کھڑی شریف کا دربار اب میرے سامنے ہے۔مسجد کا گنبد اور بلند و بالا مینار دور سے نظر آتے ہیں۔مزار مردوں‘ عورتوں اور بچوں سے چھلک رہا ہے۔ میرے سامنے میاں محمد بخش ؒاور ان کے روحانی پیشوا پیر ا شاہ غازیؒ کے مزارہیں۔ لوگوں کا ہجوم ہے جومحبت‘ عشق اور وارفتگی کی پھوار میں بھیگ رہا ہے۔میں صدر دروازے کے قریب بنے ہوئے برآمدے کے فرش پر بیٹھ جاتا ہوں اور اپنے سامنے جذب و کیف کے رنگوں کو دیکھتا ہوں۔ ان رنگوں میں عقیدت کا رنگ سب سے نمایاں ہے۔ حیرت ہے محبت کے یہ رنگ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ماند نہیں پڑے بلکہ اور گہرے ہو گئے ہیں۔یہ تقریباً دو سو برس پہلے کی بات ہے جب 1830ء میں یہاںسے کچھ فاصلے پر ایک چھوٹے سے گائوں چک ٹھاکرہ میں میاں شمس الدین کے گھر ایک بچے نے جنم لیا تھا جسے عشق کی وادیوں کا سفر کرنا تھا‘ جس کا نام میاں محمد بخش تھا اور اس کی زندگی کی سب سے بڑی آرزو تصوف کی وادی میں اُتر کر اس کے اسرار کو سمجھنا تھا۔ کہتے ہیں تصوف کی راہیں آسان نہیں ہوتیں‘ روح کی شادابی کے لیے جسم کو دنیاوی ذائقوں اور ترغیبات سے بچانا ہوتا ہے۔ اس راہ کے مسافر کی آنکھوں میں دنیا کی تمام رونقیں اور رنگینیاں ہیچ ہوتی ہیں۔ اس کی سب سے بڑی آرزو دل کی شکستگی ہوتی ہے۔ اس کی سب سے بڑی متاع دولتِ درد ہوتی ہے۔ یہی درد کی دولت کلام میں تاثیر کی آنچ جگاتی ہے جو سننے اور پڑھنے والوں کا دل پگھلا دیتی ہے۔ عشق کی وادی کا سفر مسافر پر دنیا کی بے ثباتی آشکار کرتا ہے۔ دنیا کے رنگوں کی یہی بے ثباتی ہے جس کی طرف میاں محمد بخش بار بار اشارہ کرتے ہیں اور پھر اس بے ثبات دنیا میں ایک ایسی محبت کے متلاشی ہیں جس کا جگمگاتا ہوا آفتا ب کبھی نہ ڈھلے۔
میاں محمد کی '' سیف الملوک‘‘ کا سفرِ عشق بیک وقت مجازی اور حقیقی محبوب کی تلاش کا سفر ہے۔شاید مجازی عشق ایک حریری پردہ ہے‘ اس پردے کے پیچھے عشقِ حقیقی کا چراغ روشن ہے جس کی نرم روشنی پردے سے چھن چھن کر باہر آ رہی ہے۔ عشقِ حقیقی اور عشقِ مجازی میں بنیادی فرق یہی ہے کہ عشق ِمجازی عارضی اورناپائیدار ہے اور عشقِ حقیقی کو دوام حاصل ہے۔ ایسے میں میاں محمد بخش ایک ایسی محبت کے متلاشی ہیں جو عارضی نہ ہو اور جس کا تذکرہ تا دیر باقی رہے۔عشقِ حقیقی اور عشقِ مجازی کا یہ تقابل میاں محمد بخش کی شاعری میں بار بار آتا ہے‘ جس میں مجازی عشق کا عارضی پن اور عشقِ حقیقی کا جاودانی تصور سامنے آتا ہے۔ وفاداری بشرط ِاستواری اس سفرِعشق کی روح ہے جس کی روداد میاں محمد بخش کی ''سیف الملوک‘‘میں ملتی ہے۔عشقِ حقیقی کے چراغ کی آنچ ہر صوفی کی آرزوہوتی ہے‘ میاں محمد بخش بھی اسی آتشِ عشق کے متلاشی ہیں۔
سچ کیا ہے؟ حقیقت تک رسائی کیونکر ممکن ہے؟ میاں محمد بخش کی سیف الملوک انسان اور کائنات کے سر بستہ رازوں کو سمجھنے کی کوشش ہے۔ میاں محمد بخش عقل و خرد کی تنگنائے سے نکل کر عشق اور جذبے کے اس گداز کے متلاشی ہیں جو آخرِ شب کے آنسوئوں سے جنم لیتا ہے۔ جذبے کی شدت اور دل کی رقت سے پھوٹتے ہوئے یہ آنسو دلوں پر جمی گرد کو صاف کر دیتے ہیں اور دلوں میں چھپے خزانے چمکنے لگتے ہیں۔
میں برآمدے کے ستون سے ٹیک لگائے جانے کب تک بیٹھا رہتا لیکن پھر مجھے یاد آتا ہے کہ مجھے سورج ڈھلنے سے پہلے واپس اسلام آباد پہنچنا ہے میں کھڑا ہو جاتا ہوں اور میاں محمد بخشؒ کے مزار کی خوبصورت عمارت میں داخل ہوتا ہوں۔ لوحِ مزار پر حضرت علی ہجویریؒ کے لوحِ مزار کی طرح ''مرکز ِتجلیات‘‘ لکھا ہے۔ میں دعا کے لیے ہاتھ اٹھاتا ہوں۔ مزار کی عمارت میں لوگوں کی آمدورفت جاری ہے‘ دیواروں پر خوبصورت گل کاری او ر چھت پر میناکاری کی گئی ہے۔ قریب ہی میاں محمد بخش کے روحانی پیشوا پیرا شاہ غازی کا مزار ہے جو میاں محمد بخش کے مزار کا عکس ہے‘ وہی خوبصورتی وہی‘ صناعی‘وہی جذبوں کا وفور۔
میری خواہش تھی مجھے اس جگہ تک رسائی ملے جہاں میاں محمد بخشؒ دنیا کے ہنگاموں سے دور تنہائی میں مراقبہ کرتے تھے‘ یہ ایک تہہ خانہ تھا۔ تہہ خانے کے اوپر ایک چھوٹا سا دروازہ سا تھا جس میں صرف سر جھکا کر داخل ہو سکتے ہیں۔ مختصر سیڑھیاں اُتر کر فرش آتا ہے پھر بائیں ہاتھ ایک اور چھوٹا سا دروازہ ہے اسے کھول کر اند داخل ہوں تو چار سیڑھیاں نیچے اترتی ہیںاور اب میں اس جگہ پر ہوں جہاں میاں محمد بخشؒ تنہائی میں عبادت اور ذکر کرتے تھے یہ3x6 کی ایک تنگ سی کوٹھڑی ہے جس میں میاں محمد بخش نے برسوں تک ریاضت کی۔ یہاں سے ہو کراب میں اس میاں محمد صاحب کے دو کمروں کے گھر کی طرف جا رہا ہوں جہاں ایک کمرے میں میاں صاحب کی فریم شدہ جائے نماز اور ان کے زیر استعمال چارپائی رکھی ہے۔ دوسرا کمرہ عبادت کے لیے مختص تھا‘یہاں سے نکل کر میں کچھ دور ایک ہال نما کمرے میں آ جاتا ہوں۔ یہاں زمینی نشستیں ہیں اوردیواروں کے ساتھ گائو تکیے رکھے ہیں۔ہم گاؤ تکیوں کے سہارے قالین پر بیٹھ جاتے ہیں۔ میری درخواست پر مفتی محمد وسیم عارف ضیائی اور قاری مروت حسین نقشبندی نے سیف الملوک کے اشعار ترنم سے سنانا شروع کیے اور ایک سماں باندھ دیا۔میں سیف الملوک سن رہا تھا اور حیران ہو رہا تھا کہ میاں محمد بخش نے زندگی کے کیسے کیسے سبق کتنے سادہ الفاظ میں بیان کر دیے ہیں۔ ساری فضا میں ایک سحر طاری تھا‘یوں لگتا تھا کہ میں لطیف بادلوں کے ساتھ تیر رہا ہوں۔اس مختصر محفل کا اختتام ہو ا تو میں نے خواہش کا اظہار کیا کہ کھڑی شریف کے سجادہ نشین میاں عمر بخش صاحب سے ملاقات کی جائے، اس کی تاکید مجھے بابر اعوان صاحب نے کی تھی۔ بابر اعوان میرے ''گرائیں‘‘ ہیں‘ انہیں پوٹھوہار سے عشق ہے اور میں جانتا ہوں اگر انہیں سیاست کی بھول بھلیوں سے رہائی ملے تو وہ باقی زندگی پوٹھوہار کے مانوس گلی کوچوں‘ ٹھنڈے میٹھے چشموں‘ اونچی نیچی پگڈنڈیوں‘ہرے بھرے کھیتوں اور گھنے سایہ دار درختوں میں گھومتے ہوئے گزار دیں۔ میاں عمر بخش سے ملاقات ہوئی تو مجھے حیرت ہوئی۔ دیکھنے میں میں وہ ہر گز روایتی پیر نہیں لگتے۔ وہ نوجوان ہیں اور لندن کے تعلیمی اداروں سے فارغ ا تحصیل ہیں۔ میاں محمد صاحب کی کتابوں پر تحقیق ان کی زندگی کا مقصد ہے۔میاں عمر بخش ان دنوں اپنے جدِامجد میاں محمد بخش صاحب کی ایک مستند سوانح عمری پر کام کر رہے ہیں۔وہ میاں صاحب کی دیگر تصنیفات کو بھی ازسرِ نو شائع کر رہے ہیں۔عام خیال یہ تھا کہ میاں محمد بخش نے سترہ یا اٹھارہ کتابیں لکھیں‘ لیکن میاں عمر بخش صاحب کی تحقیق کے مطابق میاں صا حب کی تصنیفات کی تعداد تیس کے لگ بھگ ہے۔اسی دوران چائے آگئی اور ہم میاں محمد بخش صاحب کی باتیں کرتے اور سنتے رہے۔اب دن کی روپہلی روشنی شام کے نارنجی رنگوں میں ڈھل رہی تھی۔ہم نے میاں عمر بخش صاحب سے اجازت چاہی‘ وہ گاڑی تک چھوڑنے آئے۔ڈھلتے سورج کی شعاعوں نے ہر چیز کو شفق رنگ بنا دیا تھا۔میں میاں محمد بخش کے مزار پر الوداعی نگاہ ڈالتا ہوں۔ لوگوں کی آمد کا سلسلہ اسی طرح جاری ہے۔ میں سوچتا ہوں یہ عشق اور عقیدت کی کیسی کہانی ہے جس کا سحر زمان ومکاں کی حدود سے آزاد ہے۔ جس کا کوئی اَنت نہیں اور جو رہتی دنیا تک باقی رہے گی۔وادیٔ عشق کا سفر اختیار کرتے ہوئے میاں محمد بخش نے یہی تو چاہا تھا۔
ـ''لاپریت اجیہی محمد جگ وچ رہے کہانی‘‘۔(ختم)