چکوال کے گائوں بھلہ میں غازی مرید حسین کے مزار کے عقبی وسیع کچے صحن میں دن سہ پہر میں ڈھل رہا تھا اور بابو غلام اکبر چارپائی پر بیٹھے ہمیں غازی مرید حسین کی کہانی سنا رہے تھے۔ میں کہانی کے طلسم میں کھویا ہوا تھا اور نہیں چاہتا تھا کہ اس میں کوئی وقفہ آئے۔بابو غلام اکبر کی یاد داشت بلا کی تھی‘ واقعات کی تفصیلات ‘ کرداروں کے نام‘ تاریخیں اور سال ان کے ذہن پر نقش تھے۔ شاید غازی مریدحسین کی یہ کہانی انہوں نے اپنے والد سے کئی بار سنی ہو گی اور پھرلوگوں کوکئی بار سنائی ہو گی۔ چائے پیتے ہوئے میں نے غلام اکبر صاحب سے پوچھا کہ غازی مرید حسین عین فصلوں کی کٹائی کے موسم میں گائوں چھوڑ کر کہاں چلے گئے تھے؟غلام اکبر صاحب نے دھریک کے جھولتے ہوئے درخت کو دیکھا اور بولے: غازی مرید حسین کا ایک ہی ٹھکانہ ہو سکتا تھا ‘ چاچڑ شریف میں ان کے پیر خواجہ عبدالعزیز صاحب کا ڈیرہ‘ جن کے ساتھ غازی مرید حسین کو دلی لگائو تھا۔ پیر صاحب نے اپنے نوجوان مرید کو پریشان حال دیکھا تو اس پریشانی کی وجہ پوچھی ‘ غازی مرید نے حضورﷺ کی شان میں رام گوپال کی گستاخی کا احوال بتایا۔ پیر عبدالعزیز نے غازی مرید حسین کی دل جوئی کی۔ ان کا خیال تھا کہ یہ عارضی کیفیت ہے ‘کچھ دنوں کی بات ہے پھر سب کچھ معمول پر آ جائے گا‘ لیکن یہ کیفیت عارضی نہ تھی۔ اس وقت کی فرنگی حکومت نے مسلمانوں کے شدید احتجاج کے باوجود رام گوپال کے خلاف کوئی قانونی کارروائی نہیں کی تھی البتہ اس کی حفاظت کی خاطر اس کا تبادلہ حصار کر دیا گیا تھا۔ جب حکومتی سطح پر انصاف کے دروازے بند ہو گئے تو غازی مرید نے فیصلہ کیا کہ وہ اس گستاخی کا بدلہ لے گا۔ بظاہر یہ ایک ناممکن کام تھا کہاں چکوال کا چھوٹا سا گائوں بھلہ اور کہاں ایک اجنبی شہر حصار۔ پھر جسمانی لحاظ سے بھی دبلے پتلے غازی مرید حسین اور تنو مند رام گوپال کا کوئی مقابلہ نہ تھا لیکن حکومت کی بے حسی اورانصاف کے اداروں کی مجرمانہ خاموشی نے غازی مرید حسین کو بے چین کر دیا تھا۔
بابو غلام اکبر صاحب کہانی سناتے سناتے رکے اور میز پر کانچ کے جگ سے گلاس میں پانی ڈال کر کچھ گھونٹ لیے اور کہانی کو آگے بڑھایا۔ نوجوان غازی مرید حسین کو اپنے ایک عزیز شیر محمد کا خیال آیا جو فوج میں نائک کے عہدے پر تھا اور ان دنوں راولپنڈی میں ہوتا تھا۔ مرید حسین شیر محمد کے پاس چلا گیا اور باتوں باتوں میں اس سے ایک پستول کا تقاضا کیا لیکن شیر محمد نے کہا کہ اس کے لیے ایسا کرنا ممکن نہیں۔ غازی مرید حسین وہاں سے مایوس اُٹھا۔اب کہاں سے مدد مل سکتی ہے؟ اچانک اس کے ذہن میں حاجی تورنگ زئی کا خیال آیا۔ حاجی تورنگ زئی ان دنوں فرنگیوں کے خلاف جہاد میں پیش پیش تھے۔ فرنگی ان کی جان کے در پے تھے لیکن حاجی صاحب علاقہ غیر میں اپنی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے تھے۔ غازی مرید حسین دشوار گزار راستوں سے ہوتا ہوا علاقہ غیر جا پہنچا۔غازی مرید حسین کی حاجی صاحب سے ملاقات تو ہو گئی لیکن یہاں سے بھی مقصد میں کامیابی نہ ہوئی۔غازی مرید حسین نے بھیرہ‘ سرگودھا‘ رسالپور اور کوئٹہ کا دورہ بھی کیا لیکن ناکام واپس لوٹنا پڑا۔ لیکن اس نے ہمت نہ ہاری اور دہلی کے لیے رختِ سفر باندھ لیا۔
میں نے کرسی پر پہلو بدلا اور غلام اکبر صاحب سے پوچھا کہ دہلی تو ایک اجنبی شہر تھا کیا وہاں غازی مرید حسین کا کوئی رشتے دار یا واقف کار تھا؟ غلام اکبر صاحب کہنے لگے :وہاں ہمارے علاقے سے تعلق رکھنے والا ایک شخص طورا خان رہتا تھا‘وہ محبتوں کا دور تھا‘ طورا خان خوش ہوا کہ اس کے علاقے سے مرید حسین اس کے پاس آیا ہے۔ طورا خان کا بیٹا سخی محمد غازی مرید کا ہم عمر تھا۔ غازی مرید نے سخی محمد کے ساتھ دہلی کے مختلف مقامات دیکھے خاص کر نظام الدین اولیا ؒکی درگاہ پر جا کر اسے سکون محسوس ہوا لیکن یہ عارضی سکون تھا۔ وہ دہلی کے چاندنی چوک بھی گیا لیکن اس کے دل کو قرار نہ آیا۔ پھر سخی محمد اسے دہلی کی جامع مسجد لے گیا۔ مسجد کی وسیع و عریض عمارت کو دیکھ کر وہ حیران رہ گیا۔ ابھی تک غازی مرید حسین نے سخی محمد اور اس کے والد طورا خان کو اپنے دہلی آنے کے مقصد سے آگاہ نہیں کیا تھا۔ وہ لوگ یہی سمجھ رہے تھے کہ دہلی کے تاریخی مقامات کی کشش اسے یہاں لے آئی ہے۔ مسجد سے نکل کر وہ سامنے دکانوں پر چلے گئے اچانک ایک دکان پر مرید حسین کو اپنی مطلوبہ چیز نظر آئی‘ یہ ایک چاقو تھا۔ مرید حسین نے چاقو خرید کر جیب میں رکھ لیا۔اب سخی محمد کو راز بتانے کا وقت آگیا تھا۔مرید حسین نے سخی محمد سے حلف لیا کہ وہ یہ راز کسی کو نہیں بتائے گا۔سخی محمد منصوبہ سُن کر ششدر رہ گیا لیکن وعدے کے مطابق اس نے گھر میں کسی کو نہ بتایا۔ پھر وہ شام آگئی جب مرید حسین ایک بس پر بیٹھ کر اپنی منزل حصار کی طرف جا رہا تھا۔رات کہیں بسر کی اور پھر حصار میں رام گوپال کے گھر کے قریب پہنچ گیا۔یہ اگست کا مہینہ تھا اور ہوا میں حدت تھی۔ اسے رام گوپال گھر سے باہر مل گیا۔اسے دیکھ کرمرید حسین کے اندر طوفان آنے لگے۔اسے رام گوپال کے ساتھ فرنگی حکومت کے اہل کاروں اور انصاف کے اداروں پر بھی غصہ تھاجنہوں نے رام گوپال کی حضور ﷺ کی شان میں ناقابلِ بیان گستاخی کی سزا نہیں دی تھی۔مرید حسین تیزی سے رام گوپال کی طرف بڑھا اور چاقو کا وار کیا۔ایک ہی وار مہلک ثابت ہوا۔ لوگوں نے مرید حسین کو پکڑ لیا اور اسے پولیس کے حوالے کر دیا۔حصار جیل میں قیام کے دوران اس پر قتل کے الزام میں مقدمہ چلا اور پھانسی کی سزا سنا دی گئی۔ اپیل کی استدعا منظور ہو گئی۔لاہور کے بہترین وکیلوں نے مقدمہ لڑا اور ایک وقت ایسا بھی آیا کہ جج خود بھی شک میں مبتلا ہو گئے کہ کیا مرید حسین نے واقعی قتل کیا تھا‘ لیکن مرید حسین کا اپنا اقراری بیان اس کے خلاف تھا۔وکیلوں کی کوششوں کے باوجود مرید حسین نے صاف لفظوں میں قتل کا اقرار کیا اور اس کی وجہ رام گوپال کی گستاخی کو قرار دیا۔دوسری بار بھی جج نے سزائے موت برقرار رکھی۔آخر میں مرید حسین کو حصار سے جہلم کی جیل میں منتقل کر دیا گیا۔پھر وہ دن آگیاجب جسم سے روح کے طائر نے پرواز کرنی تھی۔یہ 1937ء کا سال او ر ستمبر کی 24تاریخ تھی۔عمر بھر کی بے قراری کو آج قرار آنا تھا۔غازی مرید حسین نے غسل کرکے نوافل ادا کیے۔تختہ ٔ دار پر آخری وقت غازی مرید حسین کے لبوں پر درود پاک کا ورد تھا۔پھر اشارہ ملتے ہی اس کے پاؤں کے نیچے سے لکڑی کا تختہ کھنچ لیاگیااور غازی مرید پلک جھپکتے میں وجود سے ابد کے خطے میں پہنچ گیا۔جہلم ‘ دینہ ‘ سوہاوہ ‘خانپور ‘سہگل آباد میں نمازِ جنازہ کے بعد آخری نمازِ جنازہ بھلہ میں ادا کی گئی لوگوں کا ایک سیلاب تھا جو نوجوان غازی مرید حسین کا آخری دیدار کرنا چاہ رہا تھا۔ میں نے غازی مرید حسین کے مزار پر نگاہ ڈالی جہاں ایک صدی گزرنے کے بعد بھی لوگوں کا ہجوم تھا۔ اب سہ پہرشام میں ڈھل رہی تھی میں نے غلام اکبر صاحب کا شکریہ ادا کر کے رخصت چاہی۔ وہ احاطے کے وسیع پھاٹک تک مجھے چھوڑنے آئے۔ واپسی کے سفر میں میرے بائیں جانب غروبِ آفتاب کا سحر انگیز منظر تھا۔میں نے سوچا کہ غازی مرید حسین بھی تو اس دھرتی کا اُجلا آفتاب تھا جس کی روشنی ہمیشہ دلوں میں بکھرتی رہے گی اور جس کی آتشِ خاموش روح کے نہاں خانوں میں تادیر سلگتی رہے گی۔وہ ایک ایسا روشن آفتاب تھا جو کبھی غروب نہیں ہوگا۔ (ختم)