"SSC" (space) message & send to 7575

شہاب الدین غوری اور پوٹھوہار کی ایک رات

وہ رات یوں تو پوٹھوہار کی عام راتوں جیسی ہی تھی لیکن اس میں کوئی ایسی خاص بات ضرور تھی کہ وہ ہمیشہ کے لیے تاریخ کے صفحات پر نقش ہو گئی۔ وہ 1206ء کا سال تھا اور مارچ کے مہینے کی 15 تاریخ۔ پوٹھوہار میں مارچ کے مہینے میں سردیوں کا زور ٹوٹ جاتا ہے اور ہوا میں گرمیوں کی تاثیر بس جاتی ہے۔ وہ بھی مارچ کی ایک ایسی ہی رات تھی۔ راولپنڈی سے جی ٹی روڈ پر لاہور کی طرف جائیں تو 72 کلومیٹر کے فاصلے پر سوہاوہ کا قصبہ آتا ہے۔ سوہاوہ سے بائیں ہاتھ جانے والی سڑک پر سترہ کلومیٹر آگے جائیں تو کوٹ دھمیک کا گاؤں اور اس کے آس پاس دور دور تک پھیلے ہوئے کھیت نظر آتے ہیں۔آج تاریخ کے قدموں کے مٹتے نقوش پر قدم رکھتا ہوا میں یہاں پہنچا ہوں۔ یہ پوٹھوہار کا خوب صورت علاقہ ہے جہاں شہاب الدین غوری نے اپنی زندگی کی آخری رات گزاری تھی۔ کوٹ دھمیک کے ایک ٹیلے پر کھڑے ہو کر میں 800 سال پہلے کی رات کا تصور کرتا ہوں۔ دور دور تک تاریکی کا سمندر پھیلا ہوا ہے۔ شہاب الدین غوری کا خیمہ ایک ٹیلے پر ایستادہ ہے جس کے اطراف یہاں وہاں اس کے لشکر کے سپاہی تھک کر سو رہے ہیں۔ یہ سپاہی افغانستان کے علاقے غور سے آ کر پوٹھوہار کے اس دور افتادہ گاؤں میں کیا کر رہے تھے؟ وہ دراصل اپنے سلطان شہاب الدین غوری کے ہمراہ پنجاب میں کھوکھروں کی طرف سے ہونے والی بغاوت کا سدِ باب کرنے آئے تھے۔ کھوکھروں کی بغاوت کی اطلاع ملنے پر شہاب الدین غوری برق رفتاری سے لاہور پہنچا تھا۔ کھوکھروں کی بغاوت نے اسے بے چین کر دیا تھا۔ پنجاب پہنچ کر اس نے اپنے خلاف اٹھنے والی اس بغاوت کو سختی سے کچل دیا تھا۔ یہ اس کی بڑی کامیابی تھی۔ اب وہ پنجاب کی طرف سے مطمئن تھا اور اسی اطمینان کے ساتھ اب وہ واپس اپنے آبائی علاقے غور جا رہا تھا۔
غور افغانستان کا ایک تاریخی شہر ہے جہاں شہاب الدین پیدا ہوا تھا‘ اور جس کی نسبت سے وہ غوری کہلاتا تھا۔ مسلسل سفر اور کھوکھروں سے سخت مقابلے کے بعد غوری کا لشکر تھک چکا تھا۔ وہ کتنے ہی دنوں سے نہیں سوئے تھے۔ سوہاوہ پہنچنے پر شہاب الدین غوری نے فیصلہ کیا کہ سپاہیوں کو سستانے کے لیے وقت دیا جائے۔ فیصلہ کیا گیا کہ سڑک سے ہٹ کر کیمپ لگایا جائے تاکہ کئی راتوں سے جاگے ہوئے سپاہیوں کو آرام کا موقع ملے۔ کوٹ دھمیک پوٹھوہار کا ہرا بھرا علاقہ تھا جہاں درختوں کی بہتات تھی۔ یہ پُر فضا مقام آرام کے لیے بہترین انتخاب تھا۔ یہ 800 سال پہلے کی بات ہے جب بجلی اور سٹریٹ لائٹس کا تصور بھی نہیں تھا۔ گاؤں میں رات کا آغاز جلدی ہو جاتا تھا۔ دن بھر کھیتوں میں مشقت کرنے کے بعد مرد اور عورتیں سرِ شام رات کا کھانا کھا کر اور عشاء کی نماز پڑھ کر سو جاتے تھے۔ پوٹھوہار کی راتیں گہرے اندھیروں میں لپٹی ہوتی تھیں۔ وہ بھی ایسی ہی اندھیرے میں ڈوبی ہوئی ایک رات تھی۔ سلطان شہاب الدین کا خیمہ ایک اونچی جگہ پر لگایا گیا تھا۔ خیمے پر چند خدام متعین تھے۔ یوں بھی یہاں کس بات کا ڈر تھا؟ کھوکھروں کی بغاوت پہلے ہی کچل دی گئی تھی۔ کئی راتوں کے جاگے ہوئے سپاہی میٹھی نیند سو رہے تھے۔ رات گہری اور خاموش تھی جو کئی اسرار کو اپنے دامن میں لیے ہوئے تھی۔ اس رات کے دامن سے جانوروں کا ایک غول آہستہ آہستہ اس ٹیلے کی جانب بڑھ رہا تھا جہاں شہاب الدین غوری کا خیمہ ایستادہ تھا۔
پوٹھوہار میں درختوں کے جھنڈ کو ''رَکھ ‘‘ کہتے ہیں۔ ان رَکھوں اور اونچے نیچے ٹیلوں میں کئی طرح کے جنگلی جانور پائے جاتے ہیں۔ راتوں کو یہ جانور کُھلی فضاؤں میں آزاد گھومتے رہتے ہیں۔ اُس رات بھی سلطان کے خیمے کو دیکھ کر جانوروں کا ایک غول ایک دوسرے سے مناسب فاصلہ رکھ سلطان کے خیمے کی طرف بڑھ رہا تھا‘ لیکن اس بھید بھری رات میں جانوروں کی یہ حرکت معمول کی نہیں تھی۔ غور سے دیکھنے پر پتا چلتا تھا کہ یہ عام جانور نہ تھے۔ سچ پوچھیں تو وہ جانور تھے ہی نہیں بلکہ جانوروں کی کھالوں میں ملبوس سلطان کے وہ دشمن تھے جو اس کا پیچھا کرتے ہوئے یہاں تک آ پہنچے تھے اور جنہوں نے آج کی اس تاریک رات میں اپنے انتقام کی پیاس کو بجھانا تھا۔ سلطان کے خیمے میں چراغ روشن تھا اور کچھ خدام خیمے کے ارد گرد پہرہ دے رہے تھے۔ جانوروں کی کھال اوڑھے یہ لوگ کون تھے اور وہ سلطان کی جان کے درپے کیوں تھے؟ اس راز کو جاننے کے لئے ہمیں تاریخ کے سفر میں کچھ پیچھے اور پوٹھوہار کی سرزمین سے دور افغانستان جانا ہو گا۔
یہ افغانستان کا شہر غور ہے‘ ہرات اور غزنی کے درمیان طاقت کا ایک اہم مرکز جہاں سلطان علاؤالدین ایک نئی طاقت کے روپ میں اُبھر رہا ہے۔ غزنویوں کے اقتدار کا سورج ڈھل رہا ہے۔ محمود غزنوی کا انتقال 1030 میں ہو چکا تھا اور اب اس کے بیٹے حصولِ اقتدار کی جنگ میں آپس میں دست و گریباں تھے۔ غور کے سلطان علاؤالدین کے کئی عزیز غزنویوں سے چپقلش میں مارے گئے تھے‘ جن کا انتقام لینے کیلئے علاؤالدین نے غزنی شہر کو جلانے کا حکم دیا تھا۔ کہتے ہیں غزنی اس آگ میں سات دن اور سات راتیں جلتا رہا۔ اسی بنا پر اسے سلطان علاؤالدین کو ''جہاں سوز‘‘ کا لقب دیا گیا۔ علاؤالدین کے دو بھانجے غیاث الدین اور شہاب الدین غوری تھے۔ سلطان علاؤالدین اور اس کے بیٹے سیف الدین کی وفات کے بعد 1160ء میں غیاث الدین حکمران بنا۔ غیاث الدین کو اپنے چھوٹے بھائی شہاب الدین کی صلاحیتوں پر بھروسہ تھا۔ اس لیے اس نے کچھ علاقے اپنے بھائی کے حوالے کر دیے۔ شہاب الدین شروع سے ہی معرکہ آرائی کا شیدائی تھا۔ اسے ہروقت اپنے جوہر دکھانے کیلئے ایک نیا چیلنج اور نیا ہدف چاہئے تھا۔ 1173ء میں شہاب الدین غوری نے افغانستان کے ایک اہم شہر اور جنگی مرکز غزنی پر قبضہ کر لیا۔ اس کامیابی سے اس کے اعتماد میں اضافہ ہو گیا اور وہ اپنے بڑے بھائی کی قیادت میں مختلف مہمات میں اپنی جنگی مہارتوں کے جوہر دکھانے لگا۔ اب غزنوی سلطنت آخری ہچکیاں لے رہی تھی‘ اور غوری خاندان کے اقتدار کا سورج طلوع ہو رہا تھا۔ اس کا بڑا بھائی غور کا حکمران اور غوری سلطنت کا سلطان تھا جبکہ خود شہاب الدین غزنی کا گورنر تھا۔ وہ ہندوستان پر قبضے کا خواب دیکھ رہا تھا۔ اب وہ افغانستان سے نکل کر دوسرے علاقوں کو فتح کرنا چاہتا تھا۔ تب اس کی نگاہ ہندوستان کی طرف گئی۔ وہی ہندوستان جس کی خوشحالی اور دولت کے چرچے ہر طرف تھے۔ اس کے سامنے محمود غزنوی کی مثال تھی جس نے ہندوستان پر ایک نہیں سترہ حملے کیے تھے‘ لیکن محمود غزنوی کا 1030ء میں انتقال ہو چکا تھا۔ درمیان میں تقریباً 150 سالوں کا وقفہ آچکا تھا۔ یہ 1175-76ء کی بات ہے‘ جب شہاب الدین غوری اپنے خواب کی تعبیر کے تعاقب میں نکل کھڑا ہوا۔ ہندوستان میں داخلے کے لیے اس نے درۂ گومل کا انتخاب کیا۔ اس کے سامنے پہلا بڑا ہدف ملتان تھا‘ جو اس وقت اپنی خوشحالی کے حوالے سے شہرت رکھتا تھا۔ شہاب الدین کی فوج نے ملتان کو فتح کر لیا۔ اس کی اگلی منزل اُچ کا شہر تھا جو اس زمانے میں طاقت کا اہم مرکز تھا۔ اُچ کو تسخیر کرنے کے بعد شہاب الدین کا اعتماد بڑھ گیا تھا۔ اب اس کی نگاہیں ہندوستان کی خوشحال ریاست گجرات پر تھیں لیکن وہاں تک پہنچنا آسان نہیں تھا۔ اس کیلئے اسے تھر کا وسیع و عریض صحرا عبور کرنا تھا‘ مگر خطروں سے کھیلنا شہاب الدین غوری کا دل پسند مشغلہ تھا۔ اس نے اپنی فوج کو کُوچ کا حکم دیا۔ کچھ ہی دیر میں تھر کا صحرا ریت اور مٹی کے غبار میں چُھپ گیا تھا۔ وسعتِ تمنا کا سفر اسے انجانے راستوں پر لے جا رہا تھا۔ (جاری)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں