام نواب حافظ احمد خان نے منکیرہ قلعے کی شفق میں ڈوبی ہوئی دیواروں کو آخری بار دیکھ کر یہی سو چا ہو گا۔