تعلیمی ادارے کسی بھی معاشرے کی سوچ کی تشکیل میں اہم اور مثبت کردار ادا کر سکتے ہیں لیکن اگر نظامِ تعلیم تخلیقی اور تنقیدی سوچ کی حوصلہ شکنی کرتا ہو تو تعلیمی اداروں سے ایسے ہی لوگ نکلتے ہیں جو صرف اندھی تقلید پر یقین رکھتے ہیں اور کسی بھی نئے خیال اور سوچ کو خوش آمدید نہیں کہتے۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں سرکاری سکولوں کی اکثریت ایسے ہی نظامِ تعلیم کو فروغ دے رہی ہے جس میں امتحان، علم اور علم کے اطلاق (Application) کو جانچنے کے بجائے محض یادداشت (Memory) کی بنا پر طلبا کی گریڈنگ کرتا ہے۔ یوں سرکاری سکولوں کی اکثریت تخلیقی اور تنقیدی سوچ (Critical Thinking ) کے بجائے ایسے طلباتیار کر رہی ہے جو صرف لکیر کے فقیر ہوتے ہیں‘ اور ساری عمر رہٹ پر چلنے والے بیلوں کی طرح گزار دیتے ہیں۔ ان کی آنکھوں پر اندھی تقلید کی پٹی ہوتی ہے‘ اور وہ کسی نئی سوچ،نئے تجربے اور نئے تصور کے دریچے خود پرہمیشہ کے لیے بند کر دیتے ہیں۔ یوں تعلیم‘ جس کا بنیادی مقصد سوچ ،رویوں اور زندگی میں تبدیلی ہے‘ محض ایک ایسی سرگرمی بن کر رہ جاتی ہے جو بے رس، بے ذائقہ اور بے روح ہوتی ہے اور تعلیمی ادارے‘ جن کا بنیادی وصف طلبا کو تخلیقی سوچ اور نئے تصورات سے آشنا کرنا ہوتا ہے‘ گھسے پٹے اور دقیانوسی خیالات کو پروان چڑھاتے ہیں۔ ستم ظریفی دیکھئے کہ تعلیمی ادارے‘ جن کا تبدیلی کے عمل میں بنیادی کردار ہونا چاہئے‘ اپنا کردار نبھاتے نظر نہیں آتے۔
سکولوں کی ایک بڑی تعداد دقیانوسی تصورات کی تشکیل (Construction)، توثیق (Approval) اور ترویج (Perpetuation) میں ایک مؤثرسماجی ادارے کے طور پر کام کر رہی ہے۔ یہ بات اہم ہے کہ طلبا اپنی عمر کے اس حصّے میں ہوتے ہیں جب ان کا ذہن کلاس روم میں دیئے گئے تصورات کو آسانی سے قبول کرتا ہے اور انہیں اپنی سوچ کا حصہ بنا لیتا ہے۔
اس عمل میں پہلے تو نصاب اور درسی کتب کے ذریعہ فرسودہ تصورات کو پیش کیا جا تا ہے اور پھر اساتذہ اس عمل کی توثیق کرتے ہیں۔ درسی کتب لکھنے‘ ان کا جائزہ لینے والوں میں مرد ارکان کا غلبہ ہے۔ کتابوں کے مشمولات میں صنفی نمائندگی کے تجزیہ پر مبنی تحقیق گزشتہ تین دہائیوں کے دوران سامنے آئی ہے۔ متعدد تحقیقی مطالعات میں جب نصابی کتب کا تجزیہ کیا گیا تو معلوم ہوا کہ مرد اور خواتین کے کرداروں کے مابین تعداد میں بہت زیادہ فرق ہے۔ خواتین کردار مرد کرداروں کے مقابلے میں بہت کم ہیں۔ خواتین کرداروں کے اس 'بلیک آؤٹ‘ کی وضاحت خارج کرنے والی سیاست (Politics of Exclusion) کے حوالے سے کی جا سکتی ہے جہاں معاشرے کا غالب گروہ (Dominant) پسماندہ گروہ (Marginalised Groups) کو پوشیدہ وجود (Invisible entity)میں بدل دیتا ہے۔ ان ریسرچ سٹڈیز کے نتائج کے مطابق مردانہ کرداروں کا تذکرہ اور تصاویر‘ دونوں خواتین کے کرداروں کے مقابلے میں زیادہ تھے۔
اس صنفی تفاوت کی ایک وجہ نصابی کتب لکھنے والوں اور جائزہ نگاروں (Reviewers) میں خواتین کی کم نمائندگی ہے۔ متعدد تحقیقی مطالعات میں مرد اور خواتین کی محض مقداری نمائندگی پر توجہ مرکوز کی گئی ہے۔ ایسی تحقیق میں اس مسئلے کو صرف سطح سے کھرچا جاتا ہے اور یوں مسئلے کا حقیقی پہلو ہمارے سامنے نہیں آتا۔ اصل مسئلہ اس سے کہیں زیادہ گہرا اور پیچیدہ ہے۔ یہ مسئلہ صرف مقداری نمائندگی کا نہیں ہے بلکہ اہم بات یہ ہے کہ ان کرداروں کو پیش کیسے کیا جاتا ہے۔ اگر ہم درسی کتب میں پیش کردہ کرداروں کا غور سے جائزہ لیں تو مرد کردار مضبوط، غالب، مرکزی حیثیت کے مالک اور سرپرستی کرنے والے (Patronizing) والے کرداروں کے روپ میں سامنے آتے ہیں جبکہ خواتین کے کردار عام طور پر فرمانبردار، مطیع، ثانوی اور حاشیے والے ہوتے ہیں۔ یوں طلبا کو کم عمری ہی میں سکولوں کی درسی کتب میں متعصبانہ صنفی نمائندگی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ درسی کتب کا مواد اساتذہ کی توثیق کے ساتھ مل کر طلبا کیلئے اور بھی مقدس بن جاتا ہے اور ان کے شعور کا حصہ بن جاتا ہے۔ سماج کاری Socialization)) کے اس ابتدائی عمل میں لڑکوں کو یہ باور کرایا جاتا ہے کہ وہ تمام مثبت صفات مثلاً طاقت، سخاوت، بہادری اور جارحیت کے مالک ہیں جبکہ لڑکیوں سے وابستہ صفات میں مطابقت، خوبصورتی، تعمیل، اور سادہ لوحی شامل ہیں۔ لڑکیاں نصابی کتب میں دیئے گئے دقیانوسی تصورات کو اپنی سوچ کا حصہ بنا لیتی ہیں اور مردانہ برتری کے غلط تصور پر ایمان لے آتی ہیں۔ اس کا فطری نتیجہ ایک شکست خوردہ نقطہ نظر ہے‘ جہاں انہیں ایسا لگتا ہے کہ مردانہ برتری کو قبول کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔
Dale Spender کی کتاب، Man made language، میں طاقت اور فوقیت کے مابین امتیاز کو واضح کرتی ہے۔ Spender کے مطابق مرد اگرچہ زیادہ تر وسائل پر قابض ہیں لیکن اس کا کسی بھی طرح سے مطلب یہ نہیں کہ وہ برتر ہیں۔ درسی کتب مؤثر اور کامیابی کے ساتھ ایک ایسی دنیا کو مستحکم اور مستقل کرتی ہیں جس پر مردوں کی حکمرانی ہے اور جہاں مردوں کو اہمیت دی جاتی ہے۔ درس و تدریس کا عمل درسی کتب کے مندرجات کو پورا کرتا ہے‘ لہٰذا، صنفی دقیانوسی تصورات، کردار، توقعات اور مواقع کے بارے میں طلبا کو جوش و خروش سے تدریسی عمل کے ذریعے آگاہ کیا جاتا ہے۔ جنوبی ایشیا کے بیشتر مرکزی دھارے والے (Main Stream) سکولوں میں جہاں تدریس ٹرانسمیشن کے نقطہ نظر پر مبنی ہے‘ کسی دقیانوسی تصورات کو چیلنج نہیں کیا جاتا۔ اس طرح سکول جنہیں انفرادی اور سماجی تبدیلی میں اہم کردار ادا کرنا چاہیے وہ سوالات کی حوصلہ شکنی کرتے ہیں اور دقیانوسی تصورات اور طاقت کے ڈھانچوں (Power Structures) کو برقرار رکھنے اور انہیں بڑھاوا دینے میں مرکزی کردار ادا کر رہے ہیں۔
ہم اپنے سکولوں اور معاشرے میں تبدیلی کی توقع کیسے کر سکتے ہیں؟ اس کا جواب ایک ایسے تعلیمی نظام کی تعمیر و تشکیل ہے‘ جس میں تدریسی مواد، تدریس اور امتحانی نظام کا از سرِ نو جائزہ لیا جائے۔ معیاری نصابی کتب کی ایک اہم شرط صنفی مساوات کا متوازن نظریہ ہے۔ درسی کتب میں استعمال کی جانے والی زبان غیر جانبدارانہ ہونی چاہئے۔ اساتذہ کی طرف سے کلاس روم میں درسی کتب کا استعمال اہمیت کا حامل ہے۔ اگر اساتذہ تنقیدی تدریسی عمل (Critical Pedagogy) کی پیروی کرتے ہوئے طلبا میں تنقیدی سوچ (Critical Thinking) کی مہارت پیدا کریں تو سوچنے کاایک ایسا ماحول پیدا کیا جا سکتا ہے جہاں دقیانوسی تصورات کو قبول کرنے کے بجائے انہیں چیلنج کیا جاتا ہے۔ بد قسمتی سے زیادہ تر مرکزی دھارے والے سکولوں میں ایسا نہیں ہوتا ہے کیونکہ ہمارے تدریسی عمل پر ہمارے نظامِ امتحان کے منفی اثرات ہیں۔ موجودہ امتحانی نظام، جو مرکزی دھارے کے سکولوں میں رائج ہے یادداشت کے بنیادی اصولوں پر مبنی ہے۔ اس نظام کے اعلیٰ سطح پر سوچنے کی مہارت (Higher Order Thinking Skills) کی ضرورت نہیں‘ نہ ہی ہمارا امتحانی نظام اس کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔ اس نظام میں طلبا کتابوں سے مخصوص حصوں کو حفظ (Memorise) کرتے ہیں اور فہم (Understanding) اور Reflectionکی مہارت کا استعمال کیے بغیر انہیں امتحان کے پیپر میں دوبارہ پیش کر دیتے ہیں۔
اگر ہم انفرادی اور معاشرتی سطح پر تبدیلی کے لیے اپنے تعلیمی نظام میں حقیقی تبدیلی چاہتے ہیں تو ہمیں اپنی نصابی کتب، درس و تدریس اور امتحانی نظام پر نظر ثانی کرنے کی ضرورت ہے۔ اسی صورت میں ہم اپنی زندگی اور معاشرے میں با معنی تبدیلی کی توقع کر سکتے ہیں۔